افغانوں میں خان لائقہ اور سابقہ بھی استعمال ہوتا ہے اور بطور سابقہ ایک نشان امتیاز ہے ۔ کلمہ خان کی اصل قان ہے جو کہ ترکی کلمہ ہے اور خان اس کا معرب ہے اور اس کے معنی حاکم کے ہیں ۔ ترکوں میں یہ ضروری تھا کہ یہ لقب کسی دوسرا قان عطا کرے ۔ جب کہ قاخان اس کی جمع ہے ، یعنی قان کا قان یا حکم اعلیٰ ۔ منگول حکمران قاقان کہلاتے تھے ۔ جس کے لئے ضروری تھا کہ بہت سے عمائدین مل کر قاقان منتخب کریں ۔
افغانستان میں ترکوں کا نفوذ چھٹی صدی عیسویں میں ہوا تھا ۔ جب ایران کے شہنشاہ نوشیروان عادل نے ہنوں کے خلاف ترکوں کی مغربی سلطنت سے مدد لی تھی اور بعد میں ہنوںکی شکست کے بعد ترک پورے افغانستان پر چھاگئے تھے ۔ اس کے حکمران بھی خان کہلاتے تھے ۔ یہی وجہ ہے مسلمانوں کی آمد سے پہلے بھی اس خان کا پتہ چلتا ہے ۔ مگر مغلولوں کے حملے کے بعد یہ خطاب مسلمانوں کے لیے مخصوص ہوگیا ۔
یہ مقامی ترک حکمران غالباً خان کہلاتے تھے اور بعد میں یہ کلمہ سپہ سالاروں گونروں کو بھی دیا جانے لگا ۔ بعد میں یہ کلمہ اعزازی طور پر مختلف لوگوں کو دیا جانے لگا اور اس کلمہ کا لقب یافتہ معتبر تسلیم کیا جانے لگا ۔ یہ کلمہ خطاب یافتہ لوگوں کی اولاد بھی استعمال کرنے لگیں ۔ مگر سابقہ کی حثیت سے یہ نشان امتیاز ہے اور صرف معتبر ہی اس کو لگاتے ہیں ۔
چنگیر خان کو خانوں کی ایک مجلس نے خاقان یعنی خانوں کا خان خطاب دیا تھا ۔ خان کی طرح نواب ، راجہ اور مہاراجہ کا خطاب کوئی برتر حکمران دے سکتا تھا اور بعد میں انہیں موروثی خطاب میں بدل دیا گیا ۔
اللہ بخش یوسفی نے اپنی کتاب ’یوسف زئی پٹھان‘ میں لکھا ہے کہ سومنات پر پٹھانوں کے دلیرانہ حملے نے سلطان محمود غزنوی سے یہ الفاظ کہلاوائے کہ خان کہلانے کا مستحق صرف پٹھان ہیں ۔ اس وقت سے پٹھان خان کہلانے لگے ۔ اس کی کسی ماخذ سے تصدیق نہیں ہوتی ہے اور خان سے مراد بہادری کے ہیں اور کلمہ پٹھان سولویں صدی سے پہلے کے کسی کتاب میں ملتا ہے ۔ اس سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ محض خیال ہے ۔
تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری