270

ایرنی زبان و رسم الخط

  قدیم زمانے میں آرامی زبان ایشیا کے مغربی حدود میں عام رواج پاگئی تھی ۔ یہ شاہان ہخامنشی کے سرکاری دفتروں میں بھی استعمال کی جاتی تھی ۔ اوستا رسم الخط جس میں صرف اوستا لکھ گئی تھی اور قدیم فارسی کا رسم خط الخط میخی کا استعمال صرف کتبوں میں استعمال کی جاسکتا تھا ۔ لہذا عام تحریروں میں آرامی رسم الخط استعمال ہونے لگا ۔ یہاں تک قدیم فارسی کی تحریریں بھی اسی خط میں لکھی جانے لگیں ۔ یہیں سے پہلوی رسم الخط کی ابتدا ہوئی اور آرامی میں لکھ کر فارسی میں پڑھا جانے لگا ۔

    میدوی

میدیا سے مراد ایران کا مغربی خطہ جس کو دارا کے کتبے میں ماد اور بتدائی عرب مورخین نے اسے ماہات لکھا ہے ۔ اس کا قدیم دارلحکومت ہگبتان یا یکتبان یا امدان Aogmtana or Ecbatana or Amadna یہاں کی زبان کو مادی یا میدوی کہا گیا ہے ۔ اگر ٹارم شٹیٹر کے قول کو مانیں تو میدوی اوستا کی زبان ہوگی ۔ آپرٹ کے مطابق ہخامنشی کتبوں میں تین زبانوں میں دوسرے نمبر کی زبان جو قدیم فارسی اور آسوری زبان کے درمیان کی ہے جو قدیم فارسی سے بہت کچھ مشابہ ہے ۔ اس زبان کے بعض الفاظ بعض مصنفین مثلاً ہیروڈوٹس کی کتابوں میں محفوظ ہیں اور گمان غالب ہے کہ ایران کی بعض موجودہ بولیاں اسی ماخذ سے تعلق رکھتی ہیں ۔

عام خیال یہ ہے کہ میڈیا ایرانی تھے اور ان کی زبانی بھی ایک ایرانی زبان تھی جو قدیم فارسی سے بہت ملتی جلتی تھی اور نولیڈ کا بھی یہی کہنا ہے ۔ ڈارمشٹیٹیر اس سے بڑھ کر کہتا ہے کہ اوستا کی زبان جو ژند کہلاتی ہے میڈیا یا میڈرس کی زبان تھی ۔ اس کی تائید خود اوستا کے بیانات اور پارسی کی روایات سے ہوتی ہے ۔ دین زرتشت کا مرکز اور اس کی نمو و ترقی کا مقام میذیا ہے تو (آذربائیجان) کو مرکز دینا بہتر ہے ۔ یہی مقام ہے جہاں سے دین زرتشت اٹھا اور مغرب سے مشرق کی جانب پھیلا ۔ ایک خیال یہ بھی اوستا میں گاتھا کے حصہ کی زبان مختلف ہے اور یہ غالباً ماد (میڈیا) کی زبان تھی ۔

اس مذہب کی اصل میڈوی ہے اور اوستا موبدان میڈیا کی تصنیف ہے ۔ خارجی شہادت یعنی کتب ژندی اور ملکی روایات ملکی کی رو سے اوستا مجوسیوں کی تصنیف ہے اور ژند میڈیائے قدیم کی زبان ہے ۔ لہذا اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ کہ اس زبان کا نام ژند رکھنا غلط ہے ۔ اس کی جگہ میڈوی زبان ہونا چاہیے ۔ 

    اوستائی

اوستائی سے مراد اوستا کی زبان جو غلط طور پر ژند اور کبھی کبھی قدیم باختری بھی کہا جاتا ہے ۔ لیکن آخر الذکر نام نہایت ہی غیر مناسب ہے ۔ کیوں کہ دلائل سے پتہ چلتا ہے جس طرح کے دلائل اسے باختری زبان قرار دینے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں ۔ ویسے ہی دلائل اسے شمال مغرب یا آذربائیجان کے پیش کیے جانے کے لیے دیے جاسکتے ہیں ۔ صرف اوستا ہی ایک ایسی کتاب ہے جو اس زبان میں قلمبند ہے ۔ اس کا ایک حصہ گاتھا اس سے قدرے مختلف ہے اور قدیم زبان سے مختلف ہے ۔ اوستائی رسم الخط پہلوی سے ماخوذ ہے لیکن اس سے قدرے بہتر ہے ۔ آپرٹ کا کہنا ہے کہ پہلوی میں اوستا کی صورت اوستاک (ڈارم شٹیڑر اپساک) سریانی میں پستاکا ، عربی میں ابستانی اور اینڈریاس کے مطابق قدیم فارسی کا اُپستا (مدد ، حمایت) سے مشتق ہیں اور اس کے معنی اصل متن کے ہیں ۔

    قدیم پارسی

ہخامنشی دور (۵۰۰۔۳۳۰) کے صرف پیکانی کتبوں پر ہیں جو کہ شاہی احکامات ، علانات وغیرہ ہیں ۔ یہ کتبے اگرچہ طویل عبارتوں پر مشتمل ہیں اور رسم الخط میں اور طرز بیان میں یکساں اور ۴۰۰ الفاظوں پر مشتمل ہیں اور یہ زبان قدیم فارسی کہلاتی ہے ۔ ہخامنشی فرمان روا اسی زبان میں بات چیت کرتے تھے ۔ اب یہ کتبوں کے علاوہ کہیں نہیں پائی جاتی ہے ۔  

    پہلوی

اولس کی تحقیق کے مطابق پہلوی اور پارتھوی ہم معنی ہیں ۔ تاریخ ایران کے ارمنی ماخذ سے پتہ چلتا ہے کہ پارت کو پہلے پہل شاہستان کہتے تھے ۔ غالباََ اسی نسبت سے پہلوی یا پہلوانی کہنے لگے ۔ رفتہ رفتہ پرتو تبدیلی سے پربہاؤ بنا پھر پربہاؤ پہلاوا بنا اور اسی نسبت سے یہ لوگ پہلوی کہلانے لگے اور وہاں کی زبان پہلوی کہلانے لگی ۔ عربی جغرافیہ دانوں نے اسے فہلو بنا کر وسط غرب ایران کے ایک حصے کا نام دیا جس میں رے ، ہمدان ، نہاوند اور آذربائیجان کا کچھ حصہ شامل تھا ۔ اگرچہ پارتھویوں کے مطلق بہت کم مواد ملا ہے اور فردوسی نے ایک صفحہ میں ان کی داستان ختم کردی ۔ تاہم پہلوان ایران اور برصغیر میں طاقت وروں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ جب عربوں نے غور کے علاقہ پر حملہ کیا تو اس وقت وہاں کا مزبان (حکمران) جہاں پہلون تھا ۔ 

پارتھی دور میں جو زبان مروج تھی وہ پہلوی یا میانہ فارسی کہلاتی تھی جو اگرچہ قدیم فاسی سے نکلی تھی مگر اس پر دوسری زبانوں کی اثرات بھی تھے ۔ چینی ترکستان میں قدیم کتب دریافت ہوئیں ۔ اس سے پہلے پارتھی و ساسانی عہد کی دو زبانوں کے بارے جانتے تھے ۔ ایک ساسانی پہلوی جو ایرانی کے جنوب مغرب فارس میں بولی جاتی تھی اور ساسانی زمانے میں سرکاری زبان تھی ۔ دوسری ساسانی پہلوی کے ساتھ ساسانی بادشاہوں کے ابتدائی بعض کتبوں میں پائی گئی تھی اور جس کو ابتدا میں کلدانی پہلوی کا نام دیا گیا اور بعد میں اسے اشکانی پہلوی کا نام دیا گیا جو پارتھیوں کے عہد میں سرکاری زبان تھی ۔ یہ دونوں زبانیں ایسے خطوط میں لکھی ہوئی تھی جن کی ابجد آرمی سے ماخذ ہیں ۔ لیکن دونوں کے حروف شکلوں میں مختلف ہیں ۔ عہد ساسانی کے زرتشتیوں کا مذہبی لٹریچر جو ہم تک پہنچا ہے وہ سب ساسانی عہد کے بعد کا نقل کردہ ہے اور صحت کے اعتبار سے ناقص ہے ۔ پہلوی ابجد کے بہت سے حروف کئی کئی طرح سے پڑھے جاسکتے تھے ۔ جس کی وجہ سے پڑھنے میں اٹکل سے کام لینا پڑھتا ہے لہذا غلطیاں بہت ہوتی ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک مشکل یہ ہے پہلوی میں بہت سے الفاظ خصوصاً مانوس الفاظ کو آرامی میں لکھ کر فارسی میں پڑھا جاتا تھا اور پھر فعل کے مختلف صعیفوں میں لفط کا آخری جز جس سے صیغہ متعین ہوتا ہے فارسی کے مطابق ہوتا تھا اور یہ خط ہزاورش کہلاتا تھا ۔

ترفان میں بیشمار مانوی اجزا کتابوں کے ایک سریانی رسم الخط میں اسٹرانگلو لکھے پائے گئے ہیں  ۔ ان میں آرامی الفاظ نہیں ہیں اور سب اپنی خالص ایرانی شکل میں لکھے گئے ہیں ۔ آنڈراس Andres  نے ثابت کیا کہ ان مانوی تحریروں میں دونوں قسم کی زبان یعنی اشکانی اور ساسانی پہلوی موجود ہے ۔ عہد اشکانی کی زبانوں کی اب نمایندگی بحیرہ خزر کے نواح میں سمنانی ، نواح کاشیان و اصفہان کی گورانی زبانیں ہیں ۔

ان دونوں ادبی زبانوں یعنی اشکانی پہلوی اور ساسانی پہلوی کو اکثر شمالی یا شمال مغربی اور جنوب مغربی زبانوں کا نام دیا جاتا ہے اور اشکانی پہلوی کا اثر ساسانی پہلوی پر بھی معلوم ہوتا ہے ۔ یہ اثر گویا اشکانی تہذیب کا ساسانی تہذیب پر اثر ہے ۔ بہت سے الفاظ جو مذہبی ، سیاسی اور معاشرتی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں یا ہتھیاروں اور سواریوں کے نام یا طبی اصطلاحات ، روزمرہ کے محاورات اور معمولی افعال جو ساسانی پہلوی اور فارسی میں عام طور پر استعمال ہوتے ہیں اشکانی پہلوی کی شکل میں محفوظ ہیں ۔ فارسی میں جو بظاہر بے قاعدگیاں نظر آتی ہیں اس کی وجہ شمالی لہجے کے الفاظ جنوب مغربی زبان میں سرایت کرگئے ہیں ۔   

پہلوی کی نمایاں خصوصیت ایرانی اور سامی الفاظ کی آمیزش تھی جس کا باعث ہزاورش تھی ۔ یہ دریافت طلب امر تھا کہ پہلوی کی قدیم ترین مرقومات کیا تھیں ۔ ۱۸۶۷ء؁ میں لیوی کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے پہلوی کے قدیم ترین نموے چوتھی قبل صدی پارتھی سکوں کے کلمات ہیں ۔ تاہم پہلوی کا ادب خالصاً مذہب اور آداب عبادت ہے ۔ اگر جدید فارسی میں سے عربی الفاظ و ترکیب سے خالی کردی جائے تو پہلوی کی قدیم صورت سمجھنا چاہیے ۔ جس کو پہلوی اور بعض اوقات میانہ فارسی کے نام سے پکارتے ہیں ۔ لیکن کلمہ پہلوی زبان کے بانسبت رسم الخط پر زیادہ چسپاں ہوتا ہے جو ان کی کتابوں میں استعمال ہوتا تھا ۔ یہ پہلوی خط عربوں کی فتح ایران کے بعد ایک صدی تک طبرستان کے خود مختیار حاکموں (سپاہپت یا اسپہبد) کے سکوں پر رائج رہا ۔ کم از کم ایک صدی تک زرتشتی اسی زبان میں کتابیں لکھتے رہے ۔ لیکن آخری تصنیف جو اس زبان میں ہوئی اس کا سن نویں صدی عیسوی سے آگے نہیں بڑھتا ۔ بہر کیف عملاً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پہلوی کو متروک ہوئے ایک ہزار سال سے زیادہ کا زمانہ گزرا ہے ۔

    عربی رسم الخط

عربوں کی آمد کے بعد فارسی کا خط عربی ہوگیا اور اس میں عربی الفاظ اور ترکیں بھی داخل ہوئیں ۔ یہ تبدیلی نویں صدی عیسوی میں تبدیلی مذہب کی وجہ سے وقوع پزیر ہوئی اور اس طرح جدید فارسی کی بنیاد پڑی ۔ پروفیسر براؤن کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ مشرق میں عجیب دستور ہے کہ مذہب کے ساتھ زبان کو اتنا ضروری نہیں سمجھتے ہیں جتنا رسم خط کو ۔ مشرق وسطیٰ کے عیسائیوں کی مادری زبان عربی ہے لیکن وہ اپنی تحریریں سریانی خط میں لکھتے رہے ہیں اور یہ کرشونی کہلاتا ہے ۔ اس رسم الخط میں بھی کثیر تعداد میں تصانیف ہوئی ہیں ۔ یہی حال ترکی بولنے والے یونانیوں اور آرمینیوں کا رہا ہے ۔ ان کی مادری زبان ترکی ہے لیکن وہ اسے یونانی اور آرمینی حروف میں لکھتے ہیں ۔ اس طرح ایران کے یہودی جو کہ فارسی بولتے اور لکھتے ہیں مگر لکھنے کے لیے عبرانی رسم الخط استعمال کرتے میں ۔ لہذا ایشیائی نقطہ سے پہلوی خط کو دین زرتشت سے جو تعلق تھا وہ اس سے کہیں زیادہ تھا جو کہ عربی رسم الخط اور دین اسلام کے درمیان قائم کرلیا گیا اور جب کوئی زرتشتی مذہب اسلام قبول کرلیتا تھا وہ پہلوی خط کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کردیتا تھا ۔

 اس کا سب یہ بھی ہوتا تھا کہ پہلوی رسم الخط حد درجہ مشکل و مبہم تھا اور اس میں کفر کی بو آتی تھی ۔ اس زمانے میں جب پہلوی خط استعمال کی جاتا تھا تو عموماً عام لوگ نوشت و خواند سے محروم تھے ۔ لکھنا پڑھنا صرف مگوپت (مغ) دستوبر یا ودستور (مقتدایان مذہب) اور پیشہ ور دپیروں یعنی کاتبوں کے قبضے میں تھے ۔

تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں