ابو محمد عبداللہ العاصد الدین اللہ دولت فاطیہ کا چودواں اور خلیفہ آخری 555 ھ تا 567 ھ
فائز کے انتقال کے طلائع نے عاصد کو خلیفہ بنا دیا جو حافظ کا پوتا اور اس کے بیٹے یوسف کا بیٹا تھا ۔ عاصد کم سن تھا اس لیے طلائع سلطنت کے امور انجام دینے لگا ۔ اس کو سیاسی اقتدار حاصل ہوا تو اس نے امرا پر دباؤ ڈالنا شروع کیا ۔ اس کے علاوہ عاصد سے اپنی بیٹی کی شادی کردی ۔ اس سے عاصد کے عزیزوں کو یقین ہوگیا کہ طلائع خلافت کے سلسلے کو ان سے قطع کرنا چاہتا ہے ۔ عاصد کی پھوپی نے طلائع کے قتل کا بیڑا اٹھایا ۔ طلائع جب ڈیورھی سے گزر رہا تھا تو اس پر قاتلانا حملے کرکے اس کو مجروع کردیا ۔ اس نے عاصد اس بارے میں استفعار کیا ۔ عاصد نے اس واقع سے لاعلمی کا اظہار کیا ۔ اس پر طلائع نے عاصد کی پھوپی کو قتل کروادیا ۔ پھر اس نے وزارت کا عہدہ اپنے بیٹے رزیک کے حوالے سپرد کیا گیا اور بیٹے سے کہا کے شاور جو صعید کا والی ہے ہوشیار رہے اور اس کو نہیں چھیڑے ۔
شاور کی وزارت اور برطرفی
رزیک نے شاور کو برطرف کردیا ۔ شاور نے 558ھ ایک بڑی فوج جمع کرکے قاہرہ کا قصد کیا ۔ رزیک فرار ہوا لیکن گرفتار ہو کر قتل کر دیا گیا اور عاصد کو شاور کو وزیر کا عہدہ دینا پڑا ۔ لیکن عاصد کا صاحب الباب ضرغام شاور کا مخالف ہوگیا اور نو مہینے کے بعد 559ھ میں اسے قاہرہ سے نکلال دیا اور شاور شام فرار ہوگیا ۔
نورالدین کا مصر لشکر بھیجنا
شاور نے نور الدین محممود بن زنگی کے پاس پناہ لی ۔ شاور نے نور الدین کو مصر پر حملہ کرنے کے لیے مدد مانگی اور اس کے لیے تین شرطیں پیش کیں ۔ 1)) بلاد فاطمیہ کا ایک تہائی محصول ادا کرے گا ۔ 2)) اس کا لشکر سپہ سلار شیر کوہ (اسد الدین) کی سردگی میں مصر رہے گا ۔ 3)) وہ خود اس کے ماتحت رہے کر وازرت کا کام انجام دے گا ۔ نیز اس سے صلیبیوں کے مقابلے میں قوت حاصل ہوجائے گی ۔ پش و پیش کے بعد نور الدین نے اس کی پیش کش قبول کرلی ۔
آخر نور الدین نے شیر کوہ کی سردگی میں 559ھ میں ایک لشکر مصر روانہ ہوا ۔ طرابلس کے مقام پر مصری لشکر نے ضرغام کے بھائی کی سردگی میں روکنے کی کوشش کی ۔ لیکن وہ اور اس کا بھائی دونو بھائی ہلاک ہوگئے ۔
شیر کوہ کی واپسی
وزیر بنے کے بعد شاور نے ہوشیاری سے شیر کوہ کو قاہرہ حدوں سے باہر کر دیا کہ خود محفوظ ہوگیا ۔ شیر کوہ نے شرائط کی تکمیل چاہی تو اس نے انکار کردیا اور شیر کوہ کو مصر کی حدودوں سے باہر نکالنے کی کوشش کی ۔
مگر شیر کوہ نکالنا اتنا آسان نہیں تھا ۔ اس نے اپنے بھتیجے صلاح الدین کو بلبیس اور ضلع شرقی پر حملہ کرنے کا کہا ۔ شاور نے صلیبی بادشاہ امل ریک سے مدد مانگی کہ شامی فوج کو مصر نکالا جائے ۔ امل ریک صلیبی لشکر کے پہنچ گیا ۔ شامی فوج بلبیس میں تھی اور مصری اور صلیبی فوجوں نے اس کا محاصرہ کر رکھا تھا ۔ اس عرصہ کو تین ماہ بیت گئے ، لیکن شامی فوج ڈٹی رہی ۔ اس اثنا میں نور الدین نے شام میں جو کاروائیں کیں اس سے صلیبی پریشان ہوگئے ۔ ادھر شیر کوہ کی فوج بھی غذائی قلت کا شکار ہو رہی تھی ۔ اس لیے شیر کوہ نے شاور سے محاہدہ کرلیا اور اپنی فوج کو مصری اور صلیبوں کے درمیان سے گزرتا ہوا شام روانہ ہوگیا ۔
گو اس وقت نور الدین شاور کے دھوکے میں آگیا اور شامیوں کو اس مہم جوئی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ لیکن ٓآئندہ کے لیے اسے تجربہ ہوگیا ۔ اس نے دیکھ لیا کہ حکومت فاطمیہ کی سیاسی حالت کیسی خراب ہوگئی ہے ۔ وہاں سازش اور غداری کا بازار گرم ہے اور ہر عہدہ دار نفاق اور خود غرضی کی مہلک بیماری میں مبتلا ہے ۔ خلیفہ کی کوئی وقت نہیں رہی ہے ۔ ان واقعات کی بنا پر اس کا خیال ہے کہ مصر فتح کرنا کوئی مشکل نہیں ہے ۔ شیر کوہ نے اس کی توجہ نور الدین زنگی کو دلائی اور خلیفہ بغداد نے بھی اس کی حوصلہ افزئی کی ۔ مگر نور الدین زنگی کوئی جلد بازی نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
شیر کوہ مصر میں
562ھ میں ایک بڑا لشکر جس میں شام کے متعدد افراد کے علاوہ دو ہزار چیدہ سوار بھی شامل تھے ۔ شیر کوہ کی سردگی میں روانہ کیا ۔ شاور نے اس لشکر کے مقابلے کے لیے صلیبیوں کی مدد حاصل کی اور ان کو تیاری کے لیے بہت سا روپیہ دیا ۔ صلیبی فلسطین سے روانہ ہوئے کہ شیر کوہ کو روکیں ۔ شیر کوہ نے اس خوف سے کہ صلیبیوں سے کہیں جھڑپ نہیں ہوجائے ، اس لیے وہ ان کے مقبوضات کو دائیں جانب چھوڑ تا ہوا طفیح پہنچا جو دریائے نیل پر واقع ہے ۔ اس نے دریائے نیل کو غبور کرنے کے بعد غربیہ پر قبضہ کرلیا ۔ جہاں سے قاہرہ چالیس میل رہے جاتا ہے ۔ اس نے دیکھا کہ امل ریک اپنی فوج کے ساتھ دریا کے مشرقی جانب پہنچ چکا ہے ۔ دونوں فوجیں دریائے ایک دوسرے کے سامنے دریائے نیل کی دونوں جانب قاہر کی طرف بڑھیں ۔ گویا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نیل پر شرط کھیل رہی ہیں ۔ امل ریک نے اپنے خیمے فسطاط کے قریب ہی لگائے ۔ شیر کوہ جیزہ میں ایسے مقام پر ٹہرا ۔ جو بالکل صلیبوں کے روبرو تھا اور ایک دوسرے کی کاروائیوں کے منتظر تھے ۔ امل ریک کو عاصد سے ملنے کا موقع ملا ۔ وہ شاور کی بدیانی اور دھوکے بازی سے واقف تھا ۔ اس لیے امل ریک نے عاصد سے خود معاہدہ کیا ۔ اس کے مطابق دو لاکھ دینار اس وقت صلیبیوں کو دے اور اتنی ہی رقم کچھ مدت کے بعد دے گا ۔ اس موقع پر صلیبیوں کی عاصد کے محل میں بازیابی کی تفیصل اسٹانلی لین پول نے لکھی ہے ۔
اس معاہدے کے بعد امل ریک نے دریائے نیل پر کشتیوں کا ایک پل بنوانے کی کوشش کی ۔ لیکن دوسرے کنارے پر دشمن موجود تھا اس لیے اس نے اس مقام سے کچھ آگے غربی کنارے پر فوج کو اتارنے میں کامیاب ہوگیا ۔ جب کہ شیر کوہ غفلت میں رہا ۔ بہت دیر کے اسے معلوم ہوا کے دشمن اس کا پیچھا کر رہا ہے تو وہ پیچھے صعید کی طرف ہٹ گیا ۔ لیکن صلیبوں نے اسے بابان کے مقام پر جالیا ۔ اسے اپنے جاسوں سے خبر مل چکی تھی کہ مصری اور صلیبی دونوں کشیر تعداد میں ہیں ۔ شیر کوہ نے دوسرے سالاروں سے مشورہ کیا ۔ سب نے متفق ہوکر کہ اب لڑنا مناسب نہیں لہذا بہتر یہی ہے کہ واپس شام کی طرف لوٹ جائیں ، اگر ہمیں شکست ہوئی تو مصری اور صلیبی ہمیں ہلاک کردیں گے ۔ لیکن امیر برغش (شرف الدین) نے ان کی رائے سے اختلاف کیا اور کہا جو شخص قید اور قتل سے ڈرتا ہے اسے بادشاہ کی خدمت میں نہیں بلکہ اپنی بیوی کے ساتھ گھر پر رہنا چاہیے ۔ ہم اگر بلا جد و جہد کے واپس گئے تو نور الدین ہماری جائدادیں ضبط کر لے گا اور ہمیں سزا دے گا کہ تم مسلمانوں کا مال خوشی سے سے لیتے ہو ۔ لیکن ضرورت کے وقت ان کے دشمنوں سے لڑتے نہیں ہو ۔ تم نے مصر کو کفار کے حوالے کردیا اور نور الدین اس میں حق بجانب ہوگا ۔ شیر کوہ اور دوسرے امرا نے اس تائید کی اور اس رائے پر سب نے اتفاق کیا ۔
صلیبیوں کی شکست
شیر کوہ نے فوج کو ترتیب دیا اور اس نے بڑی حکمت عملی سے مصریوں اور صلیبوں کو شکست دی ۔ جو حیرت انگیز ہے کہ ایک مختصر فوج نے کثیر تعداد پر فتح پائی ۔ اس کے بعد شیر کوہ اسکندریہ روانہ ہوا اور راستہ کے تمام شہروں کو فتح کرلیا اور ان پر اپنے بھتیجے صلاح الدین کو ان کا عامل بنایا اور خود صعید کی طرف بڑھا اور اسے بھی زیر کرلیا ۔
شیر کوہ شام واپسی
مصری اور صلیبی شکست کھاکر قاہر آئے اور دوبارہ تیاری کر کے اسکندریہ روانہ ہوئے ۔ ان سے لڑنے کے لیے صلاح الدین نے شیر کوہ سے مدد طلب کی ۔ شیر کوہ صعید ان لڑنے کے لیے روانہ ہوا ۔ لیکن بعض ترکوں نے جو اس کے ساتھ تھے شاور کی ریشہ کاروائیوں کی وجہ سے ساتھ چھوڑ دیا تھا ۔ لہذا صلیببیوں اور مصری نے صلح کی تجوویز پیش کی تو شیر کوہ کو قبول کرنی پڑی اور اس نے اسکندریہ سے اپنا قبضہ اٹھا لیا اور ۵۶۲ھ میں دمشق واپس آگیا ۔
صلیبیوں کی لوٹ مار
صلیبیوں اور مصریوں کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ صلیبیوں کا کچھ حصہ قاہرہ میں رہے گا اور شہر کے دروازوں پر ان کے سپاہی متعین کئے جائیں گے کہ نور الدین شہر پر حملہ نہ کرسکے ۔ مصری ہر سال مصر کے محاصل سے ایک لاکھ دینار دیں گے ۔ لیکن صلیبی لشکر خود ہی شہر پر آفت ڈھانے لگا ۔ مصری گھبرا گئے ۔ اس علاوہ صلیبیوں نے اپنے بادشاہ مری کو ترغیب دی کہ مصر پر قبضہ کرلیا جائے ۔ کیوں کہ مصری حکومت بہت کمزور ہوچکی ہے ۔ مری نے پس و پیش کے بعد ایک فوج روانہ کی جس نے 565ھ میں بلبیس پر قبضہ کرلیا اور عادت کے مطابق لوٹ مار قتل و غارت کی اور شہر کو برباد کردیا ۔ اس اثنا میں چند امیروں نے جو جو شاور کے مخالف تھے صلیبیوں سے مراسلت کی اور انہیں مدد دینے کا وعدہ کیا ۔ صلیبیوں نے ببلیس سے آگے بڑھ کے قاہرہ کا محاصرہ کرلیا ۔ اہل قاہرہ نے صلیبیوں کو قاہرہ میں داخل نہ ہونے دیا ۔ صلیبی اگر ببلیس میں اچھا روئیہ اختیار کرتے تو وہ بہ آسانی قاہرہ میں داخل ہوجاتے ۔
شاور کی تگ و دو
شاور فسطاط میں آگ لگوادی اور اہل شہر کو قاہرہ منتقل ہونے کی ہدایت کی ۔ تقریباً 53 دن قاہرہ جلتا رہا ۔ لیکن صلیبیوں نے شہر کا محاصرہ جاری رکھا ۔ اہل قاہرہ کے لیے یہ دن سخت گزرنے لگے ۔
شاور نے اپنی فطرت کے مطابق صلیبیوں کے بادشاہ کو کہلا بھیجا کہ میرے اور تمہارے درمیان دوستی ہے ۔ مجھے عاصد اور نور الدین کا خوف ہے کہ کہیں وہ مل کر تمہارا مقابلہ نہ کریں ۔ بہتر ہم صلح کرلیں ، میں تمہیں دس لاکھ دینار دوں گا ۔
شاور کا یہ طرز عمل خود غرضی پر مبنی تھا ۔ اسے خوف تھا کہ نور الدین مصر پہنچ گیا تو اس کی وزارت بھی نہیں رہے گی ۔ صلیبوں نے دیکھا کہ مصر کو فتح کرنا مشکل ہے اور فتح کے بعد بھی انہیں نور الدین سے مقابلہ کرنا پڑے گا ۔ اس لیے صلیبیوں نے صلح کر لی ان کا منشا تھا کہ نور الدین سے مقابلے کی تیاری میں صرف ہوگی اور شاور نے ایک لاکھ رقم اسی وقت ادا کردی اور باقی رقم کی فراہمی کی بہت کوشش کی ۔ مگر کامیاب نہیں ہوا کیوں کہ فسطاط کے باشندے تو اپنا مال و متاع جل جانے سے پہلے ہی مفلس ہوگئے تھے ۔ قاہرہ کی اکثر آبادی لشکریوں اور غلاموں کی تھی ۔ اس لیے روپیہ اکھٹا نہ ہوسکا ۔
نور الدین کی مدد
جس زمانے میں صلیبی قاہرہ کا محاصرہ کئے تھے اور شاور ان سے صلح کی گفت و شنید کر رہا تھا ۔ عاصد نے شاور کے مشورے کے بغیر نورالدین سے مراسلت کر رہا تھا اور اس سے وعدہ کیا کہ اگر اس کی مدد کرے تو اسے ایک تہائی بلاد مصر دیا جائے گا اور اس کے لشکر کو مصر میں ٹہرنے کی اجازت دی جائے گی ۔ عاصد نے اپنے خط میں عورتوں کے بال روانہ کیے ۔
نور الدین کو کچھ صلیبیوں پر غصہ آیا اور کچھ مسلمانوں کی حالت زار پر غیرت آئی ۔ وہ خود مصر روانہ ہوجاتا لیکن اسے عراق کے معملات نے مصروف رکھا ہوا تھا ۔ اس لیے اس نے اس دفعہ بڑے پیمانے پر لشکر کی تیاری کی اور اپنے مخصوص رسالے میں سے دو ہزار سوار چنے اور چھ ہزار بہادر ترکی سپاہیوں کی فوج مرتب کی اور اس لشکر کا سالار شیر کوہ کو بنایا ۔ اس کے ساتھ شام کے با اثر امرا کو بھی روانہ کیا ۔ جن میں شیر کوہ کا بھتیجا صلاح الدین بن یوسف بھی شامل تھا ۔
564ھ میں یہ مہم مصر روانہ ہوئی ۔ اس لشکر کو قاہرہ میں داخلے کے لیے زیادہ معرکہ آرائی نہیں کرنا پڑی ۔ صلیبیوں کا لشکر قاہرہ کے سامنے باقی رقم کے انتظار میں ٹہرا ہوا تھا ۔ شامی لشکر صلیبیوں سے بچ کر قاہرہ میں داخل ہوگیا ۔ صلیبیوں کو بغیر کسی فائدے کے واپس جانا پڑا ۔
شیر کوہ کی وزارت
عاصد نے شیر کوہ کو خلعت اور اس کے لشکریوں کو انعام سے نوازہ ۔ شیر کوہ کا بڑھتا ہوا اقتدار شاور کے لیے تکلیف دے تھا ، وہ جان بوجھ کر محاہدے کی تکمیل میں دیر کرنے لگا ۔ جب شامی لشکر نے دیکھا کہ شاور بدعہدی پر تلا ہوا ہے تو اس کے قتل پر اتفاق کرلیا اور ایک دن موقع پا کر اس کو قتل کردیا اور اس کا سر عاصد کے پاس روانہ کیا ۔ عاصد بہت خوش ہوا اور شیر کوہ کو اپنا وزیر بنالیا اور الملک المنصور کا خطاب دیا ۔ شیر کوہ نے بھی وفاداری کا حلف اٹھایا ۔
صلاح الدین کی وزارت
شیر کوہ کو زیادہ عرصہ حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا اور اس کا 564ھ میں انتقال ہوگیا ۔ مرتے وقت اس نے اپنے ساتھیوں کو یہ وصیت کی کہ قاہرہ نہیں چھوڑیں اور اتفاق سے کام لیں ۔ لیکن اس ساتھیوں نے وزارت کے لیے بھاگ دوڑ اور آپس میں جھگڑنا شروع کیا ۔ لیکن عاصد صلاح الدین کی طرف مائل تھا ۔ وہ اپنے ساتھیوں میں سب میں چھوٹا تھا ۔ عاصد کا خیال تھا وہ اسے اپنے قابو میں رکھ سکتا ہے اور اسے اپنی طرف مائل کرکے باقی شامی لشکر کو مصر سے نکال سے گا اور عاصد نے صلاح الدین کو وزیر بنالیا ۔
لیکن صلاح الدین نے ہشیاری اور فیاضی سے مصریوں کو اپنا گریدہ بنالیا اور نور الدین سے بھی اپنے تعلقات خشگوار رکھے اور اپنے کو نورالدین کا نائب لکھتا تھا ۔ اس کے بعد عاصد کی حکومت بالکل کمزور ہوگئی اور صلاح الدین ہی مصر کا حقیقی حاکم تھا ۔ درالحکمۃ کو برخواست کرے اس کی جگہ مدرسہ شافیہ قائم کیا ۔ اس طرح دارلغزل کو مدرسہ مالکیہ میں بدل دیا ۔ شیعی قاضی کو برطرف کرکے قاہرہ میں شافعی قاضی مقرر کیا ۔ اس واقعہ کے عاصد تقریباً ڈیڑھ سال زندہ رہا ، مگر حکومت میں اس کا کوئی اثر نہیں رہا ۔
صلاح الدین کے خلاف بغاوت
صلاح الدین کے ان اقدامات سے شیعہ ناراض ہوگئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ صلیبیوں کے ذریعہ صلاح الدین کو مصر سے نکال دیا جائے اور انہوں نے اس کے لیے قیصر شاہی کے ایک حبشی خام موتمن الدولہ کا انتخاب کیا کہ خط اس کے ْذریعہ روانہ کیا جائے ۔ لیکن یہ خط صلاح الدین کے ہاتھ لگ گیا ۔ صلاح الدین نے تحقیات تو کروائیں لیکن کوئی کاروائی نہیں کی ۔ موتمن الدولہ ڈر کے مارے کچھ عرصہ قیصر سے نہیں نکلا ۔ ایک دن جب قیصر سے باہر نکلا تو صلاح الدین نے آدمی بھیج کر اس کو قتل کروا دیا ۔ اس واقع کے بعد مصر کے حبشی بھڑک اٹھے اور ان کے پچاس ہزار حبشی لڑنے کے لیے تیار ہوگئے ۔ صلاح الدین نے ان کو شکست دی اور اس نے ان شیعوں کو بھی قتل کروا دیا جو اس سازش میں شریک تھے ۔
جس دن سے نور الدین کو مصر میں اپنے لشکر کی کامیابی کی اطلاع ملی وہ اصرار کررہا تھا کہ فاطمی خطبہ موقوف کرکے عباسی خلیفہ کا مصر میں رائج کیا جائے ۔ لیکن صلاح الدین برابر تاخیر کر رہا تھا اور اس کے لیے مختلف بہانے بنا رہا تھا ۔ مگر جب نور الدین نے حکم دیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا ۔ یہ فیصلہ ہوا کہ عباسی خلیفہ کا خطبہ مصر میں پڑھانا چاہیے ۔ مگر کسی کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ منبر پر عباسی خلیفہ کا خطبہ پڑھے ۔ اتفاق سے عجم کا ایک عالم فقیہہ جشانی جسے امیر عالم کہتے تھے مصر آیا ۔ اس نے ماہ محرم 567ھ میں جمع کو خطیب سے پہلے منبر پر جاکر بنو عباس کا خطبہ پڑھ دیا ۔ حاضرین مسجد میں سے کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی ۔ صلاح الدین نے دوسرے جمع کو خطیبوں کو حکم دیا کہ مسجدوں میں بنو فاطمہ کے بجائے بنو عباس کا خطبہ پڑھائیں ۔ اسی زمانے میں عاصد سخت بیمار پڑا ۔ یہاں تک کے وہ بستر سے اٹھ نہیں سکتا تھا ۔ صلاح الدین نے مناسب نہیں سمجھا کہ ایسی حالت میں اسے اپنے خاندان کے خاتمہ کی اطلاع دی جائے ۔ وہ بد نصیب 567ھ میں اس دنیا سے چل بسا ۔
تہذیب و تدوین
عبدلمعین انصاری