315

زرتشتی تہوار

موسمی تہوار جن کو گاہان ہار کہتے تھے تعداد میں چھ تھے ۔ ہر تہوار پانچ دن تک منائے جاتے تھے ۔ ان میں مقررہ رسوم کے ساتھ بھیڑوں کی قربانی دی جاتی تھی اور خاص رسوم ادا کی جاتی تھیں ْ گاہاں باروں کے نام یہ

(۱) میدیوئے زرمیا (ارودبہشت کے مہینے میں)

(۲) میذیوئے شام (تیر کے مہنے میں)

(۳) پائبتش سہیا (شہر یور کے مہنے میں)

(۴) ایاث رِما (مہر کے مہنے میں)

(۵) میدیا ئریا (دزو کے مہینے میں)

(۶) ہمسپث مئیدیا ۔ یہ تہوار ایام کبیشہ (خمسہ مسترقہ) میں منایا جاتا تھا ۔ یہ دراصل مردوں کا تہوار تھا اور عہد قدیم میں دس دنوں تک منایا جاتا تھا ۔ اوتا کے تیرویں یشت (فرور دین یشت ۴۹۔۵۲) میں ہے کہ مسپت مئیدیا کے دنوںمیں فروشی (باایمانوں ، پہلوی فروہر یا فروز دیگ) لوگوں کی روحیں مسلسل دس دنوں مومنوں کے گھر پر آتی ہیں اور صدقہ و قربانی کا تقاضہ کرتی ہیں ۔ اس لیے اسے فردر دیگان فروشیوں (مردوں) کا تہوار کہتے تھے ۔ البیرونی لکھتا ہے کہ ان دنوں میں لوگ دخموں اور گھروں کی چھتوں پر کھانے پینے کی چیزیں رکھتے تھے کہ مردوں کی روحیں کھائیں اور پیئں ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ان دنوں میں روحیں خاندانوں میں آکر ر ہتی ہیں ۔ لوگ اپنے گھرون کو ثمر و سرد کوہی (حب العرعر) کی دھونی دیتے تھے ۔ کیوں کہ اس کی خوشبوئیں مردوں کو مرغوب ہیں ۔ مسلمانوں میں شب برات اس کا قائم مقام ہے ۔ اس میں بھی مرنے والوں کی نیاز ادا کی جاتی ۔

سال کے تہوار میں سب سے زیادہ نوروز (نوگ روز) تھا اور یہ تہوار ایران میں مقبول ہے ۔ وہ سال کا پہلا دن ہے اور باقیدہ سالوں میں بلا فاصلہ جشن فرودیگان کے بعد آتا تھا ۔ دین کرت کے بیان کے کے مطابق اس روز بادشاہ اپنی رعایا کو خوش کرنے کی کوشش کرتے تھے اور عام لوگ اس دن خوشی مناتے اور آرام میں بسر کرتے تھے ۔ پہلوی کتاب جو نسبتاً متاخر زمانے میں لکھی گئی ہوئی ہے اور وہ تمام گزشتہ اور آئندہ واقعات شمار کیے گئے ہیں ۔ جو نو روز کے دن واقع ہوئے ہیں یا ہوں گے ۔ یعنی اس وقت جب اہوا مزد نے دنیا کو پیدا کیا اور افسانوی تاریخ کے شاندار واقعات ظہور میں آئے تا اختتام دنیا ، دوسرے ، عربی اور فارسی مورخین نے جشن نوروز کی توصیف بیان کی ہے ، فارسی شعراء مثلاً فردوسی اور منوچہری نے اس کے گیت گائے ہیں ، یہ موسم بہار کا تہوار ہے ۔ جس میں قدیم اہل بابل کے تہوار زگمک کے بعض آثار پائے گئے ہیں ۔ نوروز کے دن وصول شدہ مالیات کو بادشاہ کے حضور میں پیش کیا جاتا تھا ۔ صوبوں کے نئے گورنر مقرر کیے جاتے تھے ، اس دن نئے سکے مضروب کیے جاتے تھے ، آتش کدوں کو پاک کیا جاتا تھا ۔

عہد اسلامی میں جشن نوروز اعتدال ربیعی کے دن منایا جاتا رہا ۔ لیکن تقویم عربی جو چاند کے حساب سے چلتی ہے ۔ اس لیے اس کی تاریخ ہر سال بدلتی رہتی تھی ۔ اب ایران میں دوبارہ شمسی تقویم کا رواج ہوگیا ہے اور سال نوروز سے شروع ہوتا ہے ۔ اس کے مہینوں کے نام قدیم زرتشتی سال کے اختیار کرلیے ہیں ۔

آج کل یہ تہوار تیرہ دن منایا جاتا ہے اور پہلے اور آخری دن زیادہ خوشی منائی جاتی تھی ۔ مگر عہد قدیم میں جشن نورز چھ دن رہتا تھا ۔ شاہان ساسانی دربار کرتے تھے جس میں امرا اور خاندان شاہی کے رکن مقررہ ترتیب سے باریاب ہوتے تھے اور انہیں انعام سے نوازا جاتا تھا ۔ چھٹے دن بادشاہ کا خاص جشن ہوتا تھا ۔ جس میں صرف اس کے مقربین شریک ہوتے تھے ۔ جشن نوروز کی مقبول عام اہم رسمیں پہلے اور چھٹے دن منائی جاتی تھیں ۔ پہلے دن لوگ اعلیٰ سویرے اٹھ کر نہروں اور ندیوں پر جاتے تھے ۔ وہاں ایک دوسرے پر پانی پھینکتے اور نہاتے تھے ۔ آپس میں ایک دوسرے کو مٹھائیوں اور دوسرے تحفے عزیز و اقارب کو دیتے تھے ۔ ہر شخص صبح اٹھ کر پہلے شکر کھاتا تھا یا تین دفعہ شہد چاٹتا تھا ۔ بیماریوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہنے کے لیے بدن پر تیل کی مالش کی جاتی تھی اور موم کے تین ٹکڑوں کی دھونی لی جاتی تھی ۔

برصغیر کے مسلمانوں میں چار شنبہ کا تہوار اس کا قائم مقام تھا ۔ یہ تہوار مغلوں کے دور میں خاص اہمیت رکھتا تھا ۔ اس دن لوگ باغوں اور ندیوں کے کنارے جاتے تھے ۔ گہیوں ابالے جاتے تھے اس میں شکر ڈال کر ایک دوسرے کو تحفہ دیئے جاتے تھے اور اس تہوار کو منانے کے لیے حضرت محمد ﷺ سے بعض روایتیں منسوب کیں تھیں ۔ 

دوسرے اہم تہواروں میں ہر مہینے کا وہ دن جس کا نام مہینے کے نام کے مطابق ہو روز عید ہوتا تھا ۔ مثلاً روز تیر جو ماہ تیر کی تیرویں تاریخ کو ہوتا تھا جشن تیرگان کا دن ہوتا تھا ۔ اس دن لوگ غسل کرتے تھے اور گندم میں میوہ ڈال کر پکاتے تھے ۔

جشن آذر (جشن آتش) شہریور کی ساتویں تاریخ کو منایا جاتا تھا ۔ یہ آتش خانگی کا تہوار تھا ۔ اس روز لوگ گھروں میں بڑی بڑی آگیں جلاتے اور خدا حمد و ثنا کر تے تھے اور آپس میں مل کر کھاتے پیتے اور تفریح کرتے تھے ۔ لیکن یہ جشن ایران کے کچھ حصوں میں منایا جاتا تھا ۔

ایک اور تہوار جشن مہرگان یعنی جشن متھرا تھا جو ماہ مہر کے روز مہر یعنی سولھویں تاریخ کو منایا جاتا تھا ۔ قدیم زمانے میں یہ دن سال کے آغاز کا دن تھا ۔ نوروز کی طرح مہرگان کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مبدا و معاد اور افسانوی تاریخ کے خاص خاس واقعات کی یادگار ہے ۔ مہرگان کے دن شاہان ایران ایک تاج پہنتے تھے جس پر ایک گھومتے ہوئے پیئے کے اندر آفتاب کی شکل بنی ہوئی تھی ۔ طلوع آفتاب کے وقت ایک سپاہی شاہی محل کے صحن میں کھڑے ہوکر بلند آواز سے کہتا تھا ۔ اے فرشتوں (یزدان پہلوی یزت یا مشسپندان یعنی میشہ نپنت) دنیا میں اتر آؤ اور دیوؤں اور بدکاروں کو مارو اور انہیں دنیا سے نکال دو ۔ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جو شخص مہرگان کے دن تھوڑا سا انار کھالے اور عرق گلاب کی خوشبو سونگھ لے وہ مصیبتوں سے بچا رہے گا ۔ یہ تہوار شیعوں میں شبرات کی شب ندیوں ، دریاؤں اور کنوؤں پر جاکر امام مہدی کا پکار کا طریقہ جس میں امام مہدی سے آکر اپنے پیروؤں کو ظلم و ستم سے نجات دلائیں کی صورت میں اب موجود ہے ۔

ماہ آذر کی پہلی تاریخ کو دہاجشن (جشن بہار) منایا جاتا تھا ۔ کیوں کہ آذر کی پہلی تاریخ عہد خسران (خسرو اول و دوم) میں (یعنی اس زمانے میں تقویم میں اختلال پیدا ہوا) آغاز بہار کا دن تھا ۔ عہد اسلامی میں یہ تہوار خروج الکوسج کہلاتا تھا ۔ اس میں کسی کم سن بے ریش لڑکے کو گھوڑے سوار اپنے آپ کو پنکھا جھلتا تھا ۔ یہ خوشی کا اظہار ہوتا تھا کہ سردی کا موسم ختم ہوکر بہار آرہی ہے ۔ اس دن بہت سی عامیاں تفریحات ہوتی تھیں ۔ مولانا آزاد نے سخندان فارس میں اس جشن کے بارے میں لکھا ہے ۔ شیعوں میں یہ تہوار زرا مختلف طریقہ سے منایا جاتا ہے ۔ یہ نو محرم کی شپ کو ایک کم لڑکے کو گھوڑے پر سوار ہوکر گشت کرتا تھا لوگ اس کو امام حسین کا قائم مقام تصور کیا جاتا تھا ۔ جب کہ برصغیر میں صرف گھوڑے کو گشت کریا جاتا ہے اور حسین کی قائم مقامی کے لیے گھوڑے کی پشت پر جنگی اسلحہ اور مختلف زیوارات سے سجا ہوتا ہے ۔ 

جشن دہار کے چند دن بعد ماہ آذر کے روز (نویں تاریخ) کو دوسرا جشن آذر ہوتا تھا ۔ اس موقع پر لوگ دوبارہ اپنے کو آگ سے گرم کرتے تھے ۔ کیوں ماہ آذر موسم سرما کا آخری مہینہ ہوتا ہے اور موسم کی شدت سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔

پرانی تقویم کے حساب سے ماہ دذؤ کی پہلی تاریخ کو جشن خرم منایا جاتا تھا ۔ اس دن بادشاہ تخت سے اتر کر سفید لباس میں چمن میں سفید قالین پر بیٹھتا تھا ۔ اس وقت ہر شخص کو اجازت ہوتی تھی کہ وہ اس سے بات کرسکے ۔ بادشاہ خاص کر دہقانوں اور کسانوں سے باتیں کرتا اور ان کے ساتھ کھاتا پیتا اور انہیں بتاتا کہ آج کے دن سب برابر ہیں اور میں تمہار بھائی ہوں ۔ دنیا کا وجود زراعت سے ہے اور زراعت حکومت پر موقوف ہے اور زراعت اور حکومت ایک دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتی ہیں ۔

جشن سَیر سور (لسن کا تہوار) ماہ دذؤ کی چودھویں کو ہوتا تھا ۔ اس دن لوگ لسن کھاتے اور شراب یتے اور گوشت کے ساتھ ترکاریاں پکاتے تھے کہ شیطانی آفات سے محفوظ رہیں اور جنات کے اثر جو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ان سے بچیں ۔

دذؤ کی پندرویں کو آٹے یا مٹی کے چھوٹے چھوٹے انسانی بت بناکر دروازے پر اوپر رکھے جاتے تھے ۔

دذؤ کی سولھویں تاریخ جو تہوار منایا جاتا تھا جس دو مختلف نام ہیں اور اس کا درست تفظ بھی نہیں معلوم ہیں ۔ ان میں ایک نام غالباً مرکب ہے ۔ اس تہوار کا مبدا فریدوں کی داستان کے ساتھ وابستہ ہے ۔ روایت کے مطابق رذؤ کی سولھویں کو فریدوں ایک بیل پر سوار ہوا اور اس رات کو ایک نورانی بیل کا جس کا سینگ سونے کے اور کھر چاندی کے ہوتے ہیں ظہور ہوتا تھا جو چاند کی گاڑی کھنچتا تھا ۔ یہ صرف ایک ساعت کے لیے نمودار ہوتا تھا اور پھر غائب ہوجاتا تھا ۔ جو شخص اس بیل کو دیکھ لے تو اس کی دعائیں فوراً قبول ہوجاتی ہیں ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بیل رات کو ایک اونچے پہاڑ پر سفید بیل کی صورت میں نظر آتا تھا ۔ اگر اس سال خوب ہریالی ہوگی تو یہ بیل دو دفعہ ڈکارتا تھا ۔ اگر خشک سالی ہوگی تو ایک دفعہ ڈکارتا تھا ۔

لینن گراڈ کے عجائب گھر میں ساسانیوں کے زمانے کا ایک چاندی کا پیالہ ہے جس کا نام کلیمودکیا کا پیالہ ہے اس کے گرد خدائے ماہتاب (ماہ) کی تصویر بنی ہوئی ہے جو تخت پر بیٹھا ہوا ہے اور اس کے گرد ہلال کا حلقہ ہے اور اس کے نیچے گاڑی ہے جس کو چار بیل کھنچ رہے ہوتے ہیں ۔  

ماہ سپندارمد کی پانچویں تاریخ کو جشن مژدگیران عورتوں کا تہوار ہوتا تھا ۔ اس موقع پر عورتوں کو تحفے پیش کیے جاتے اور اس دن لوگ انار دانہ پیس کر کھاتے تھے کہ بچھوؤں سے محفوظ رہیں ۔

بچھوؤں سے محفوظ رہنے کے لیے ایک عمل یہ بھی کیا جاتا تھا کہ صبح طلوع آفتاب سے پہلے کاغذ کے تین مربع ٹکڑوں پر ایک منتر لکھ کر ان کو گھر کی تین دیواروں پر لگا دیا جاتا تھا اور چوتھی دیوار خالی چھوڑ دی جاتی تھی کہ اس طرف سے بچھو بھاگ جائیں ۔

سپندار کی انیسویں کو ایک تہوار ہوتا تھا جس کا نام ’نورز آبہائے جاری‘ تھا ۔ لوگ اس دن بہتے پانی میں میں خوشبوئیں ، عرق گلاب اور دوسری خوشبودار ڈالتے تھے ۔

مورخ اگاتھیاس ایک مذہبی تہوار کا ذکر کیا ہے اور لکھتا ہے کہ یہ ایرانیوں کاسب سے بڑا مذہبی تہوار ہے اور اس کا نام جشن ہلاکت حیوانات موذیہ تھا ۔ اس دن ہر شخص کیڑے مکوڑے ، سانپ ، بچھو اور دوسرے موذی جانوروں کو کثیر تعداد میں ہلاک کرتے تھے اور انہیں موبدوں کو لاکر دیکھاتے تھے ۔ مگر کسی اور ماخذ سے اس تہوار کا ذکر ملتا ہے ۔ اگرچہ موذی جانوروں کو کو اہرمن کی مخلوق مانا جاتا ہے اور انہیں ہلاک کرنے کا حکم ہے ۔ کفارے کے طور پر بھی معین تعداد میں موذی جانوروں کو ہلاک کرنے کا حکم تھا ۔

وہمن کی دسویں تاریخ کو مشہور تہوار سَذَگ (فارسی ، سذہ) اور یہ خاص جشن آتش تھا ۔ جس کا ذکر اکثر عربی اور فارسی مصنفوں نے کیا ہے ۔ یہ جشن کبھی تو ہوشنگ پیشدادی خاندان کے پہلا بادشاہ سے وابستہ کیا جاتا ہے اور کبھی ظالم بیوراسب یا دہاک سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ جس کو فردوسی نے ضحاک لکھا ہے ۔ بقول البیرونی سذگ کی رات کو دھونیاں دیتے تھے کہ بادشاہوں کی یہ رسم ہوگئی تھی کہ اس جشن کی رات کو آگ جلاتے ہیں اور اس کو بھڑکاتے اور جنگلی جانوروں کو ہاک کر اس میں دھکیلتے اور پرندوں کو شعلوں کے درمیان میں اڑاتے تھے اور آگ کے گرد بیتھ کر شراب پیتے اور دل لگی کرتے تھے ۔    

وہمن کی تیسویں کی جشن آب ریزگان (جشن آب پاشی) ہوتا تھا اس دن پانی چھڑکتے تھے ۔ لوگوں خیال تھا کہ اس سے بارش ہوتی ہے ۔ البیرونی نے اس تیوار کو ساسانی عہد کے ایک تاریخی واقعہ سے وابستہ کرتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ شاہ پیروز کے دور میں بہت عرصہ تک بارش نہیں ہوئی تو بادشاہ آتش کدہ آذر خورہ (آذر فربگ) گیا اور وہاں دعا مانگی تو بارش ہوگئی ۔ یہ تہوار اسی کے یاد میں منایا جاتا ہے ۔

تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں