210

زر کو بازار میں پھیلانا اور کھنچنا

پروفیسر ہن سن Per Hansen اپنی کتاب ’مالی نظریہ اور مالیاتی پالیسی‘ Monetary Theory and Fiscal Policy میں لکھتا ہے جب آپ زیادہ قومی آمدنی اور کامل روز گار کے خیال سے اپنی معیشت کی ترقی کے خواہاں ہوتے ہیں ۔ تب آپ کو رسد زر یا مقدار زر میں اضافہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ حکومت کو نوٹوں کے جاری کرنے کے موجودہ طریقہ کار میں مرکزی بینک کو حامل سود کفالتیں دیتی ہے کہ نوٹ چھاپے جائیں اور جب مرکزی بینک یہ محسوس کرتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ نوٹ گردش کررہے ہیں تو وہ نوٹوں کی واپسی کے لیے مرکزی بینک سرکاری کفالتیں تجارتی بینکوں کو فروخت کردیتا ہے ۔
ہن سن Hansenکا کہنا ہے کہ یہ درست ہے ہم اپنے مالی اداروں کو کلی طور پر بدل سکتے تھے ، ہم پرانے طریق کار کی طرف رجوع کر سکتے ہیں ۔ جب کہ حکومت بغیر اپنی کفالت کے خود کاغذی نوٹ چھاپتی تھی ۔ جدید بادی النظر میں معقول طریقہ سرکاری کفالتوں کی بنا پر مرکزی بینک کی طرف سے کاغذی نوٹ چھاپتا ہے ۔ وفاقی محفوظ بینک (امریکہ کا مرکزی نظام بینکاری) سرکاری کفالتیں بازار سے خرید کرلوگوں کے پاس نوٹوں کی تعداد یا بینکوں کے پاس نقد روپیہ بڑھا سکتا ہے ۔ یہ سرکاری کفالتیں بغیر سود کے ہونا چاہیے ۔ اس طریق کار میں بمقابلہ دوران جنگ کے مروجہ تقلیدی طریقہ کار کے جس میں وفاقی بینک اور تجارتی بینک دونوں نے سرکاری کفالتوں کی خریداری میں حصہ لیا تھا کچھ اچھائیاں اور بہت سی برائیاں ہیں ۔
نوٹوں کی کفالت کے لیے ہن سن Hansen حامل سودی کفالتوں کے بجائے غیر حامل سودی کفالتوں کے رواج کے حق میں ہے ، لیکن وہ کچھ برائیوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے ۔ یہ برائیاں ملک میں مقدار زر کے بڑھ جانے سے پیدا ہوتی ہیں ۔ جب آپ کے ملک میں مقدار زر بڑھ جائے تو آپ کس طرح روپیہ واپس لائیں گے ۔
ہاٹرے Hawtrey اپنی کتاب کرنسی اور ادھار Currency and Credit میں لکھتا ہے کہ جب مرکزی بینک ہی رائج الوقت سکہ کا واحد ذریعہ ہے تو یہ رسد زر کو اس طرح کم کرسکتا ہے کہ قرض دینے سے صاف انکار کردے ۔ لیکن تجربہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ صاف انکار کرنا نہایت سخت روئیہ ہے ، اس لیے یہ تخفیف زر کا معقول ذریعہ نہیں بن سکتا ہے ۔ شرح مرکزی بینک کی حکمت عملی زیادہ شرح سود طلب کرکے صاف انکار کا ایک نعم البدل ہو سکتی ہے اور یہ شرح سود وقت کے تقاضے کے مطابق کم وبیش کی جاسکتی ہے ۔ اس کا طریقہ آج کل کے زمانے میں بھی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شرح مرکزی بینک ہی روپیہ کو بازار کھنچنے کا موثر طریقہ ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ التباض زر اتنا ضروری ہے جتناکہ توسیع زر ۔ توسیع زر کا خطرہ دائمی ہے لہذا قبل اس کے یہ خطرہ مہلک صورت اختیار کرلے التباض زر ضروری ہے ۔  
پروفیسر ہن سن Hansen Pro جیک وائیر Jacob Viner کے ایک مضمون ’کیا ہم افراط زر کو روک سکتے ہیں Can we chech inflation’ جو پیل یونیور سٹی کے پیل ریویو میں شائع ہوا تھا ۔ لکھتا ہے کہ اپنی دستوری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسا طریقہ کار تلاش کرنا چاہیے جو انتظامیہ کو اس بات کا مجاز کرے کہ وہ کانگریس کے تفویض شدہ خصوصی اختیارات کے تحت فوری فیصلے و اقدامات کرسکے ۔ اس پروگرام کے دستوری اجزائے ترکیبی پر تفصیلی روشنی ڈالنے کا یہ موقع نہیں ہے ۔ لیکن جن باتوں پر زور دینا چاہتا ہوں ان میں کانگریس کے وضع کردہ اصول کی مطابقت سے صدر کو شرح محصول میں تغیر کرنے کا اختیار تمیزی حاصل ہو اور وسیع اساس پر بینکوں کے افزائش زر کے اختیار کو منضبط کرنے کے لیے وفاقی محفوظ بینک کے افسروںFederal Reserve Authorities کے اختیارات میں توسیع کرنا ہیں ۔ اس نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے پرفیسر ہن سن لکھتا ہے کہ جس طرح کانگریس نے (قانونی حدود کے اندر) منتظمہ کو محصول درآمد برآمد کے رد وبدل کا اختیار دیا ہے اور جس طرح کانگریس نے قانون وفاقی محفوظ بینک کے تحت جو مالی افسران کو (مقنہ کی حدود کے اندر) بینکوں کے محفوظ تناسب کو گھٹانے بڑھانے کے اختیارات دیئے ہیں اسی طرح یہ بہت ضروری ہے کہ کانگریس کی حدود متعینہ کے اندر منتظمہ کو شرح انکم ٹیکس کے رد وبدل کا اختیار دیا جائے‘۔
بادی النظر میں محصولات کے ذریعے افراط زر کو قابو میں رکھنا ممکن نہیں ہے ۔ اگرچہ محصولات مالیاتی پالیسی کا اہم جز ہیں اور حکومت ان کی وصولی سے ہی اپنے اخراجات پورے کرتی ہے ۔ مگر یہ حقیقت پیش نظررکھنی چاہیے کہ ٹیکس صرف حکومتی اخرجات پورے کرنے کے لیے نہیں لگائے جاتے ہیں ۔ بلکہ کسی بھی حکومت کی مالیاتی پالیسی میں دوسرے مقاصد بھی کار فرما ہوتے ہیں ۔ خاص کر کسی معاشرے کی ضروریات اور سیاسی محرکات شامل ہوتے ہیں ۔ جس میں معاشرے کے کسی خاص طبقے یا کسی خاص علاقے کے علاوہ کسی خاص صنعت یا سرپرستی یا کسی خاص اشیاء پرکنٹرول کے لیے بھی خاص ٹیکس شامل ہوتے ہیں ۔ اس طرح بیرونی تجارت میں برآمد کے لیے خاص چھوٹ دی جاتی ہے کہ برآمد کی حوصلہ افزائی ہو یا بعض اشیاء کی بیرون ملک برآمد کو رکنے کے لیے ان پر ٹیکس میں اضافہ کردیا جاتا ہے کہ ان کی برآمد شکنی ہو اور ملک کے اندر ان اشیا کی قلت نہ ہو ۔ اس طرح درآمد پر بھی کسی چیز کی قلت کے پیش نظر اس کو چھوٹ دی جاتی ہے ۔ گویا حکومت ٹیکسوں کے زریعے صرف اپنے اخراجات ہی نہیں برداشت کرتی ہے بلکہ اس کے زریعے مالیات و معیشت کو بھی کنٹرول کرتی ہے ۔ 
اگرچہ چند محصولات جن میں انکم ٹیکس ا ور پراپرٹی ٹیکس شامل ہیں ، جو ادائیگی کرنے والے خاص طبقے پر اثر انداز ہوتے ہیں کے علاوہ اکثر محصولات ان اشیاء یا صنعتوں پر لگائے جاتے ہیں جن کا اثر معاشرے کے تمام طبقوں پرپڑھتا ہے یا جو ان اشیاء یا خدمات کو استعمال میں لاتے ہیں ۔ اس طرح یہ برائے راست ان کی آمدنیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ جب کہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں عوام کی اکثریت کم آمدنی سے گزارا کرتی ہے ۔ اس لیے کسی محصولات کے نفاذ سے پہلے ان تمام عوامل اور محرکات کو مد نظر رکھا جاتا ہے ۔ پھر اہم بات یہ ہے کہ کسی محصول کے نفاذ صرف مالیاتی عوامل در پیش نہیں ہوتے ، بلکہ اس کا مقصد کسی صنعت کی سرپرستی اور تحفظ بھی شامل ہوتا ہے ۔
موجودہ دور میں معاشیات کل بہت اہمیت حاصل ہو گئی ہے ۔ کسی بھی ملک کو معا شی ترقی دینے یا افراد کی خوشحالی میں اضافہ کرنے کے لئے اجتماعی مسائل کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔ اس کے لئے ملک میں موجودہ ذرائع کو استعمال کیا جانا چاہیے ، تاکہ قومی آمدنی کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جاسکے ۔ قومی آمدنی مراد ان تمام اشیاء و خدمات کی مالیتوں کا مجموعہ ہے جو کسی ملک میں ایک سال میں پیدا کی جائیں ۔ اس لئے قومی آمدنی کو زر کی صورت میں ظاہر کیا جاتا ہے ۔ کیوں کہ زر کی مددسے ہی تمام اشیاء و خدمات کی قدر کو ظاہر کیا جاسکتا ہے ۔ قومی آمدنی میں اضافہ ہو جانے کی صورت میں زر کی رسد کو بڑھایا جاسکتا ہے ، تاکہ زر کی مدد سے اشیاء پیدائش خریدی جاسکیں ۔ اس طرح زر کی رسد بڑھانے سے سرمایاکاری میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ اس طرح قومی آمدنی میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ گویا زر کا قومی آمدنی سے گہرا تعلق ہے ۔ ملک میں افراط زر ہو تو زر کی رسد کم کرکے اور تفریق زر کی صورت میں رسد زر کو بڑھا کر ملک کے معاشی استحکام اور بے روزگاری کو قابو میں کیا جاسکتا ہے ۔ 
کسی بھی ملک میں زر مرکزی بینک یا حکومت کی طرف سے جاری کیا جاتا ہے ۔ مرکزی بینک اپنی زری پالیسی کے تحت اقدامات کرتا ہے اور اس کے مطابق زر کی رسد کو کنٹرول کرکے معاشی اتارچڑھاؤ کو کم کرسکتاہے ۔ 
ملک میں مالیاتی پالیسی کے تحت حکومت ملک میں استحکام کی خاطر سرکاری خرچ و محصولات کی وصولی کے متعلق اقدامات کرتی ہے ۔ اس سے نہ صرف ملک کو معاشی استحکام حاصل ہوتا ہے بلکہ قومی آمدنی بڑھتی ہے اور لوگوں کو روزگار emplyment بھی ملتا ہے ۔                

تہذیب و تدوین
(عبدالمعین انصاری)

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں