305

ملتان کے اسمعیلی

ملتان پر عربوں نے پہلی صدی ہجری میں قبضہ کرلیا تھا اور یہ اس وقت تک خلافت کے زیر اثر رہا جب تک مرکزی حکومت مظبوط رہی ۔ مگر خلافت عباسیہ کی کمزوری سے دور دراز کے علاقے خود مختیار ہوگئے ، وہاں ملتان بھی خود مختیار ہوگیا ۔ یہ اگرچہ ابتدا میں منصورہ کے ماتحت رہا ، مگر تیسری صدی ہجری کے وسط میں ملتان سندھ سے علحیدہ ہو کر ایک خود مختیار ریاست بن گیا ۔ یہاں کے مورخوں اور جغرافیہ دانوں کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملتان میں سامہ بن لوی کی حکومت ہے جو قریشی النسل اور سنی ہیں اور عباسی خلفاء کا خطبہ پڑھتے تھے ۔ 
۳۷۵ھ میں بشاری المقدسی ملتان آیا تھا ۔ اس کا بیان ہے کہ ملتان کے لوگ شیعہ ہیں اور اذان میں ’حئی علی خیر العمل‘ کہتے ہیں اور امامت میں دو دفعہ تکبیریں کہتے ہیں ۔ خطبے میں فاطمی خلیفہ کا نام لیا جاتا ہے اور اس کے حکم سے ہی یہاں کے انتظامات ہوتے ہیں اور یہاں سے برابر تحائف ملتان بھیجے جاتے ہیں ۔   
اسمعلیوں کی کئی شاخیں ہیں ۔ ان میں قرامطہ ، دروزیہ اور نزاریہ (باطنیہ یا ملاہدہ) اہم فرقے ہیں ۔ ان میں صرف صدارت کا فرق ہے ، ورنہ عقائد کے لحاظ سے یہ متفق ہیں ۔ چونکہ قرامطہ دولت اسمعیلہ کے آغاز سے پجاس سال پہلے ظاہر ہوئے ، اس لئے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قرامطہ سے اسمعیلی نکلے ہیں ۔ جب کہ باطنیہ ا ملاحدہ پانچویں صدی کے دوسرے نصف حصہ میں ظاہر ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مورخین کو ملتان کے اسمعلیوں کے بارے میں اشباہ ہوا ہے ۔ اس اشباہ کی وجہ سے کسی نے انہیں قرامطہ اور کسی نے ملاحدہ لکھ دیا ہے ۔ اس موقف کی تائید بشاری المقدسی کے بیان سے ہوتی ہے کہ جو کہ بلاالذکر درج کیا گیا ہے اور آگے جا کر مزید تفصیل آئے گی ۔ اس لئے اسمعیلی لکھا گیا ہے ۔ 
اسمعیلیوں کے مطابق امام محمد بن اسمعیل کے بعد کے تین آئمہ عبداللہ ، احمد اور حسین ہوئے ۔ یہ تینوں بہت پوشیدہ زندگی بسر کرتے تھے ۔ ان کے خاص نقیبوں کے سوا کسی کو ان کا پتہ نہ تھا ۔ ان کے اسماء میں بھی اختلاف ہیں ۔ ان کے دور میں سندھ میں اسمعیلی داعیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔ آخری مستور امام الحسین بن احمد بن محمد بن اسمعیل بن جعفر بن صادق نے ابو القاسم بن فرح کو یمن داعی بنا کر بھیجا ۔ اس نے سندھ میں ہثیم کو داعی بنا کر بھیجا ۔ اس طرح سندھ میں ۲۷۰ھ میں اسمعیلی دعوت کی ابتدا ہوگئی تھی ۔ اس بعد بھی داعی یہاں آتے رہے اور انہوں نے مقامی باشندوں کو تبلیغ کے ذریعے اسمعیلی بنا لیا ۔ 
جلم بن شیان 
ملتان میں اسمعیلی حکومت ۳۶۷ ھ تا ۳۷۵ ھ کے درمیان قائم ہوئی تھی ۔اب یہ امر حل طلب ہے کہ یہ وہی بنو سامہ کا خاندان تھا اور سنی سے اسمعیلی ہوگئے تھے یا کوئی اور خاندان تھا ۔ پہلے اسمعیلی حکمران کا نام جلم بن شبان بتایا جاتا ہے یہ کون تھا ؟ یہاں ہم اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
دور ستر کے انیسویں داعی ادریس بن حسن (۸۳۲ھ تا ۸۷۲ھ) کی کتاب ’عیون الاخبار‘ جو کہ اسمعلیوں میں نہایت مستند اور معتبر مانی جاتی ہے روشنی پڑتی ہے ۔ اس کتاب میں درج ہے کہ خلیفہ مغز (۳۴۱ھ تا ۳۶۵ھ) نے ایک داعی علم بن شبان کو دہلی بھیجا تھا۔ اس داعی کے بارے میں روایت ملتی ہے کہ اس نے سیتا پور کے راجہ اور وہاں کے اکثر باشندوں کو تبلغ کے ذریعے مسلمان کرلیا تھا ۔ (یہ علم بن شبان غالباً نقل کی غلطی ہے کیوں کہ بعد کی کتاب ’موسم بہار‘ میں یہ نام جلہ بن شبان ملتا ہے ۔
ملتان کا حکمران جلم بن شبان یہی داعی جلہ بن شبان معلوم ہوتا ہے ۔ مگر سیتا پور کے بارے میں جو روایت درج کی گئی ہے وہ درست نہیں معلوم نہیں ہوتی ہے ۔ کیوں کہ اسمعیلیوں کے مقاصد سیاسی ہوا کرتے تھے ۔ اس لئے اسمعیلی داعی صرف مسلمانوں میں تبلیغ کرتے تھے ۔ مغز کی وفات ۳۶۵ھ میں ہوئی تھی ۔ گویا یہ اس سے پہلے آیا ہوگا ۔ کیوں کہ اس کی آمد کی تاریخ نہیں ملتی ہے ۔ گویا یہ تقریباً بیس سال پہلے آیا ہوگا اور اس نے اس عرسہ میں وہاں کے لوگوں کو تبلیغ کے ذریعے اسمعیلی بنالیا ہوگا اور مقامی طور پر بغاوت کرکے بنو سامہ کو برطرف کرکے جلم بن شبان نے اقتدار سنھال لیا ہوگا ۔ 
جلم بن شبعان نے ملتان پر قبضہ کرکے اس نے فاطمی سکہ و خطبہ جاری کیا ۔ اسے آس پاس کی اسلامی حکومتوں سے تعاون کی امید نہیں تھی ، اس لئے اس نے ہندو راجاؤں سے محاہدے کرکے اپنی سلطنت کو مظبوط بنایا ۔ جلم بن شبان نے ملتان پر کب تک حکومت کی اس کی صراحیت نہیں ملتی ہے تاہم وہ ۳۷۶ھ کے بعد بھی زندہ رہا ہوگا ۔  
جلم بن شبان کے بعد ملتان کے اسمعیلی حکمران کا نام شیخ حمید ملتا ہے ۔ یہ امیر ناصرالدین سبکتگین کا ہم عصر تھا ۔ امیر سبکتگین ۳۶۶ھ میں تخت نشین ہوا تھا ۔ اس طرح جلم بن شبان اور شیخ حمید دونوں شیخ حمید دونوں کا ہم عصر ہوگا ۔ عام طور پر گمان کیا جاتا ہے کہ اسمعیلیوں میں باپ کا جانشین بیٹا ہوتا ہے ۔ ایسا ہرگز نہیں ہوتا ہے اور یہ صرف امامت کے لیے ضروری ہوتا ہے اور جب امام ظاہر ہو تو اس وقت داعی کو اپنا جانشین بنا نے کے لئے اجازت لینی پڑتی ہے ۔ اس کے لیے بیٹے کی شرط نہیں ہے اور لیکن جب امام مستور ہو تو اس وقت داعی امام کے الہام کی مدد سے اپنا جانشین مقرر کرتا ہے ، اسے داعی مطلق کہتے ہیں ۔     ایسا اس وقت ہوتا ہے کہ جب امام مستور ہو یا امام سے رابطہ ٹوٹا ہو ۔ داعیوں میں برخلاف اماموں کے باپ کے بیٹے ہی قائم مقام ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی کسی خاندانی خصوصیات اور ملکی خصودیت کا لحاظ کیا جاتا ہے ۔ اس لیے شیخ حمیدجلم بن شبان کا بیٹا نہیں ہوگا ۔
اسمعیلی جن امور کی شدد سے پابندی کرتے ہیں ان میں وہ تبلغ کے لئے کم از کم دو داعیوں کو ہمیشہ بھیجا کرتے تھے ۔ تاکہ ایک کوئی ناگہانی مصیبت میں گرفتار ہوجائے یا انتقال کرجائے ۔ تو دوسرا داعی اس کی نیابت کے لئے موجود رہے ۔ اس طرح تعین کیا جاسکتا ہے کہ شیخ حمید جلم بن شبان کا بیٹا نہیں تھا ، بلکہ اس کا ساتھی داعی ہو گا اور جلم بن شبان کے ساتھ ملتان آیا ہوگا ۔ گو اس کے بارے میں تاریخ سے کوئی صراحیت نہیں ملتی ہے کہ شیخ حمید کون تھا ؟ لیکن حمید کے ساتھ شیخ کا لائقہ لگا ہوا ہے اور اسمعیلی داعیوں کو شیخ کے لائقہ سے پکارتے تھے ۔  اس لئے یقینا وہ جلم بن شبان کا نائب اور اس کے ساتھ آیا ہوگا اور اس کی وفات کے بعد شیخ حمید ملتان کا حاکم بن گیا ہوگا ۔ اس لیے ان اسمعیلی حکمرانوں کے ساتھ شیخ کا لائقہ سے مورخین کا گمان ہے کہ یہ سب ایک ہی خاندان سے ہیں ۔ اگرچہ اس میں حقیقت نہیں ہے ۔ مولانا سلیمان ندوی نے جو خط فاطمی خلیفہ حاکم بااللہ کا خط جو سومر راجہ کے نام تھا پیش کیا اس میں بھی راجہ کو شیخ کے سے پکارا گیا ہے ۔ 
سلطان سبکتگین نے ۱۸۔۳۸۲ھ میں ملتان پر حملہ کیا تھا ۔ وہ یقیناً ملتان کا حکمران تھا ۔ کیوں کہ شیخ حمید نے خراج دینا منظور کرلیا ۔  
سلطان محمود غزنوی نے جب ہندو راجاؤں کے خلاف فوج کشی کی تو داؤد بن نصر اس وقت ملتان کا حکمران تھا ۔ داؤد نے ہند راجاؤں کا ساتھ دیا ۔ خاص کر جب محمود نے راجہ بھاٹیہ کے خلاف فوج کشی کی تو ملتان کے اسمعیلیوں نے راجہ بجے رائے کی مدد کی تھی ۔ اس لئے سلطان محمود نے اگلہ حملہ ملتان پر کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ چنانچہ وہ ۳۹۶ھ میں درہ بولان کا قریبی راستہ چھوڑ کر درہ خیبر کے راستے سے اس لئے روانہ ہوا کہ داؤد کو علم نہ ہو کہ وہ ملتان پر جملہ آور ہورہا ہے ۔ راستے میں راجہ انند پال نے محمود نے راستہ روکنے کی کوشش کی ۔ حلانکہ سلطان محمود غزنوی نے پہلے ہی اسے خبر دے دی تھی کہ وہ ملتان پر حملہ آور ہو رہا ہے ۔ پشاور کے مقام پر آنند پال نے سلطان محمود غزنوی کا راستہ روکنے کی مگر شکست کھائی اور کی طرف پیچھے ہٹ گیا ۔ ادھر داؤد کو بھی خبر ہوچکی تھی ، اس لئے وہ سلطان محمود کی آمد کا سن کر قلعہ بند ہوگیا ۔ سلطان محمود نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا اور یہ محاصرہ سات روز تک جاری رہا ۔ آخر داؤد سلطان کی خدمت میں عاجزانہ صلح کی درخواست کی ۔ سلطان محمود نے دو لاکھ درہم سالانہ خراج پر اور دریائے سندھ سے متصل علاقہ سلطان کو دے کر صلح کرلی ۔ جب کہ دائود نے اسماعیلت چھودی تھی اس کو شیخ نہیں کہا گیا ہے ۔
۳۹۹ھ میں آنند پال نے ہندستان کے راجاؤں کا ایک وفاق سلطان محمود سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار کیا ۔ اس میں ملتان کے حاکم داؤد نے بھی شرکت کی ۔ اس متحدہ لشکر کو محمود نے شکست دی ۔ محمود غزنوی کو داؤد کی اس حرکت پر بڑا طیش آیا ۔ چنانچہ سلطان نحمود غزنوی نے ۴۰۱ھ میں پوری تیاریوں کے ساتھ اچانک ملتان پر سخت حملہ کیا اور ملتان کو فتح کرکے داؤد کو غور کے قلعہ میں نظر بند کردیا ۔ اس طرح ملتان کی اسمعیلی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ۔ 
مولاناسید سلیمان ندوی نے دروزیوں کی مقدس کتاب میں فاطمی خلیفہ حاکم باللہ کا ایک خط پیش کیا ہے ۔ جو کہ ملتان اور ہندوستان اور کے محدوں اور سومرہ راجہ کے لکھا گیا تھا ۔
خط کا متن یہ َ ملتان اور ہندوستان کے اہل توحید کے نام عموماً اور سیخ ابن سومر راجہ بل کے نام خصوصاً ۔
 اے معزز رجہ اپنے خاندان کو اٹھا ۔ موحدین داؤد اصغر کو اپنے سچے دین میں واپس لاکہ مسعود نے جو ایسے حال میں قید اور غلامی سے آزاد کیا ہے ۔ وہ اس وجہ سے کہ تو اس فرض کو انجام دے سکے ۔ جو تجھ کو اس کے بھانجہ عبداللہ اور ملتان کے تمام باشندوں کے برخلاف انجام دینے کے لئے مقرر کیا گیا ہے تاکہ تقدس اور توحید کے مانے والے جہالت ، ضد اور سرکش اور بغاوت کرنے والی جماعت سے ممتاز ہوجائیں ۔  
اس خط سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسمعیلی عقائد ترک کرچکے تھے ، اس لئے مسعود غزنوی نے انہیں چھوڑ دیا تھا ۔ اس خط کے ذریعے سومر راجہ کو کہا گیا تھا کہ ان لوگوں کو دوبارہ اسمعیلی عقائد اختیار کرنے کی ترغیب دے اور انہیں دوبارہ اسمعیلی جماعت میں لانے کی کوشش کرے ۔ 

تہذیب و تدوین
عبدلمعین انصاری

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں