243

آتش پرستی

اوستا کے بے شمار مقامات سے پتہ چلتا ہے کہ عناصر طبعی کی پرستش ہمیشہ دین زرتشتی کی اصولی خصوصیت رہی ہے اور زرتشتی آگ اور پانی اور مٹی کو آلودہ کرنے کس قدر پرہیز کرتے ہیں ۔ غیر ایرانی مصنفین بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں ۔ اگاتھیاس لکھتا ہے کہ اہل ایران سب سے زیادہ پانی کا احترام کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ پانی سے منہ دھونے سے پرہیز کرتے ہیں اور سوائے پینے یا پودوں میں دینے کے اور کسی غرض کے لیے اس کو نہیں چھوتے تھے ۔ وندیداد میں ہے کہ مذہبی تطہیر کے لیے اگر کوئی چیز پانی سے زیادہ موثر سمجھتے تھے تو وہ گائے کا پیشاب ہے ۔ لیکن مذہب زرتشتی میں آگ کا رتبہ عناصر میں سب سے بلندہے ۔ ہرٹل Hertel کا کہنا ہے کہ قدیم ہندوؤں اور ایرانیوں کی آتش پرستی کو واضح کیا ہے کہ قدیم ایرانی زبانوں کی تمام مذہبی اصلاحات کو ٹھیک طرح نہیں سمجھا گیا ہے اور یہ تمام اصلاحات آگ کی پرستش کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں ۔ جو ان کے عقیدے کے میں ایک ایسا عنصر ہے جو عالم اکبر اور عالم اصغر کے تمام زروں میں ماخذ ہے ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان مذہبی خیالات کی ابتدا و ترقی کی زرتشت سے بہت پہلے ہوئی تھی اور وہ لوگوں میں رائج تھے ۔ مگر ان کی اصلاحات سے اس کی ترقی میں تیز رفتاری پیدا ہوئی ۔ پھر رفتہ رفتہ مغربی ایشیا میں غیر ایرانی عقائد کے اثر سے قدیم مذہبی اسطلاحات کے نئے نئے مفہوم پیدا ہوتے گئے ۔ اوستا میں اتار (آگ ) کو اہورا بیٹا کہا گیا ہے اور اس کی پانچ مختلف قسمیں بتائی گئی ہیں ۔ جن کو یاسنا (۱۷۔۱۱) میں بتایا کیا گیا ہے اور اس کی تشریح اس کی پہلوی تفسیر میں ملتی ہیں ۔ بندہشن میں بھی وہی تشریح ہے لیکن اس کی وضاحت نہیں ہے ۔ پانچ کی قسمیں درج ذیل ہیں ۔ (۱) برزسواء ۔ وہ آگ ہے جو آتش کدوں میں جلتی ہے ۔ اس کو آتش بہرام بھی کہتے ہیں اور روز مرہ کے استعمال کے لیے بھی یہی ہے ۔ (۲) دُہوفریان ۔ وہ آگ ہے جو انسان اور جانوروں میں پائی جاتی ہے (۳) اُزوازشت ۔ وہ آگ جو درختوں میں پائی جاتی ہے (۴) وازشت ۔ وہ آگ ہے جو بادلوں میں ہے یعنی آسمانی بجلی (۵) اشنشت ۔ وہ آگ ہے جو بہشت اہورا مزدہ کے سامنے جلتی ہے ۔ اس پانچویں قسم کی آگ یعنی آتش بہشت کا مظہر شاہان ایران کا شکوہ و جلال ہے جو ہمیشہ ان کے گرد ایک ہالے کی شکل میں رہتا ہے اور اس کو اوستا میں خورنہ پہلوی خور اور فارسی میں فر کہتے ہیں ۔ آتش مجسم کو اوستا میں اتاع اور پہلوی میں آذر ہے بسا اوقات اسے اہورا مزد کا بیٹا کہا گیا ہے ۔ لیکن عیسائیوں نے بعض اوقات زرتشتیوں کی مقدس آگ کو اہورا مزد کی بیٹی کہا گیا ہے ۔ ہَشونے جب ایک مرتبہ تلون مزاجی سے ایک آتش کدے کی آگ بجھا کر کہنے لگا نہ یہ آتش کدہ خدا ہے اور نہ یہ آگ خدا کی بیٹی ہے بلکہ یہ بدکردار لڑکی ہے ۔ پروفیسر کرسٹن کا خیال ہے کہ آگ کو اہورا مزد کی بیٹی سمجھنے کا عقیدہ ضمنی طور پر ارمنی زرتشتیوں میں پیدا ہوا تھا ۔ اس لیے آتش مجسم کو ارمنی عقائد عامہ میں مونث تصور کیا گیا ہے ۔ اگاتھیاس نے اہل ایران کے نذدیک آگ کے مقدس ہونے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ساسانی اوستا کے تلف شدہ حصوں کے بہت سے مقامات ایسے تھے جن میں آتش مقدس ہونے کا ذکر مزکور تھا اور اس کے احسانات اور انسان کے ذمے اس کے حقوق و فرائض بیان کیے گئے تھے ۔ قدیم اساطیر کی سادگی جو مزدئیت میں افراط کے ساتھ موجود ہیں ۔ ایک مغ نے گیورگیس عیسائی کے ساتھ مباحثے کے دوران کہا کہ ہم ہر گز آگ کو خدا نہیں مانتے ہیں بلکہ خدا کو آگ کے ذریعے پوجتے ہیں ۔ جس طرح تم اس کو صلیب کے ذریعے پوجتے ہو ۔ گیورگیس (ایرانی عیسائی تھا) اوستا کی چند اقتسابات پڑھ کر سنائے جس میں آگ کو خدا بتلایا گیا ہے ۔ اس پر مغ بہت پریشان ہوا اور کہا ہم آگ کو اس لیے پوجتے ہیں کہ اس کی وہی ماہیت ہے جو اہور مزد کی ہے ۔ گیور گیس نے پوچھا کیا آگ میں میں سب وہی باتیں ہیں جو اہور مزد میں ؟ مغ نے جواب دیا ، ہاں ۔ گیورگیس نے کہا کہ آگ کوڑکے کرکٹ اور گھوڑے کی لید کو اور دوسری تمام گندی چیزوں کو جو اس کی ذرد میں آجائے جلاد دیتی ہے ۔ اگر اہور مزد کی بھی وہی طبعیت ہے تو کیا وہ بھی ان سب چیزوں کو جلاتا ہے ۔ مغ بے چارا اس کے جواب سے عاجز آگیا ۔ ایرانی بادشاہوں کو چوں کہ آسمانی خداؤں کی نسل سے تسلیم کیا جاتا تھا ۔ لہذا ان کی کوشش ہوتی تھی کہ مذہبی جماعت کی پیشوائی بھی ان کی ذات سے ہی وابستہ رہے ۔ افسانہ اردشیر میں لکھا ہے کہ پابگ نے خواب میں دیکھا کہ تین مقدس آگیں (اہل جنگ ، علمائے دین ، زراعت پیشہ) ساسان کے گھر جمع ہوگئیں ۔ ساسان بابگ کا داماد اور اردشیر کا باپ تھا ۔ فردوسی کے شاہنامہ کے مطابق اکثر اس کو موبد کہہ کر بلاتے تھے ۔ اوستا کے متعد مقامات سے پتہ چلتا ہے کہ قدرتی عناصر کی پرستش ہمیشہ دین آتش پرستی کی بنیادی خصوصیت رہی ہے ۔ زرتشت کے پیرو آگ پانی اور مٹی کو آلودہ کرنے سے سخت احتراز کرتے ہیں ۔ پانی کی حرمت تو ان کے نذدیک ایسی ہے کہ پانی سے منہ دھونے سے بھی پرہیز کرتے ہیں ۔ سوائے پینے یا پودوں کی آبیاری کرنے کے لیے اور اسے کسی غرض کے نہیں چھوتے ہہیں ۔ آگ کا درجہ بہت بلند ہے ۔ قدیم ایرانیوں میں جو حکومت خانوادگی کا نظام تھا ۔ ان کے مطابق آگ کے مختلف درجے تھے ۔ یعنی آتش خانہ پھر آتش قبیلہ یا دیہ (آذروان) پھر آتش ضلع یا ولایت جس کو آتش دہران (دہرام یا بہرام) کہتے تھے ۔ آتش خانہ کی محافظت مان بذ (رئیس خانہ) کا کام تھا ۔ آذران کی نگہداشت کے لیے کم از کم دو ہیر بد ضروری تھے ۔ لیکن آتش ورہران کی خدمت کے لیے ایک موبد کے ماتحت ہیر بدوں کی ایک جماعت مامور رہتی تھی ۔ آگ کی پرستش کے قواعد کی تفصیل میں چند افسانے تمثیل کے طور پر بیان ہوئے ہیں ۔ ساسانی اوستا کے ایک نستک میں دی گئی ہے جس کا نام سوذگر ہے ۔ آتش کدے میں جہاں فضا لوبان کی دھونی سے مہکتی رہتی تھی ۔ ہیربد منہ پر کپڑے کی ایک پٹی (اوستا۔ہائتی دانَ) باندھے ہوئے تاکہ اس کا سانس سے آگ ناپاک نہ ہوجائے ۔ لکڑی کی چھپٹیاں جن کو خاص مذہبی رسوم سے پاک کیا جاتا تھا برابر آگ میں ڈالتا رہتا ہے تاکہ وہ جلتی رہے ۔ منجملہ اور درختوں کے ایک خاص درخت (ہذا سیپتا) کی لکڑی جلائی جاتی تھی ۔ ٹہنیوں کے ایک گھٹے کے ساتھ ایک خاص مذہبی رسم کے کاٹا اور باندھا جاتا تھا اور اس کو بَزسم (اوستا ۔ بَرَسمَم) کہتے تھے ۔ وہ آگ کو الٹ پلٹ کرتا رہتا تھا اور مقدس دعائیں برابر پڑھتا رہتا تھا ۔ اس کے بعد ہیر بدان آتش کدہ ہوم کا چڑھاوا چڑھاتے تھے ۔ وہ اس طرح کے درخت کی شاخیں لے کر پہلے انہیں پاک کیا جاتا تھا ۔ پھر ہاون میں انہیں کوٹا جاتا تھا اور کوٹنے کے ساتھ ہیربد برابر دعائیں یا اوستا کی دعائیں پڑھتے رہتے تھے ۔ یہ ایک لمبا اور پیچیدہ عمل ہوتا تھا جو مذہبی ہدایات کے عین مطابق پورا کیا جاتا تھا ۔ اس کے بعد ہوم کا چڑھاوا چڑھاتے تھے ۔ جس کے ساتھ ساتھ زؤتر (رئیس مراسم آتش کدہ) خاص خاص دعائیں مقررہ ترتیب کے ساتھ پڑھتا جاتا تھا اور مختلف مراسم جن میں برنم (آتش دان) کا استعمال ہوتا تھا ادا کرتا جاتا تھا ۔ زؤتر کے سات مددگار ہوتے تھے ۔ جن کو رتو کہتے تھے ۔ ہر رتو کے اپنے مقررہ فرائض تھے ۔ ان میں ایک کا نام ہاؤنان تھا جس کا کام ہوم کو کوٹنا تھا ۔ دوسرا آتر دخش تھا جو آگ کی خبر گیری کرتا تھا اور زؤتر کے ساتھ مل کر بھجن گاتا تھا ۔ تیسرا فرابرتر تھا جو لکڑیاں لا کر آگ میں ڈالتا تھا ۔ چوتھا آبرت تھا جس کا کام پانی لانا تھا ۔ پانچواں آسنتر تھا جو ہوم کو چھانتا تھا ۔ چھٹا رئیث ونشکر تھا ۔ جو ہوم کو دودھ میں ملاتا تھا اور ساتواں سُروشاورز (سروشاورز) تھا ۔ جس کا فرض سب کام کی نگرانی کرنا تھا اور آتش کدے کے فرائض کے علاوہ اس کے اور بھی فرائض تھے ۔ کیوں کہ روحانی تربیت کا انتظام بھی اسی کی زیر نگرانی تھا ۔ جب کہ نیاز جو ہیزہ کہلاتی تھی ۔ وہ غالباً گوشت اور چربی یا گوشت یا مکھن سے تیار کی جاتی تھی ۔ آتش کدے میں ہیربد دن میں پانچ وقت کی مقررہ دعائیں پڑھتے تھے اور تمام مذہبی فرائض کو عمل میں لاتے تھے ۔ یہ مذہبی فرائض ان چھ سالانہ تہواروں کے موقعوں پر خاص اہمیت اختیار کرلیتے تھے ۔ جنھیں گاہان بار کہا جاتا تھا ۔ یہ تہوار سال کے مختلف موسموں کے ساتھ وابستہ ہوتے تھے ۔ یہ یاد رہے دنیادار لوگوں کو آتش کدوں کے فرائض میں شریک ہونے کی کوئی ممانعت نہ تھی ۔ بلکہ ہر شخص کا فرض سمجھا جاتا تھا کہ وہاں آکر دعائے آتش نیائش (دعائے تمجید آتش) پڑھے اور لوگوں کا اعتقاد تھا کہ جو شخص دن میں تین بار آتش کدے جاکر دعائے آتش نیائش پڑھے گا وہ دولت مند ہوجاتا ہے ۔ دیندار لوگوں کے لیے آتش کدے کے تاریک کمروں کا سماں ایک پرسرار حیرت و رعب کا باعث ہوتا تھا جہاں آتش دان میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوتے تھے اور اس کی روشنی سے دھات کے آلات پردوں کی کھونٹیاں ، باون ، چمٹے ، برنم دان (ہلالی شکل کے پائے جن پر برنم رکھا جاتا تھا) چمکتے تھے اور جہاں ہیربد کبھی بلند اور کبھی دھیمی آواز کے ساتھ اپنی امتناہی دعائیں اور کتاب مقدس کی آیات مقررہ تعداد اور مقر انداز کے ساتھ زمزمے کے لہجے میں پڑھتے تھے

 ۔تہذیب و تدوین

عبدالمعین انصاری

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں