نزاریہ فرقہ کا اصل بانی بلاد عجم یعنی ایران کا بہت بڑا داعی بانی شیخ الجبل حسن بن صباح ۔ حسن بن صباح کا پورا نام حسن بن علی بن محمد بن جعفر بن حسین بن الصباح الحمیری تھا ۔ اس نے اپنی تحریک ایسی ترقی دی جس کے باعث دوسرا اسلامی قوتوں سے مقابلہ کرنے لگا ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ اس نے اور اس کے جانشینوں نے ایسی دھاک بیٹھائی کہ اس زمانے کے اسلامی سلاطین ان سے تھراتے تھے ۔
اس کا باپ کوفہ سے قم آیا جہاں حسن پیدا ہوا ۔ سات سال کی عمر سے ہی اسے تحصیل علم شوق تھا ۔ اٹھارہ سال کی عمر تک اس نے ریاضی ، نجوم اور سحر وغیرہ مختلف علوم حاصل کئے ۔ اس وقت تک اس کا مذہب اپنے باپ کی طرح اثنا عشری تھا ۔ حسن بن صباح ملاقاتیں فاطمی داعیوں میں سے پہلے ناصر خسرو ، حجت خراسان اور پھر امیر حزاب سے ہوئیں ۔ اس نے ان کے اثرات قبول کئے ۔ امیر حزاب سے اس کے کئی طولانی مذہبی مباحثے ہوئے ۔ اس سے حسن بن صباح کے اعتقاد میں لغرش پیدا ہوگئی ۔ گو اس کو اسمعیلی دعوت کی صحت کا پورا یقین نہ ہوا ۔ لیکن ایک بیماری سے شفا پانے کے بعد جس سے اس کو نجات پانے کی کوئی امید نہ تھی ۔ وہ اسمعیلی مذہب کی طرف زیادہ مائل ہوگیا اور دو اسمعیلی داعیوں ابو نجم سراج اور مومن سے ملا ۔ یہ داعی ایک بڑے رہبر شیخ احمد بن عبدالمالک بن عطاش مالک حلقہ اصفہان کے حکم سے فارس میں اسمعیلی دعوت کی تبلغ کرتے تھے ۔ ان میں سے مومن نے دیکھا کہ ابن صباح بڑا ہوشیار اور زبردست شخصیت والا ہے تو اس نے پس و پیش کرتے ہوئے مستنصر کی بیعت لی ۔ یہ ایرانی تھا اور اس نے اس زمانے کے رواج کے مطابق اپنے آپ کو ایک عرب الحمیری خاندان سے منسوب کیا تھا ۔ لیکن اسے یہ بات پسند نہیں تھی کہ لوگ اس کا نسب بیان کریں ۔ وہ اپنے مریدوں سے کہا کرتا تھا مجھے اپنے امام کا مخلص غلام کہلایا جانا زیادہ پسند ہے کہ بہ نسبت اس کے میں ان کا ناخلف لڑکا کہلاؤں ۔
464 ہجری میں ابن عطاش جس کے بحر (یعنی علاقہ تبلیغ) میں اصفہان اور آذر بائیجان تھے رے پہنچا اور اسمعیلی دعوت میں ابن صباح کی شرکت قبول کرتے ہوئے اسے مصر جانے کا حکم دیا ۔ اس بنا پر 467 ہجری میں وہ اصفہان پہنچا ۔ جہاں سے دو سال ابن عطاش کی نیابت کرنے کے بعد آذر بائیجان اور دمشق سے ہوتا ہوا ۴۷۱ ہجری میں مصر پہنچا ۔
دوسرا سبب اس کے مصر جانے کا یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ابو مسلم جو شہر رے کا والی اور نظام المک کا داماد تھا ۔ اس پر الزم لگایا کہ وہ مصر کے اسمعیلی داعیوں سے ملا کرتا ہے ۔ بہر حال جب وہ مصر پہنچا تو مصر کے داعی الدعاۃ اور دوسرے مشہور لوگوں نے بہت ہی اعزاز سے اس کا استقبال کیا ۔ خلیفہ مستنصر نے بھی اسے بہت کچھ انعام و اکرام دیا ۔ مگر اسے بذات خود خلیفہ سے ملنے کی اجازت نہ تھی ۔
اگرچہ وہ اٹھارہ مہینے تک قاہرہ میں ٹہرا رہا ۔ اس مدت کے بعد اسے مجبوراً مصر چھوڑنا پڑا ۔ کیوں کہ مستنصر کے وزیر بدر الجمای اور اس بڑے بیٹے نزار کے درمیان جس کی حسن بن صباح حمایت کرتا تھا ، ناخشگوار تعقات تھے ۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ بدر الجمالی نے حسن کو مصر سے نکلوا دیا تاکہ نزار کی امامت کا کوئی حامی نہ ملے ۔ غرض 472 ہجری میں ابن صباح اسکندریہ سے روانہ ہوا اور 473 ہجری میں اصفہان پہنچا ۔ اس وقت سے وہ بلادیز ، کرمان طبرستان ، دامغان اور فارس کے دوسرے شہروں میں نزار کے نام سے یہ دعوت کرنے لگا کہ مستنصر کے بعد نزار امامت کا مالک ہے ۔ نظام الملک کو اطلاع ملنے پر اپنے داماد ابومسلم کو اس کی گرفتاری کا حکم دیا ۔ مگر حسن بن صباح ہاتھ نہیں آیا ۔
یہ وہ دور تھا کہ اس وقت قرامطہ کی قوت عراق و شام میں ٹوٹ چکی تھی ۔ لیکن ان کے ہم مذہب ایران وغیرہ میں پھیل گئے تھے اور انہوں نے اپنی تحریک کو خفیہ طور پر جاری رکھا ہوا تھا ۔ اس طرح کا ماحول حسن بن صباح کے لیے بہت ساز گار تھا ۔ نزار کے نام نے ان کی تحریک نے ایک نئی روح پھونک دی تھی ۔ اب یہ لوک اس کے چھنڈے تلے جمع ہوگئے ۔ لوٹ مار کا سلسلہ پھر سے شروع کردیا ۔ ابتدا میں حسن بن صباح نے اپنی سرگرمیاں مازندران کی وادیوں میں جہاں بابک خرمی اور اس کے ہم مذہب رہتے تھے شروع کیں اور جلد ہی فارس کے قلعہ پر قبضہ کرلیا ۔ پھر اصفہان کے قلعے شاہ در پر ان کا قبضہ ہوگیا ۔
اس وقت بغداد میں خلیفہ عباسی مقتدی باللہ تھا ۔ لیکن حکومت ملک شاہ سلجوقی کے ہاتھ میں تھی ۔ حسن بن صباح نے اس کے زمانے میں قوت حاصل کی اور ملک شاہ کے مشہور وزیر نظام الملک کو نزاریوں 484 ہجری میں قتل کردیا ۔ ان کی قوت ٹوڑنے کے لیے ملک شاہ نے دو دفعہ لشکر بھیجا ، مگر اسے کوئی نمایاں کامیابی نہیں ہوئی ۔ ۴۸۵ ہجری میں ملک شاہ کے انتقال کے بعد اس کے خاندان کے باہمی جھگڑوں سے نزاریوں کا زور بڑھ گیا ۔ اس کی بیوی خاتون جلالیہ کی رائے سے خلیفہ نے اس کے چھوٹے بیٹے محمود کو سلطنت دے کر ناصر الدنیا والدین کے لقب سے سرفراز کیا ۔ لیکن اس کے بڑے بیٹے برکیارق نے حکومت چھین لی اور رکن الدین کا لقب اختیار کیا ۔ محمود اور اس کی ماں نے اصفہان میں پناہ لی ۔ برکیاق نے نزاریوں کی مدد سے اصفہان کا محاصرہ کیا اور محمود کو بھگا دیا ۔ لیکن اصفہان پر نزاریوں کا قبضہ ہوگیا ۔ نزاریوں نے اپنی عادت کے مطابق لوٹ مار شروع کردی ۔ شہر کے باشندے ان کے مظالم سے تنگ آگئے ۔ آخر کار اصفہانیوں نے نزاریوں سے خوب انتقام لیا اور ان کے کئی سرداروں کو مار ڈالا ۔ اس کے حسن بن صباح قزوین پہنچا ۔
قزوین کے قریب قلعہ ’الموت‘ واقع ہے ۔ اس مقام کے آس پاس رہنے والوں سے حسن بن صباح نے دوستی کرلی اور ان پر اپنے زہد و تقویٰ کا اثر ڈالا ۔ کہا جاتا ہے یہ ہمیشہ ایک کمبل اوڑھے رہتا تھا اور بہت سادہ زندگی بسر کرتا تھا ۔ یہاں کے اکثر لوگ اس کے پیرو ہوگئے تھے ۔ اس قلعے کا مالک ایک سادہ لوح علوی تھا ۔ ہمیشہ اس کے پاس بیٹھا رہتا تھا اور اس سے برکت حاصل کرتا تھا ۔ جب حسن اپنا معاملہ مستحکم کرچکا تو علوی کے پاس گیا اور اس سے کہا تو قلعے سے نکل جا ۔ علوی مسکرایا اور اسے دلگی سمجھا ۔ حسن نے اپنے چند پیروؤں کو حکم دیا کہ علوی کو قلعے سے نکال باہر کریں ۔ انہوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور کچھ مال دے کر اسے قلعے سے نکال دیا ۔ اب قلعے پر حسن کا قبضہ ہوگیا ۔ الموت کو مسقرر بنا کر حسن بن صباح نے اپنی دعوت کی تنظیم نو کی اور اس کی تبلیغ شروع کردی ۔ دعوت کا وہی نظام قائم کیا جو مصر میں رائج تھا ۔ صرف چند حدود (ارکان) مثلاً رفیق ، لاحق اور فدائی کا اضافہ کیا ۔
فدائیوں میں بڑے ان پڑھ جان باز نوجوان شریک کئے جاتے تھے ۔ صرف ہتھیار استعمال کرنے کا فن انہیں سکھایا جاتا تھا ۔ یہ سپاہی حسن کے حکم کی بے عذر آنکھیں بند کرکے تعمیل کرتے تھے ۔ جس کے قتل کا اشارہ ہوتا اس کے پاس بھیس بدل کر جاتے اور اس کے مزاج میں رسوخ پیدا کرتے تھے ۔ اس معتمد علیہ بنتے اور موقع پاتے ہی اس کا کام تمام کردیتے تھے ۔
حسن بن صباح کے متعلق مشہور ہے کہ ان خونخوار اعمال کی ترتیب دینے کے لئے ایک جنت بنائی گئی تھی ۔ پہلے وہ حشیش (بھنگ) کے اثر سے اس طرح بے ہوش کردیئے جاتے تھے کہ ان کے دل میں کسی منشی چیز کا گمان بھی نہ ہوتا تھا ۔ بے ہوش ہونے کے بعد خاص ذریعوں سے اور راستوں سے وہ جنت میں پہنچائے جاتے ۔ جہاں پہنچتے ہی وہ ہوش رہا اور دلستان حوروں کی آغوش شوق میں آنکھ کھولتے اور اپنے آپ کو ایک ایسے عالم میں پاتے ، جہاں کی خوشیاں اور مسرتیں ان کے حوصلے اور ان کے خیال سے بالا تر ہوتیں ۔ پر فضا وادیوں ، روح افزا آبشاروں ، جان بخش باغوں اور فریب نظر مرغ زاروں میں سیر کرتے ، حوروں کی صھبت ان کی دلستانی کرتی ، مے ارغونی میں لبریز جام غالباً یہاں شراب طہور کا نام لے کر دیئے جاتے ہوں گے ۔ انہیں دنیاوی افکار سے بے پروا کردیتے ۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ حسن کے پاس پہنچائے جاتے ۔ جہاں آنکھ کھول کر وہ اپنے کو شیخ کے قدموں پر پاتے ۔ ان کو پھر جنت میں پہنچنے کی امید دلائی جاتی اور ان لوگوں سے جنت کی چاٹ پر یہ ظالمانہ کام لئے جاتے ۔ بڑے بڑے امرا انہی کے خنجروں سے قتل ہوئے اور انہی فدائیوں نے نظام الملک کی بھی جان لی ۔ لیکن اس جنت کی کسی تاریخی ماخذ سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی ہے ۔
ملک شاہ کے بعد سلطان سنجر نے حسن بن صباح کا مقابلہ کیا ۔ مگر حسن بن صباح نے نہایت چالاکی سے اسے صلح پر راضی کرلیا ۔ اس کے بعد یہ ایران کے شہروں کے بعد رفتہ رفتہ شام کے بعض مقاموں میں بھی حسن کے ماننے والے پھیل گئے ۔ حسن بن صاح نے ایک طویل پائی اور الموت میں ہی اس کی موت واقع ہوئی ۔ اس کی موت کے بعد کیا بزرگ اس کا جانشین بنا جو اس کا بیٹا بتایا جاتا ہے اور نزاریوں کے امام اسی کی نسل سے ہیں ۔
رینی ویسو کا کہنا ہے کہ چند خاص غلو آمیز باتوں کی وجہ سے متعصب مسلمان ان (اسمعیلی) عقیدوں سے متنفر ہوگئے اور انہیں ناقابل قبول قرار دیا ۔ اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ بہت سے اسمعیلی اصول فرقہ متزلہ سے اخذ کئے گئے ، جو منجلہ اور مسائل کے خدا کے اوصاف بھی تسلیم نہیں کرتا اور عقیدہ اختیار کا قائل ہے ۔ باوجود اس جدت کی کمی سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے متعلق مغربی علماء کے فیصلوں میں سختی کی گئی ۔ ایک کو دوسرے کے ساتھ خلط ملط کرکے سب پر ناپسندیگی ، لعنت اور پھٹکار کا ایک ایسا حکم لگانا جیسا کہ مسلمان عالوں کا طرز عمل رہا ہے یقناً کسی طرح بھی درست نہیں ہوسکتا ہے ۔ وہ اسمعلیوں کی شاخ بھی جس سے حشیشن Assassin کا لفظ مشتق ہے اور جس پر وہ لفظ ابتدا میں اطلاق کیا گیا کسی طرح پہلا فرقہ نہ تھا جس نے ایک مظلوم چھوٹی جماعت کا یہ ہتھیار اپنے مقابلے میں استعمال کیا گیا اور خود شیخ الجبل (حسن بن صباح) اتنا بدصورت نہیں تھا جتنی اس کی بھیانک تصویر پیش کی جاتی ہے ۔
تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری
بہت اچھی کوشش ہے محترم