192

اناہتا

ساسانی عہد میں ایک اور دیوی ننا یا ننائی کی پرستش کا ذکر ملتا ہے ۔ جو غیر ایرانی الاصل ہے اور جس کو بظاہر اناہتا سمجھا گیا ہے جس کی تصویر ہندو ساکائی سکوں پر پائی گئی ہے ۔ اسی کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ شاپور دوم نے اپنے سپہ سالار معاوین کو جس کے متعلق شبہ تھا کہ وہ عیسائی ہوگیا ہے حکم دیا تھا کہ وہ سورج ، چاند ، آگ اور خدائے بزرگ زیئوس (اہور مزد) اور روئے زمین کی دیوی ننائی اور خدایان بعل اور نہو کی پرستش کرے ۔ دلچسپ بات یہ بعل اور نہو بابل کے دیوتا تھے اور مورخ تھیو فی لیکٹس نے ان دونوں دیوتاؤں کو ایران کے دیوتا بتایا ہے ۔ کپاڈیشہ کا ایک آرامی کتبہ جو غالباً دوسری قبل مسیح کا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی مذہب کا کپاڈوشیہ عربسوں میں رائج بیان کیا گیا ۔ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ مقامی خدا بعل نے دین مزدائیسن سے (جسے عورت تصور کیا گیا) شادی کرلی ۔ لیکن یہ نہیں معلوم نہیں ہوسکا کہ زروانی زرتشتیت پر مختلف آرامی مذاہب کا اثر زرتشتیت پر کہاں تک اثر ہوا ۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ ان پارسی علماء کو جو ساسانی عہد کے بعد ہوئے انہیں نہ بیدخت اور ننائی بعل اور نہنو کا علم نہیں تھا ۔ 

ساسانیوں کا جد اعلیٰ ساسان اصطخر میں اناہیڈ (اناہتا) کے مندر کا رئیس (بڑا پجاری) تھا ۔ پروفیسر آتھر کرسٹین کا خیال ہے کہ ارد شیر کی رسم تاج پوشی باضابطہ غالباً اصطخر میں اناہتا کے معبد میں ادا کی گئی تھی ۔ جہاں اس کا دادا موبد اعلیٰ تھا اور وہاں چار سو سال کے بعد آخری ساسانی تاجدار کی تاجپوشی کی گئی تھی ۔ ایک اور برجستہ تصویر جو نقش رستم پر ہے جس میں نرسی اناہتا دیوی سے تاج لے رہا ہے ۔ 

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اناہتا قدیم دیوی تھی اور اس کی پوجا ایرانیوں میں وسط ایشیاء سے سیتھیوں کے ذریعہ آئی تھی اور ایران میں قدیم زمانے سے رائج تھی ۔ تاہم یہ کہنا غلط ہے کہ اس کو ساسانی زمانے یا اس سے کچھ پہلے اس دیوی کو مزدایت میں باضابطہ شامل کرلیا گیا اور ساسانی دور میں دوسرے خدائیوں کی چوکڑی میں یہ شامل کرلی گئی ۔ حقیقت میں اوستا میں اسے اہورا کی بیٹی کہا گیا ۔ دوسری طرف اسے زمین مانا گیا ہے ۔ یشت میں اس کے مسکن جو پانیوں پر تھا منظر کشی گئی ہے اسے عورتوں اور پیدائش کی دیوی کہا گیا ہے ۔ دوسری طرف طرف اس دیوی کے سراپا اور لباوہ درج کیا گیا ہے اور ساسانیوں کے ذوال کے ساتھ ہی اس دیوی کی پوجا ذوال پزیر ہوئی اور جب موبدان زرتشت نے زرتشتی مذہب کی تنظیم نو کی تو اس دیوی کو خدائوں کی فہرست سے غائب کردیا ۔  

تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں