زرتشت نے کہاں اور کس طرح انتقال کیا اس بارے میں بھی اختلاف ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سانحہ اصطخر میں ہوا تھا ۔ لیکن اس پر سب متفق ہیں کہ موت کے وقت زرتشت عبادت میں مصروف تھے ۔ یونانی اور لاطینی مصنفین کا بھی کہنا ہے کہ ان کی موت آسمانی بجلی سے ہوئی تھی جو ایک بگولے کی طرح آسمان سے گری تھی ۔ پانچویں صدی عیسوی کا ایک یونانی عیسائی مصنف نینس (شاہ نینوہ) کو زرتشت کا قاتل بتاتا ہے ۔ اوستا اس معاملے میں خاموش ہے لیکن پہلوی تحریروں سے یہ معلوم ہوتا ہے ایک تورانی براتردکیش کے ہاتھوں بلخ میں مارے گئے ۔ زرتشت کی موت کے وقت ان کی عمر بشتر مصنفین نے ستتر سال بتائی ہے ۔ زات سپارم کے مطابق اس وقت زرتشت کی پیغمبری کو سینتالیس سال گزر چکے اور گشتاسپ کو دین زرتشتی قبول کیے ہوئے پینتیس سال گزر چکے تھے اور زرتشت کی موت کے وقت گشتاسپ زندہ تھا ۔
زرتشت کے قتل ہونے اور آتش کدے نوش آذر کی آگ بجھ جانے سے عقیدت مندوں کی ارادت میں کچھ فرق نہ آیا اور نہ زرتشتیوں کی سرگرمیوں میں کچھ کمی نہیں آئی ، دین زرتشتی کو مسلسل ترقی ہوتی رہی اور نئے آتش کدے تعمیر ہوتے رہے ۔ اہرمن نے منہ کی کھائی اور جادو گر نامعلوم مقامات پر رپوش ہوگئے ۔ بہمن یشت کی رو سے اردشیر کیانی یا اردشیر دراز دست (بہمن بن اسفندیار) نے اس مذہب کو دنیا میں پھیلایا ۔ بہمن اپنے باپ سے بھی زیادہ مذہب پکا تھا اور اس نے زرتشت کے نام کو فروغ دیا اور اس نے اسے اپنی سلطنت کا مذہب قرار دیا تھا ۔
بندہ ہشن میں لکھا ہے کہ ہزار سال گزرنے کے بعد ایک شخص ظاہر ہوگا جو دنیا پر مصائب بڑھائیگا اور ناپاکی پھیلائیگا ۔ یہ شخص زرتشت کے قاتل براتروکیش کی نسل سے ہوگا ۔ بہمن یشت کے مطابق ایک مرتبہ زرتشت نے چاہا کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں ۔ زرتشت نے اہورا مزد سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ۔ مگر اہورا مزد نے جواب دیا تم دائمی زندگی دی گئی تو براترکیش بھی ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ داتستان دینیک کے مطابق دنیا کے بدکاروں میں براترکیش بڑا جادو گر تھا جس نے زرتشت کو قتل کیا تھا ۔ اس بحث سے بخوبی ظاہر ہے کہ زرتشت کی عمر و قاتل کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ کیا یہ وہی براتروکیش وہی تھا جس نے پہلے زرتشت کی جان بچپن میں لینے کی کوشش کی تھی ؟ ظاہر ہے یہ مذہبی خرافات ہیں ۔
دبستان مذہب ، کتب زردشتیان اور تاریخ قدما ایران میں لکھا ہوا ہے کہ جن دنوں میں ارجاسپ نے دوسری لڑائی کے لیے ایران پر فوج کشی کی تھی تو گشتاسپ سیستان میں زال کا مہمان تھا ۔ اسفندیار دژگنبد میں قید تھا اور لہراسپ عبادت میں مشغول رہتا تھا کہ یکایک ترکوں نے شہر پر قبضہ کرلیا ۔ ایک شخص تور براتور یا توربراتورخش معبد زرتشت میں آگھسا اور اپنی تلوار سے پیغمبر یزادن کو شہید کردیا ۔ زرتشت نے شمار افراز یا یاد افراز (تسبیح) جو ان کے ہاتھ میں تھی اپنے قاتل کی طرف پھینکی اور اس کے لگتے ہیں ایک شعلہ نکلا جس سے ان کا قاتل وہیں جل کرڈھیر ہوگیا ۔ لیکن یہ امر پھر بھی مشتبہ ہے کہ یہ قتل کہاں ہوا تھا ۔ اگر یہ آتش کدے نوش آذر میں قتل ہوئے تو یہ آتش کدہ باختر ہی میں تھا ۔ جاماسپ زرتشت کا نہایت متعتقد مرید اور زرتشت کی موت کے بعد جانشین بنا ۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اوستا کو یکجا کیا تھا ۔
تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری