سکردو کے مقام پر وادی سندھ ایک عجیب اور نرلا منظر پیش کرتی ہے ۔ یہ وادی ایک بہت بڑے بیضوی پیالے کی مانند ہے جو کہ سطح سمندر سے ساڑھے سات ہزار فٹ بلند بیس میل لمبی اور آٹھ میل چوڑی ہے ۔ اس کے چاروں طرف ارغونی ، سرخ ، بھورے اور بادامی رنگ کے پتھریلے پہاڑ جو سترہ ہزار فٹ بلند ہیں گھیرا دالے ہوئے کھڑے ہیں ۔ وادی میں پیلے رنگ کی ریت بچھی ہوئی ہے ۔ جس میں سردیوں میں سبز اور گرمیوں میں دھندلائی ہوئی چاندی جیسا مٹیالے رنگ کا دریا سندھ کسی سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا ست خرامی کے ساتھ ہوا کی وجہ سے لہروں کی صورت میں بکھری ہوئی ریت میں بہتا ہوا دریا اپنے راستے میں کھڑی تنہا اور عظیم چٹان کے پاس گزرتا ہے ۔ جس پر قلعہ سکندر کھڑا ہوا ہے ۔ لاکھوں سالوں سے دریا چٹانوں میں اپنا راستہ بناتے ہوئے اور انہیں کاٹتا ہوا گہرائی میں جاپہنچتا ہے ۔ مختلف بلندیوں پر بہتے ہوئے دریا نے اس نے وادی کے کنارے پر کھڑی چٹانوں میں جو کاٹ جھاٹ کی ہے وہ آج بھی مختلف بلندیوں پر کہیں سے آگے جھکی ہوئی اور کہیں چبوترے کی صورت میں پھیلی ہوئی سطحوں کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ دور پیچھے خشک اور پتھریلے پہاڑ اپنی نوکیلی ابھری ہوئی چوٹیوں کے ساتھ آگے پیچھے قطاریں باندھیں آسمان میں دھنس رہے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ بڑے سے بڑا دریا ان میں سے اپنا راستہ بنا سکتا ہے ۔ ہوا اس قدر صاف و شفاف ہے کہ آنکھیں دھوکا کھاتی ہیں ۔ جو چیز بہت نذدیک دیکھائی دیتی ہے دور بین سے دیکھیں تو بظاہر چند سو گز دور دریا کی دوسری سمت اگی ہوئی جھاڑیاں کم از کم تین میل دور بڑے بڑے درخت نظر آتے ہیں ۔ دوسرے کنارے پر پانی سے کھیلتا ہوا بچہ ، دریا میں کشتی اتارتا جوان آدمی نظر آتا ہے ۔ ہر جگہ ایسے منظر کو پیش کرتی ہے جو نظر کو جکڑ لیتا ہے ۔ دنیا میں کہیں بھی اس قدر بے شمار اور مختلف پہاڑ ایک جگہ پر اکھٹے نظر نہیں آتے ہیں ۔ کہیں اتنی زیادہ پہاڑیاں بدلتے مناظر ، کہیں بھی اس قدر خوبصورت فضا اور شاندار رنگ نظر نہیں آتے ہیں ۔
لیکن صبح سویرے ان میں کوئی رنگ موجود نہیں ہوتا ہے ۔ ریت سفید اور پہاڑ ہموار چاندی جیسے بھورے نظر آتے ہیں ۔ جیسے جیسے سورج بلند ہوتا ہے ریت سفید اور پہاڑ ہموار اور چاندی جیسے بھورے نظر آتے ہیں ۔ ہلکے خاکستری پہاڑوں پر بنفشی پرچھائیاں لہرانے لگتی ہیں اور شمالی ڈھلانوں پر برف کی سفید دھاریاں نظر آنے لگتی ہیں ۔ لیکن دوپہر تک غیر معمولی انداز میں یہ سب غیر حقیقی اور موموہم سا دیکھائی دے رہا ہوتا ہے ۔ جب سورج مغرب کے بلند پہاڑوں کے پیچھے ڈھلنا شروع ہوتا ہے تو منظر میں کچھ ٹھوس پن نظر آتا ہے ۔ بنفشی اور بادامی رنگ کے گہرے سائے اطراف کو رینگنا شروع کردیتے ہیں اور پہاڑوں کی نوکیلی چوٹیاں مونگے کی طرح سرخ ہلکے نیلے ّآسمان کے سامنے خوبصورت منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں ۔ سورج غروب ہونے کا منظر قابل دید ہوتا ہے ۔ آسمان اور پہاڑوں کے رنگ غائب ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی ہوا سے گرمی بھی ختم ہوجاتی ہے ۔ مشرق سے آنے والی ٹھنڈی ہوا پاپولر کے پتوں میں سرسراہٹ کرنے لگتی ہے ۔ پہاڑ سارے کے سارے خاکستری رنگ کے ہوجاتے ہیں ۔ یہ ہلکے خاکستری ، بھورا خاکستری ، نیلگوں خاکستری اور پیلا خاکستری رنگ پہاڑوں پر جھلملا رہے ہوتے ہیں ۔ جن پر کہیں کہیں سفید دھاریاں نظر آرہی ہوتی ہیں ۔ پھر معجزہ رونما ہوتا ہے اچانک مغرب کی طرف کا شفاف نیلا آسمان آدھا سے زیادہ گلابی ہوجاتا ہے اور سیاہ پہاڑ اپنے واضح کناروں کے ساتھ آسمان کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں ۔ مشرق میں ہر چیز دوبارہ زندہ ہوجاتی ہے ۔ آسمان ایک دفعہ نیلا ہوجاتا ہے ۔ پہاڑ دوبار اپنی گہرائی اور بلندی اختیار کرلیتے ہیں اور ان کی تراشی ہوئی ڈھلانیں گرم ، بھوری اور گلابی ہوجاتی ہیں ۔ ان کے قدموں میں سیاہ مائل چاندی کے رنگ کا دریائے سندھ پیلی وسیع ریت میں بل کھاتا بہہ رہا ہوتا ہے ۔ آسمان آہستہ آہستہ سیاہ ہونے لگتا ہے اور پہاڑوں کے رنگ سیاہ ہونے لگے ہیں ۔ لیکن اس وقت بھی دریائے سندھ کے گرد پھیلی ہوئی سفید ریت ستاروں کی طرح جھلملا رہی ہوتی ہے ۔ یہاں رات کا منظر بھی قابل دید ہوتا ہے ۔ اگر دریا کے کنارے کھڑے ہوکر اطراف میں نظر ڈالیں تو گہری تاریخی میں مکانوں کی روشنیاں اس طرح نظر آتی ہیں کہ جیسے ستارے زمین پر اتر آئے ہیں ۔
سکردو کے قلعہ سکندر کے بارے میں مقامی روایت ہے کہ اس کی بنیاد سکندر اعظم نے رکھی تھی ۔ لیکن سکندر اعظم یا یونانیوں کے اس علاقہ آنے کے شواہد نہیں ملے ہیں ۔ جب کشمیریوں نے لداخ کو فتح کیا تو انہوں نے زور آور سنگھ کو سکردو فتح کرنے کا مشورہ دیا ۔ کیوں کہ لداخیوں کی سکردو کے لوگوں سے دشمنی چل رہی تھی ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کی فوج نے اسکردو کو زیر کرکے والی راجہ احمد شاہ کو قید کرلیا تھا ۔ یہاں کا راجہ خود سکندر کے اخلاف بتاتا تھا اور یہاں کے باشندوں کا اسلام سے پہلے مذہب بدھ تھا ۔ یہاں کی چٹانوں پر بدھ کے نقوش اور دوسرے آثار ملتے ہیں ۔ بعد میں یہ لوگ ایرانیوں کے ہاتھوں مسلمان ہوگئے تھے ۔
آزادی سے پہلے یہاں پر ڈوگرا فوج قلعہ میں تعینات تھی اور انہوں نے طاقت کے زور پر مقامی باشندوں پر بھاری ٹیکس لگائے ہوئے تھے ۔ تقسیم ہند کے بعد یہاں کے لوگوں نے ڈوگرا راج کے خلاف بغاوت کردی اور گلگت کی ایک بے قاعدہ فوج کی مدد سے قلعہ سکندر سے اوپر کی بلندیوں کو غبور کرتے ہوئے سکردو پر قبضہ کرلیا اور پاکستان سے انضمام اور مدد کی درخواست کی ۔ پاکستان نے یہ درخواست قبول کرتے ہوئے فضائی راستے سے اسلحہ اور دوسرے ساز و سامان کی ترسیل کا انتظام کیا ۔ اگرچہ اس دوران بھارت نے بلتستان کے مشرقی حصہ پر دوبارہ قبضہ کرلیا اور فائر بندی کی وجہ سے اسے خالی نہیں کرایا جاسکا ۔
گرمیوں میں جب کہ میدانی علاقوں میں شدید گرمی ہوتی ہے تو یہاں کی بنجر ڈھلانوں پر کوئی سایہ نہیں ہوتا ہے اور چٹانیں دھوپ میں بھٹی کی طرح دھک رہی ہوتی ہیں ۔ یہاں پر ایک مغربی سیاح ورک مین نے 204 فارن ہائیٹ کا درجہ حرارت نوٹ کیا تھا ۔ لیکن اس کے باوجود آپ یہاں ہلکے پھلکے ساز و سامان کے ساتھ سفر نہیں کرسکتے ہیں ۔ کیوں کہ دن کی تکلف دہ گرمی رات کو جب سورج غروب ہوجاتا ہے تو کاٹ کھانے والی سردی میں بدل جاتی ہے ۔ ایک اور موقع پر ورک مین نے اکیس ہزار فٹ کی بلندی پر دن میں تھرمامٹر کا 193 فارن ہائیٹ بتارہا تھا مگر رات کا منفی 4 پر ڈگری پر جاپہنچا تھا ۔ یہاں زیادہ تر چیڑ کے درخت ادھر اوھر بکھرے ہوئے ہیں جو سایہ جگہوں پر پانی کی گزر گاہوں کے ساتھ یہ افراط میں نیم استوائی جنگلوں کی مانند گھنے ذخائر کی طرح دیکھائی دیتے ہیں ۔ یہاں بڑی تعدا میں چکور یا رنگین تیتر بھی پائے جاتے تھے ۔ ان کی تعداد اندھا دھند شکار کی وجہ سے اب بہت ہی کم رہ گئی ہے ۔
آزادی سے گلگت بلتستان کے علاقہ میں سکردو کا شہر اتنا معروف نہیں تھا ۔ یہ کوئی شہر نہیں بلکہ قصبہ بھی کہلانے کا مستحق نہ تھا ۔ جس میں قلعے کے باہر بکھرے ہوئے چند مکانات اور ان میں کسی قسم کی سہولت میسر نہیں تھی ۔ اس علاقہ میں گلگت کے بعد استور دوسرا بڑا شہر تھا ۔ لیکن آزادی کے اس کے محل وقوع کی اہمیت کے پیش نظر یہاں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام شروع کئے گئے ۔ جس میں سر فہرست موصلانی نظام کو بہتر کرنے کی کوشش تھی ۔ سکردو سے گلگت تک سڑک دور کی بات ہے درکنار راستہ تک نہیں تھا ۔ اس لیے اسکردو کو گلگت اور ملک کے دوسرے علاقوں سے ملانے کے لیے سڑک کی تعمیر پر تیزی سے کام شروع کیا گیا ۔ اس شہر میں ریسٹ ہاؤس ، ہوٹل ، کشادہ سڑکیں اور بازار ، اسکول ، کالج اور اسپتال وغیرہ تعمیر کئے گئے ۔ یہاں زراعتی ماہرین نے تحقیقات اور مشورے دیئے گئے اور سیر و سیاحت کی حوصلہ آفزائی کی گئی ۔ جس سے یہ شہر کے ٹو اور قراقرم کی چوٹیوں اور مقامات کی ٹریکنگ کے لیے جانے والی کوہ پیماہ اور ٹیمیوں کا سب سے بڑا مرکز بن گیا اور اس شہر نے اپنے اہم محل وقوع کی وجہ سے بڑی تیزی سے ترقی کرلی اور آج یہ قصبہ پھیل کر گلگت بلتستان کے علاقہ کا دوسرا بڑا شہر بن چکا ہے اور یہاں اب ہر طرح بنیادی کی سہولتیں میسر آچکی ہیں ۔ اس علاقہ کو اب اتنی اہمیت حاصل ہوچکی ہے شمالی علاقہ جات کو سرکاری طور پر گلگت بلتستان کا نام دیا گیا ۔
تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری