(404 , 359 ق م)
درا دوم کے بعد اس کا بڑا بیٹا ارشک اردشیر دوم کے لقب سے بادشاہ بنا ۔ اس کابھائی خورس اردشیر کو قتل کرنے کی فکر میں تھا کہ اس ایک امیر اور مدبر تسیافرن نے یہ راز افشا کردیا ۔ ارد شیرنے اس کو قتل کرنے کا حکم دے دیا ، مگر اس کی ماں نے بیٹے کو راضی کر لیا کہ وہ چھوٹے بھائی کو معاف کردے اور اس کو اسے اپنے عہدے پر برقرار رکھتے ہوئے ایشائے کوچک بھیج دے ۔ حالانکہ یہ دوربینی کے خلاف تھا ۔ خورس نے ایشائے کوچک پہنچتے ہی یونانی اجیروں کی ایک فوج بھرتی کرنی شروع کی جس کا سالار کلارخ Clarchus تھا ۔ ان تیاریوں کے ساتھ وہ تقریباََ دو لاکھ فوج لے کر بابل بھائی کے خلاف جنگ کے لئے بڑھا ۔ کوناکسا Cunaxa جو بابل کے قریب تھا جنگ ہوئی ، یونانی فوج نے شاہی فوج کو گویا شکست دے دی تھی ، کہ پانسہ پلٹ گیا خورس اردشیر کو سامنے دیکھ کر اس پر ٹوٹ پڑا اور اسے زخمی کردیا ، مگر اس کے ساتھ ہی شاہی دستے نے اس کا کام تمام کردیا ۔ خورس کی موت کے بعد یونانی فوج کو اسلحہ رکھ دینے کا حکم دیا گیا مگر اس نے انکار کردیا ۔ شاہی فوج ان سے مقابلے کی ہمت نہیں کرسکی ، بادشاہ کو انہیں واپس جانے کی اجازت دینی پڑی ۔ راستے میں تسیافرن نے کلارخ اور دوسرے سالاروں کو دھوکہ دے کر گرفتار بھی کرلیا ، مگر پھر بھی انہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے اور زنوفن Xenophon اور دوسرے سرداروں کی قیادت میں واپس لوٹ گئے ۔ اس جنگ نے یونانیوں کو دلیر بنا دیا ، انہوں نے ایرانی فوج کی کمزوریوں اور داخلی ضعف کا پوری طرح اندازہ کرلیا اور آئندہ سکندر اعظم نے اس تجربہ سے پوری طرح فائدہ اٹھایا ۔
اس واقعہ کے بعد قدرتاََ ایران اور اسپارٹا کے حلیفانہ تعلقات ختم ہوگئے ۔ اہل اسپارٹانے ایشائے کوچک کے ایرانی مقبوضات ختم کرانے کی کوشش کی ، مگر وہ ایتھنز کی کشمکش کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکے ۔ دوسری طرف ایتھنزنے ایران سے دوستانہ تعلقات قائم کرلئے ۔ ایرانی حکومت نے بھی ایتھنزکی حمایت شروع کردی ، اس طرح اس نے اپنے وقار کو گرنے سے بچالیا ۔ اردشیرنے ایک فرمان کے ذریعے اعلان کردیا کہ ایشائے کوچک اور قبرص ایرانی سلطنت میںشامل ہے ۔ اس طرح کالیاس کے صلح کو ختم کردیا ۔
454 ق م میں لغابیش نے یونانیوں اور ایناروس کو شکست دے کر مصر پر دوبارہ تسلط قائم کرلیا تھا ۔ اس شورش کے بعد گو شورش ڈب گئی مگر کلیتاََ ختم نہیں ہوئی اور مصریوں نے ایک دوسرے سردار عمر طیو س Ameytaeus کی سردگی میں گوریلا جنگ جاری رکھی ۔ جس کا سلسلہ دارا دوم کے عہد میں جاری رکھا ، دارا دوم کے عہد میں ۴۰۵ ق م میں عمر طیوس کے پوتے جس کا نام بھی عمر طیوس تھا ، باضابطہ اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا ۔ گویا وہ پورے مصر میں اپنا سکہ نہیں بیٹھا سکا ، کوناکسا Cunaxaکی لڑائی میں مصری فوجیں موجود تھیں ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کا کچھ حصہ ایران کے قبضے میں تھا ۔
مصر کے انتیسویں خاندان کے پہلے بادشاہ نیفاؤروت یا نیفاؤرود Naifoairut نے مصر کو کلیتہً ایران کے تسلط سے آزاد کرالیا ۔ اس نے ہر اس سازش اور بغاوت کی ہمت افزائی کی جو ایرانی حکومت کو الجھن میں ڈال سکے ۔ اس کے جانشینوں نے اس پالیسی پر عمل کیا ۔ مصر کی خوش قسمتی تھی کہ کوناکساکی جنگ کے بعد ایشائے کوچک میں مختلف قبائل نے شورشیں پرپا کررکھیں تھیں ۔ دوسری طرف قبرص میں اواگورس Evagoras نے یونانیوں اور مصر کی حمایت حاصل کرکے بغاوت کردی اور ایرانی حکومت کے لیے مستقل خطرہ بن گیا ۔ ایرانی حکومت نے ایسی حالت میں ایک طرف ایتھنزسے تعلقات استوار کیا اور دوسری طرف اوارگوس کو رعایت دے کر مصحالت پر راضی کولیا ۔ سلامس Slamasa پر اور گورس کا قبضہ شاہ کے لقب کے ساتھ تسلیم کرلیا گیا ۔
ان تمام الجھنوں سے نجات پانے کے بعد 379 ق م ارد شیر نے ایک بڑی فوج مصر پر چڑھائی کے لئے بھیجی ، اس فوج کا سالار فرناباز Pharnabazus تھا اور اس فوج میں یونانی دستہ مشہور اتھنی جنرل افکراٹس Iphicratisکی سردگی میں تھا ۔ مصریوں نے شکست کے آثار دیکھ کر ممفیہ کے بند کو ٹور کر ارد گرد کی زمین کو زیر آب کردیا ۔ اس کے علاوہ ایرانی اور یونانی سالاروں میں اختلاف ہوگیا تھا ، اس لئے ایرانیوں کو واپس آنا پڑا ۔ اسی زمانے میں کے کادوسیان Cadassians نے بغاوت کردی ، ان کی قزاقانہ جنگ سے شاہی فوج سخت تنگ آگئی ، آخر ان کے دو سرداروں کو آپس میں لڑا کر انہیں اطاعت قبول کرنے پر راضی کرلیا ۔
ارد شیر دوم کی آخر عمر حرم کی سازشوں کی وجہ سے نہایت تلخ گزری ۔ اس چھالیس سال حکومت کرنے کے بعد اس کا انتقال 359 ق م میں ہو ۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اوخوس ارد شیر سوم کے لقب سے تخت پر بیٹھا ۔
تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری