سندھ تہذیب کے خاتمہ کے بعد ایک ہزار سال تک سندھ میں کیا ہوتا رہا ہم اس کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں ۔ رگ وید کے اشلوکوں میں سندھ کا نام کئی دفعہ آیا ہے لیکن تفصیل نہیں ملتی ہے ۔ مہابھارت میں دردپدی نے سندھ کو ایک دولت مند ملک بیان کیا ہے ۔ گوتم بدھ کے اقوال میں سدریر دیس کی راج دھانی روریکا Rorika اور جٹکا میں اس اس کو رو رو کہا گیا ہے ۔ بعض کا خیال ہے یہ اروڑا کی طرف اشارہ ہے ۔ سنسکرت کی کتابوں مثلاً وشنو پران اور مسیتہ پران میں سودیر عام طور پر سندھو یا سندھارا کے ساتھ آیا ہے ۔ یہاں کے علاقوں کے نام اس قبائل کے نام پر دیئے گئے ہیں جو جو یہاں آباد تھے اور دریائے سندھ جہاں سے گزرتا تھا ۔
قدیم فارسی ادب میں جو حوالے میں ملتے ہیں ان میں اسے مہرا کا نام دیا ہے جسے عربوں نے مہران بنالیا ۔ سنسکرت ، پالی اور پہلوی میں سندھ کے بارے میں مواد برائے نام ملتا ہے ۔ سکندر سے پہلے دارا نے یہاں دریائے سندھ کے بارے میں اپنے یونانی سپہ سالار اسکالکس کو دریائے کابل کے راستے روانہ کیا تھا ۔ جو ڈھائی سال کے بعد مصر پہچا تھا ۔ اس نے اپنا سفر نامہ لکھا تھا ۔ اس کی تحریر معدوم ہوچکی ہیں ۔ لیکن یونانی جغرافیہ دان ہیکاٹیوس Hekataeus نے اس سے استفادہ حاصل کیا تھا ۔ جس کی تحریروں کے چند ورق ہی ملتے ہیں ۔ اس نے اوپیائی قبیلے کا ذکر کیا ہے جو دریائے سندھ کے کنارے آباد تھا ۔ ہیروڈوٹس نے انڈیا کا ذکر کیا ہے کہ وہ دارا کی سلطنت کا سب سے دولت مند صوبہ تھا ۔ یہ انڈیا اصل میں سندھ کا علاقہ تھا ۔
پہلا یونانی مصنف کتیشاس ہے جس نے ایرانیوں کی معلومات کو جو سندھ کے بارے میں تھیں تفصیلی بیان پیش کیا تھا ۔ اس میں اکثر بے سروپا باتیں ہیں ۔ بعد کے دور میں یعنی سکندر کے مورخین ارسطو بلس ، ٹالمی ، سوئٹر اور نیرکس نے سندھ پر جو کچھ لکھا ہے وہ بھی باقی نہیں رہا ۔ ہم تک جو تحریریں پہنچیں ہیں وہ حوالے ہیں جو یونانی اور رومی حوالے ہیں ۔ یہ کافی بہتر ہیں مگر ان میں جغرافیائی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ اسٹرابو Strabo نے بھی سندھ کے بارے سن عیسوی کے ابتدائی بیس سالوں میں لکھا ہے ۔
نیرکس لکھتا ہے کہ ہندوستان کے شمالی میدان دریا کی مٹی سے بنے ہیں ۔ اسٹرابو نے سکندر کے ساتھیوں کی مبالغہ آمزی پر خاصی تنقید کی ہے ۔ اس نے اسطوبلس کی تفصیلات بیان کی ہے ۔ اس کے مطابق دریائے سندھ نے اپنے راستہ تبدیل کرلیا اور ایک ہزار شہر اور دیہات ویران ہوگئے ۔ یہ راستہ غالباً کشمور ، کندھ کوٹ ، شکار پور کے مشرق سے ہوکر سکھر سے گزرتا تھا ۔ سکندر کے ساتھیوں نے سکھر کا موجودہ تنگ نائے کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ ان کے مطابق یہ علاقہ مسقانوس Musikanus قبیلہ کے زیر نگین تھا ۔ اس کے علاوہ دوسری شہادتیں کے مطابق دریائے سندھ سے زرا پہلے موجودہ راستے سے دور نہیں بہتا ہوگا ۔ اس وقت دریائے سندھ روہڑی کی پہاڑیوں کے مشرق میں عام مفروضہ کے مطابق نہیں بہتا ہوگا ۔ سکندر نے مالی ، اوکے کیانوس Okykarnus اور ساممبس Sambus کے خلاف کاروائیاں کیں اور سفر کے آخر میں جب وہ میوسی کانس اور پٹالہ پہنچا تو دریا اپنی پوری طغیانی کے ساتھ بہہ رہا تھا ۔ بالائی سندھ میں میوسی کانس کا دارلحکومت تھا ۔ جس کے بارے میں معلومات نہیں ہیں ۔ آریان کے بیان کے مطابق سکندر کو یہ قلعہ بند مقام بہت پسند آیا ۔ کچھ کا خیال ہے یہ اروڑ کا مقام تھا ۔ تاہم اس کی تائید میں کوئی شہادت نہیں ملتی ہے کہ یہ واقعی اروڑ تھا ۔ جب کہ دریا اس کچھ زیادہ دور نہیں مغرب میں بہتا تھا ۔ اوکے کانس اور سامبس جنہیں سکندر نے فتح کرلیا تھا یقناً میوکانس کے مغرب میں واقع ہوں گے ۔ کیوں کہ سکندر نے سامبس کو پہاڑی قبائل کا گورنر مقرر کیا تھا ۔
میگاس تھینیز Magasthones جس نے سکندر کے حملہ کے بیس بائیس سال بعد ہندوستان کا سفر کیا تھا اور چندر گپت کے دربار میں طویل عرصہ تک رہا تھا ۔ اس کا واضح بیان ہے کہ دریائے سندھ نے ایک بہت بڑا جزیرہ بنالیا ہے ۔ جو پراسیاں Parsine کہلاتا تھا ۔ دوسرا چھوٹا جزیرہ پٹالہ Patalae کے نام سے مشہور ہے ۔ اس جزیرہ کے محل وقوع کے متعلق کریٹکس بیان کرتا ہے کہ میوسی کانس کو زیر کرنے کے بعد سکندر نے ان کے دارلحکومت میں فوج تعینات کردی تھی ۔ اس کے بعد پراستھا Prastha قبیلے کے ملک میں اس نے پیش قدمی کی پورٹی کانس Porticanus ان کا راجہ تھا ۔ یہ پورٹی کانس قبیلہ سنسکرت کے لفظ پرستھا Prarstha سے مشتق ہے ۔ اس کو پراجنا Prarjuna بھی کہا جاسکتا ہے جو الہ آباد کے برج پر کندہ ہے ۔ پلانیPliny نے اس جزیرے کو پراسیا کے نام سے ذکر کیا ہے ۔ پلانی نے دریائے سندھ کی بہت شاخوں کا ذکر کیا ہے ۔ ان میں سے ایک آربیٹا Arbita پہاڑ کی طرف جاتی ہے ۔ سکندر کے ساتھیوں آریان اور دوسرے لوگوں نے اس شاخ کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ شاخ اس موسم میں خشک ہوگئی ہوگی ۔ تب بھی اس کی گزر گاہ کیچڑ سے بھری تو ہوگی ۔
اوگڈی کانس Oxykanus اور سامبسSambus کے خلاف مہمات ختم کرنے کے بعد جس دریائی بیڑا سے سکند واپس آیا وہاں سے بحری سفر کا دوسرا مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب سیلاب کا زمانہ گزر چکا ہوگا ۔ آریان کا بیان ہے جس مقام پر دریائے سندھ جس مقام پر دوحصوں میں تقسیم ہوکر ڈیلٹا بناتا ہے اور دونوں شاخیں سندھ کے نام سے پکاری جاتی ہیں ۔ سکندر نے یہاں کی قلعہ بندی کو مستحکم کیا تھا اور یہ علاقہ کا بے آب و بیان تھا ۔ اس صورت میں دریائے سندھ نارا کے راستہ میں بہتا ہو اور ڈیلٹا سے قبل اس کا دو شاخوں میں مستقم تقریباً جمراؤ ہیڈ یا مٹھراؤ کے قریب واقع ہو ۔ اس طرح نارا اور ہاکڑ آخری حصہ آریان کے بیان کے مطابق دریائے سندھ کی شاخ بن جاتی ہے ۔ جب کہ دائیں شاخ اندازاً جنوب مغرب میں حیدرآباد چلی جاتی ہے اور پٹالہ تھر کے ریگستانوں کے قریب واقع ہوگا ۔ جہاں کی زمین برائے نام قابل کاشت ہے ۔
دریائے سندھ اوپر شمال میں دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور مغربی شاخ کے ذریعے سکندر کے بحری بیڑے نے سفر کیا تھا ۔ کڑیٹس Craetus بیان کے مطابق تیسرے دن تک جب وہ پیتالیس میل کا فاصلہ طہ کرچکے تھے تو اسے مقامی باشندوں نے بتایا وہ کھارے پانی میں پہنچنے والے ہیں ۔ انہوں نے سکندر کو بتایا کہ پہلے انہیں ایک جزیرے پر ٹہرنا پڑے گا ۔ اس کے بعد دریا کا دہانہ آئے گا ۔ سکندر کا بیڑا چلتا ہوا کھلے سمندر میں ایک جزیرہ کلوٹا پہنچا ۔ یہ وسیع جزیرہ تھا اور یہاں پانی بھی موجود تھا ۔ یہاں جہازوں کے لنگر انداز ہونے کی جگہ تھی جہاں سکندر ٹہرا گیا تھا ۔ اس کے بعد وہ خود سفر پر نکل گیا اور دو سو اسٹیڈ کا فاصلہ طہ کرکے ایک دوسرے جزیرے پر پہنچے جو کھلے سمندر میں واقع تھا ۔ اس مرحلہ میں ان کے بائیں ہاتھ پر ایک جزیرہ تھا ۔ جس کی سطح سمندر کے برابر تھی ۔ یہ جزیرہ ساحل کے ساتھ پھیلا ہوا تھا اس لیے ایک تنگ خلیج پیدا ہوگئی تھی ۔ جہاں جہاز لنگر انداز ہوسکتے تھے ۔ نیرکس کو یہ بندرگا اتنی وسیع اور عمدہ معلوم ہوئی کہ اس نے اسے سکندر کا نام دے دیا ۔ اس بندرگاہ کے بالکل سامنے دو اسٹیڈس کے فاصلہ پر ایک جزیرہ بیباکتا Bibacta کہلاتا تھا ۔ بندرگاہ سکندر کو عموماً کراچی اور بیباکتا منوڑا سمجھا جاتا ہے ۔
اس زمانے میں ڈیلٹا کی سمندری حدود کیا تھیں ہمیں اس بارے میں معلومات نہیں ہیں ۔ لیکن اس وقت دریا کے بائیں شاخ گنجو ٹکر (حیدرآباد) کے مشرق میں بہتی تھی اور اس علاقہ میں مکلی کا پہاڑی سلسلہ ہے ۔ جس کو دریائی مٹی کی ایک تین میل لمبی پٹی چٹانی زمین سے جدا کرتی ہے ۔ جو کہ عام طور پر کراچی اور راس موئز کیپ تک چلی گئی ہے ۔ یہی وہ مغربی راستہ ہے جس سے دریائے سندھ گزر کر سمندر تک پہنچتا تھا ۔ مکلی کی پہاڑیاں یا پیر پٹھو پہاڑیاں اس کا جنوبی سرا ہیں ۔ کلوٹا یہاں شمال مشرق میں واقع ہوگا جو یعنی میرپور پٹھوڑو سے کس قدر جنوب میں ہے ۔ کیوں کہ ایسی کوئی بات موجود نہیں ہے جس سے ثابت ہوکہ یہ ایک سپاٹ میدان کے علاوہ جسے دریا نے منقسم کرکے احاطہ میں لے لیا ہو ۔ اس کے اندر لنگر انداز ہونے کی وہ کھاڑیاں ہیں جو ہوا سے محفوظ ہوں گی اور پانی کی تیز لہریں وہاں نہیں پہنچ سکتی ہوں ۔ صاف پانی سیلاف کے موسم میں وافر مقدار میں دستیاب ہوگا ۔
یقینی طور پر ایک جزیرہ جس کے متعلق کہا جائے کہ وہ خاصہ کھلے سمندر میں واقع ہے ۔ پائیدار اور مستقل زمین رکھتا ہو اور کیچر اور ریت کے بہت سے چھوٹے بلند مقامات اور ٹیلے دریا کے دھانے پر ساحل سمندر کے قریب بن جاتے ہیں ۔ جنہیں چھوٹی چھوٹی چھوٹی کھاڑیاں ایک دوسرے سے الگ کرتی ہیں جزیرہ نہیں کہلا سکتا ہے ۔ ہمارے علم کے مطابق اس وقت ڈیلٹا کی حدود مکلی کی پہاڑی اور پیر پٹھو سے آگے نہیں بڑھی تھی اور سمندر کی موجودہ حدود ابھن شاہ کی پہاڑی تھی ۔ جس پر سکندر نے قیام کیا تھا ۔ نیرکس جس مقام سے گزرا ہے اس کے ایک طرف پیر پٹھو اور مکلی کی پہاڑیوں کا جنوبی رخ تھا اور بائیں طرف کیچر بھرا ہوا تھا ۔ وہ مقام یقناً گجو کے آس پاس کا علاقہ ہوگا ۔ اس مقام پر شاید دریائے سندھ کی مغربی شاخ پر بہنے والا پانی ایک کھاڑی میں جمع ہوگا ۔ جو ایروس کی بلندیوں یعنی پہاڑوں سے آتا تھا ۔ اس طرح درمیانی جگہ ایک وسیع اور محفوظ بندر گاہ بن گیا ہوگا ۔ جس کے دہانے پر بیباکتا تھا ۔ یہ جزیرہ چھوٹی سی چٹانی بلندی تھی ۔ اس جزیرہ کو تھڑی گجو کہا جاسکتا ہے ۔ یہ بندرگاہ سکندر جائے وقوع تھی اس جگہ جو دریائی مٹی کا میدان ہے وہ برائے نام سمندر سے بلند ہے اور ہوسکتا ہے دو ہزار سال کی پیداوار ہو ۔ یہاں سے دس میل مغرب تک یعنی گھارو وہی میدان پھیلا ہوا ہے ۔ یہاں جگہ جگہ مٹی کے ٹیلے اور ریت کی پہاڑیاں ابھری ہوئی ہیں ۔ جس کی اوسط بلندی سمندر سے بیس فٹ سے زیادہ بلندی نہیں ہے ۔
یہ بلندیاں اور ابھرتی ہوئی نواحی زمین جزیرہ کلوٹا کے شمال مغرب میں قریب ہی واقع ہوں گیں اور اس وقت ساحل پر سمندر تک ان کا ایک حصہ چلاگیا ہوگا ۔ اس کے سامنے ریت اور کیچر کا قدرتی پشتہ بن گیا ہوگا ۔ جس سے نیرکس کا بیڑا باہر نکلا اور اس آبی راستے کے درمیان ہوگا جس سے نیرکس کا بحری بیڑآ باہر نکلا ہوگا ۔
پلائنی نے لکھا ہے کہ دریائے سندھ چھ میل سے زیادہ چوڑا نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا پانی پینالیس فٹ سے زیادہ بلند ہوتا ہے ۔ دریائے سندھ اپنے دہانے پر تقسیم ہوکر ایک بڑا جزیرہ بناتا ہے جو پراسیاں کے نام سے مشہور ہے اور ایک چھوٹا جزیرہ بناتا ہے جو پٹالہ کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ پٹالہ کا ہر اضلاع مساوی مثلث کی شکل کا اور ہر ضلع دو سو میل مشہور ہے ۔ جو لوگ گنگا کے میدان کے جنوب میں پائے جاتے ہیں ان کا رنگ کالا ہے ۔ مگر جو لوگ دریائے سندھ کے قریب رہتے ہیں ان کا رنگ صاف ہے ۔
ابیریا ابھیرا قبیلہ جو سکندر کے حملہ تقریباً دو صدیوں کے بعد سندھ کے زیریں علاقے میں داخل ہوا تھا ۔ پتنلی نے مہابھاشیہ میں جو دوسری ق م کی تصنیف ہے اسے شودر کہا ہے ۔ پانچ سو سال بعد یہ مغربی ہند میں نیم آزاد آباد تھے اور سمدر گپت Samudragupta کا مطیع تھا ۔ وشنو پران میں ابھیر قبیلہ کو سوراشٹر قوم کے ساتھ لکھا ہے ۔
دی پیری پلس آف دی ایری تھریس کا گمنام مصنف جو کہ پلائنی کے کچھ بعد یعنی تقریباً پچاس عیسویں میں لکھتا ہے کہ سطح سمندر بہت نیچی اور یکساں ہے جس میں دریائے سندھ کا دھانہ ہے ۔ اس دریا سے خارج ہونے والے پانی کی مقدار اتنی کثیر ہے کہ جب کہ زمین سے کافی دور سمندر میں ہی دریا کے پانی کی وجہ سے سمندر کا پانی سفید ہوجاتا ہے ۔ دریا کے سات دھانے ہیں اور سب پایاب ہیں اور ریت سے پھرے ہونے کی وجہ سے جہاز رانی کے قابل نہیں ہیں ۔ اس کے دھانے پر ایک تجارتی بندرگاہ اور ایک چھوٹا جزیرہ ہے اور اسے باربریکون Barbaricon کہا جاتا ہے ۔ یہاں جہاز ٹہرتے ہیں اور ان کا مال چھوٹی کشتیوں میں دریا کے ذریعے میناگر Minagira تک پہنچایا جاتا ہے ۔ یہاں بادشاہ کا محل ہے اور یہاں ایک پارتھین شہزادہ حکمران ہے حلانکہ ملک سیتھا کہلاتا تھا ۔
اندورنی علاقہ کے سرحدیں سیتھیا سے ملتی ہیں اور ابیریا Aberia کے نام سے مشہور ہے ۔ اس کا سمندری دروازہ سوراسٹرین Surastreneکہلاتا ہے ۔ یہاں چاول کثرت سے پیدا ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ تیل ، مکھن ، ململ اور ہندوستانی کپاس کے موٹے کپڑے یہاں پیدا ہوتا ہے ۔ یہاں مویشیوں کے گلے لاتعداد ہیں ۔ مقامی باشندے لحیم شہیم اور کالے ہیں اور اس کی راج دھانی مناگر ہے ۔ ٹالمی نے اندوسیتھیا کے نقشہ پر بہت سے شہروں کے نام بتائے ہیں مگر ان کی شناخت ممکن نہیں ہے ۔
باربری کون اور میناگر کی شناخت مشکل ہے ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ میناگر وہ شہر ہے جو سکندر اعظم کے وقت پٹالہ مشہور تھا اور بعد میں ایک سیتھن نام سے مشہور ہوگیا ۔ ٹالمی نے دریائے سندھ اور علاقے کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ ناقص اور پیچیدہ ہے ۔ تاہم ٹالمی اس علاقہ کو اندو سیتھیا کا نام دیتا ہے ۔ اس میں وادی سندھ کا بشتر حصہ ، کاٹھیاوار کا کچھ حصہ شامل کرتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے نوکدار تکونی زمین جو دریا کی دو شاخوں میں مستقم ہونے سے وجود میں آگئی ہے اس کا نام پٹالین Patalene ہے اس سے ملحق علاقہ ابیریا Aberiaa کا ہے جس میں دریائے سندھ کے دہانے اور اس طرح کا وہ علاقہ جو خلیج کانتھی Kanthi کے اطراف میں پھیلا ہوا ہے اور سوراشٹرین Surastrene کہلاتا ہے ۔
ٹالمی کے مطابق دریائے سندھ اپنی شاخوں جو بڑا جزیرہ بنا رہا ہے وہ پراسیان ہے ۔ اس نے اس علاقہ کا جو نقشہ بتایا ہے اس میں بہت غلطیاں ہیں ۔ مگر وہ یہ بھی کہتا ہے کہ دریا کی ڈیلٹا پر شاخوں میں مستقم ہوجاتا ہے ۔ دائیں کنارے پر دو شاخیں نکلتی ہیں اور بائیں پر دو شاخیں نکلتی ہیں ۔ بائیں شاخ دائیں سے پہلے نکلتی ہے ۔ اصل میں وہ دریا سے نکلنے والی شاخوں اور اس میں گرنے والی شاخوں میں تمیز نہیں کرسکا ۔ ٹالمی نے دریائے سندھ کے انتہائی شمال میں جو دریائے سندھ سے نکلتی دیکھائی ہیں ہیں وہ وہ ارخوسیا Archosia (قندھار) کی طرف بہتی ہے ۔ اس طرح اس نے جو تفصیلات دی ہیں اس سے غلط فہمی اور پیچیدیگی زیادہ ہوتی ہے ۔
پراسی کے معنی ایرانی کے ہیں اور پہلے غیر ملکوں کو برصغیر میں پراسی کہا جاتا تھا ۔ سکندر کے بعد یہ علاقہ موریہ خاندان کے قبضے میں آگیا تھا ۔ بعد کے دور میں کب موریہ خاندان کی حکومت ختم ہوگئی تھی تو مختلف جگہوں مثلاً سندھ راجپوتانہ ، نیپال وغیرہ میں موریہ خاندان کی حکومتیں قائم ہوگئیں تھیں ۔ پراسی یا پراسیان پر موریہ بھی حکمران رہے تھے ۔ ان کی حکومت کو غالباً یونانیوں نے ختم کیا ۔ یونانیوں نے بھی اس علاقہ پر دو سو سال تک حکومت کی تھی اور انہیں سیتھیوں نے نکلال باہر کیا اور یہ علاقہ ان کے نام سے ہندو سیھتہ مشہور ہوا ۔ ابھی ان کو حکومت کرتے ہوئے مشکل سے سو سال گزرے تھے کہ پارتھیوں نے ان کو زیر اثر کر لیا ۔ اس طرح سندھ میں سیھتی پارتھی حکومتیں قائم ہوگئیں اور ان کی نوعیت سٹراپی کی رہی ۔ جو پارتھی حکومت کے زیر فرمان سنجھی جاتی تھیں اور یہ سیھتی پارتھی آپس میں مخلوط ہوگئے ۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان پر مخلوط نسل کے سیھتی اور پارتھی حکومت کرتے تھے ۔ ان سیتھی و پارتھیوں کو کشان حکومت نے خاتمہ کردیا ۔
یہاں تک کہ اس علاقے پر ہنوں نے کشنوں کو نکال کر اپنی حکومت قائم کرلی ۔ ہن سورج کی پوجا کرتے تھے اور ملتان کا سورج مندر ان کا ہی بنایا ہوا ہے ۔ ان کے دور میں ہندوستان میں دوبارہ ہندو مذہب کا احیاء ہوا اور بدھ مت کا ذوال شروع ہوا ۔ چینی سیاح ہوانگ سانگ ہنوں کے آخری دور 629ءمیں برصغیر آیا تھا ۔ اس کے سفر نامے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقہ کئی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اور یہ ریاستیں ہنوںکی باج گزار تھیں ۔ جب ہنوں کی حکومت کمزور ہوئی تو یہ ریاستیں خود مختیار ہوگئیں ۔
چینی سیاح ہوانگ سانگ نے اپنے سفر نامہ میں سندھ کے جن مقامات اور معلومات درج کی ہیں وہ بہت حد تک قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں ۔ ان کے نام اور محل وقوع درست نہیں ہیں جس سے پیچیدیگیاں پیدا ہوگئیں ہیں ۔ مثلاً اس نے یہاں کے حکمران خاندان کو شودر بتاتا ہے ۔ یہ رائے خاندان تھا اور شودر ہر گز نہیں تھا ۔ یہی غلطی محمد بن قاسم کے حملے وقت راجہ داہر کے خاندان کے بارے میں چچ نامہ میں کی گئی ہے ۔ چچ نامہ میں حکمران خاندان کو برہمن بتایا گیا ہے ۔ مگر اس خاندان کے نام جو چچ نامہ میں ملتے ہیں مثلاً داہر ، چچ اور چندر وغیرہ ملتے ہیں ۔ وہ سب جاٹوں اور بعد کے راجپوتوں کے نام ہیں ۔ کیوں کہ جاٹ اور راجپوت اپنے نام ایسے رکھتے ہیں جو کہ دوسری جاٹ یا راجپوت قوموں کے ناموں پر مشتمل ہوں یا اس میں برتری دیکھائی جاتی ہے ۔ جب کہ اس کے مقابلہ میں برہمن ایسے نام رکھتے ہیں جس میں عاجزہی دیکھائی جاتی ہے ۔ مثلاً چندر داس وغیرہ مگر چچ کو مذہبی پیشوا یا پجاری بتایا گیا ہے ۔ ایک بات کا خیال رہے اس زمانے میں یہاں بدھ مت چھایا ہوا تھا ۔ دوسری بات یہ ہے جاٹوں کے مذہبی پیشوا خود ان کے قبیلوں سے ہوتے ہیں ناکہ برہمن ۔ اس لیے ان کو برہمن کہنا لاعلمی پر مبنی تھا ۔ اس بنیادی کہ وجہ سندھ کے بارے میں معلومات کا فقدان تھا اور یہ کتاب ڈیڑھ سو سال بعد لکھی گئی اور مقامی روایات درج کی گئیں ۔ بعد کے مورخین نے ان کی پیروی کی اور انہیں برہمن کہتے رہے ہیں ۔
راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں بہت سے خاندان سندھ کے مقامی خاندان مثلاً داہڑی وغیرہ شامل ہیں ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ راجپوتوں کا دور ساتویں صدی سے بارویں صدی عیسویں کہلاتا ہے اور اس دور میں اس علاقہ پر عربوں کی حکومت تھی اور انہوں نے راجپوتوں کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ یہ غالباً قدیم خاندان تھے جنہیں بعد میں راجپوتوں میں شامل کرلیا گیا ہے ۔
تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری