میر شیر علی قانع ٹھٹھوی نے اپنی کتاب تحفہ الکرام میں لکھا کہ حیدر آباد نیرون کوٹ کی قدیم بستی کی جگہ آباد ہوا تھا ۔ محب اللہ بھکری نے بھی لکھا ہے کہ حیدرآباد نیرون کوٹ کے نام سے مشہور تھا اور مغلوں کی تسخیر کے بعد یہ شہر حیدرآباد مشہور ہوا ۔ حیدر علی ارغون نے اس جگہ ایک گائوں اپنے نام سے بسایا تھا ۔ 1755ء میں میاں محمد مراد یاب سندھ کا حاکم بنا تو اس نے نصر پور کے قریب ایک شہر مراد آباد کے نام سے بسایا تھا ۔ جو ان کا دالحکومت تھا ۔ مگر یہ صرف دو سال کے بعد ہی دریا میں غرق ہوگیا ۔ 1768ء کلہوڑا حکمران میاں مرادیاب نے گنجو ٹکری پر اپنا نیا دارلحکومت حیدرآباد کو چنا اور اس شہر کو آباد کیا ۔
ڈاکٹر عمر داؤد پوٹا کا خیال ہے کہ موجودہ حیدرآباد قدیم راوڑ کے مقام پر آباد ہے اور ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کا خیال ہے کہ حیدرآباد قدیم نیرون کوٹ کے مقام پر آباد تھا ۔ مگر اس کا کیا جائے اس کی تائید چچ نامہ سے نہیں ہوتی ہے ۔کیوں کہ چچ نامہ میں دیبل سے نیرون کوٹ کا فاصلہ پچیس فرسنگ آیا ہے یعنی پچتر میل ۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے تقلیمات چچ نامہ میں لکھا ہے کہ یہاں یا تو عبارت میں خلل آگیا ہے یا اس وقت فرسنگ کا اطلاق ڈیڑھ میل پر ہوتا تھا ۔ لیکن ہم اس کو مان بھی لیں تو تب بھی نیرون کوٹ سے موج کا فاصلہ تیس فرسنگ کس طرح مانیں ۔ پھر محمد بن قاسم نقل و حرکت کی جو جغرافیائی تفصیل ملتی ہے اس سے بھی اس کی تصدیق نہیں ہوتی ہے ۔ لہذا اس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے ۔
بالاالذکر آپ پڑھ چکے ہیں کہ میر شیر علی قانع ٹھٹھوی نے حیدر آباد کو قدیم نیرون کا محل کوٹ بتایا ہے اور شمس العماء ڈاکٹر عمر داؤد پوتا نے راوڑ ۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ میر شیر علی قانع ٹھٹھوی کہنا درست ہے یا شمس العماء ڈاکٹر عمر داؤد پوتا ۔ ہمیں اس کے لیے محمد قاسم کی جغرافیائی نقل و حرکت تفصیلی بحث کی ضرورت ہے ۔ تب ہی ہم اس کے لیے کسی حتمی رائے پر پہنچ سکیں گے ۔ کہ نیرون کوٹ کہاں واقع تھا ۔
صاحب فتح نامہ نے لکھا کہ دیبل کی فتح اور انتظامات سے فارغ ہوکر محمد بن قاسم نیرون کوٹ کی جانب روانہ ہوا ۔ جو کہ دیبل سے پچیس فرسنگ تھا ۔ ساتویں دن نیرون کوٹ کے سامنے برودی جسے بلہار بھی کہتے ہیں منزل انداز ہوا ۔ گرمی کا موسم تھا دریا میں ابھی پانی آیا نہیں تھا اور پانی کی شدید کمی کی وجہ سے لشکر کو پانی کی شدید تکلیف تھی ۔ پانی کی تکلیف دیکھ کر محمد بن قاسم نے نماز استقاء ادا کرنے کا حکم صادر فرمایا ۔ سب نے مل کر نماز استقاء ادا کی ۔ اللہ نے اس کی دعائیں قبول کیں اور خوب بارش ہوئی اور ہر طرف جل تھل ایک ہوگیا ۔ نیرن کوٹ کے حکمران ایک شمنی (بدھ) تھا جو باہر گیا ہوا تھا ۔ وہ واپس آیا تو اس نے آکر قلعہ کے دروازے کھلوادیئے اور نیرون کوٹ بغیر کسی جنگ کے فتح ہوگیا ۔ محمد قاسم نے وہاں ایک مسجد تعمیر کرائی اور وہاں کے انتظامات سے فارغ ہوکر اس نے سیوستان کو فتح کرنے کا ارادے سے سیوستان روانہ ہوگیا ۔
نیرون کوٹ سے محمد بن قاسم موج پہنچے جو نیرون کوٹ سے تیس فرسنگ کے فاصلے پر تھا ۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کا کہنا کہ لغت کے اعتبار سے موج کے معنی نہر یا تیز بہتے ہوئے پانی کے ہیں ۔ اس سے گمان ہوتا ہے کہ اسلامی لشکر کسی برساتی ندی کے قریب پہنچا تھا ۔ نیرون کوٹ میں محمد بن قاسم نے بارش کے لیے نماز استقاء ادا تھی ۔ اس سے گمان ہوتا ہے کہ بارش کا موسم شروع ہوچکا تھا ۔ اس موج کے مقام پر ہی ثمنی (بدھ) راہب آئے اور صلح کا عہد نامہ کیا ۔ بلازری کا بیان ہے کہ محمد بن قاسم مہران کے اسی طرف ایک نہر کو غبور کیا ۔ جہاں سر پیدس کے ثمنی اس کے پاس آئے اور اس سے صلح کا عہد نامہ کیا ۔ یعقوبی کا بیان ہے کہ محمد بن قاسم نے مہران کے اس طرف ایک نہر کو غبور کیا اور وہاں سے سیوستان روانہ ہوا ۔ بلازری اور یعقوبی کے ان حوالوں اور چچ نامہ کی عبارت میں پوری طرح مطابقت رکھتے ہے ہیں ۔ اس طرح ان دو مورخوں کے بیان ہے کہ وہ مہران (دریائے سندھ) کے اس طرف کے معنی یہ ہیں کہ یہ نہر مہران کے مغرب میں تھی ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا نالہ تھا جسے محمد بن قاسم نے سیوستان جاتے ہوئے پار کیا تھا ۔ بلازری کے قول کے مطابق نہر غبور کرنے کے بعد سرییدس کے ثمنی ملنے آئے تھے ۔ اس کا مطلب ہے ثمنوں کی بستی نہر کے پار کہیں تھی ۔ سن ندی کے مغرب میں قدیمی ٹیلے اور کھنڈرات ملتے ہیں ۔ اس مقام پر لکی بھی بہت پرانا مقام ہے ۔ جو اپنے قریب کے پہاڑوں اور پانی کے چشمہ کی بدولت بدھ مذہب کے راہبوں کے رہنے کے لیے ایک موزں مقام ہوسکتا ہے ۔ غالباً یہ ثمنی وہیں رہتے ہوں گے اور وہیں سے سیوستان کے حاکم بجھیرا کو پیغامات بھیج کر صلح کے لیے آمادہ کرتے ہوں گے ۔ اس معنی ہیں وہ سیوستان سے زیادہ دور نہیں ہوں گے ۔ اس لیے کہ لکی سیوستان سے زیادہ دور نہیں ہے ۔
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کا کہنا ہے کہ نیرون کوٹ (موجودہ حیدرآباد) کا فاصلہ تیس فرسنگ لکھا ہے ۔ جو کہ حیدرآباد اور سیوہن کا درمیانی فاصلہ ہے ۔ جس وقت چچ نامہ لکھا گیا تھا اس وقت فرسنگ ڈیرھ میل ہوگا ، کیوں کہ حیدرآباد سے سن ندی ۴۵ میل ہے یا یہاں عبارت میں خلل آگیا ہے ۔ سی فرسنگ کہ تہت دمہ فرسنگ (تیئس فرسنگ) ہے ۔ جو کہ قریب قریب حیدرآباد اور لکی کے درمیانی فاصلے کے ہیں ۔ یہ ساری بحث ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے تعلقات چچ نامہ میں کی ہے ۔
مگر ہم اس کو تئیں فرسنگ مان لیں گے تو دیبل سے فاصلہ تیس فرسنگ لکھا ہے اس کو کتنا فرسنگ مانیں گے اور فرسنگ کا اطلاق ڈیڑھ میل پر کریں توکیا نیرون کوٹ موجودہ ٹھٹھ پر تھا ۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی دونوں صورتوں میں دیبل ، نیرون کوٹ اور سن ندی اپنے اپنے مقام پر نہیں بیٹھتے ہیں ۔ دوسری طرف ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی وضاحت اور بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ محمد بن قاسم نے دریائے سندھ کو پار ہی نہیں کیا تھا ۔ اس سے یہ نتیجہ بآسانی اخذ ہوتا ہے کہ نیرون کوٹ موجود حیدر آباد کے مقام پر آباد ہی نہیں تھا ۔ کیوں کہ محمد بن قاسم نے اس مہم یعنی دیبل سے لے کر سیوستان تک دریا کو پار ہی نہیں کیا تھا اور سیوستان کے بعد محمد بن قاسم نے سیسم پہنچا ۔ وہاں اسے حجاج کا خط ملا ، جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ آگے بڑھنے کا خیال چھوڑ کر واپس نیرون کوٹ لوٹ جائے اور دریائے سندھ غبور کرکے داہر سے مقابلہ کرے ۔ حجاج کے اس جملے کا مطلب یہی ہے کہ نیرون کوٹ دریا کے مغرب میں آباد تھا ۔ جو کہ دیبل سے پچیس فرسنگ یعنی پچتر میل کے فاصلے پر آباد تھا ۔ ہم دیبل (موجودہ بھمبور) سے انڈس ہائی وے پر سفر کریں تو مکلی اور ٹھٹھ کے بعد ہم قدیمی آثار سونڈا کے مقام پر ملتے ہیں ۔ یہاں پتھروں کی قدیم خوشنما قبریں ملیں گی ۔ یہی وہ مقام ہے جو دیبل سے پچیس فرسنگ کے فاصلے پر ہے ۔ یہاں کے قدیم آثار کی تحقیق کریں اور یہاں کھدائی کروائیں تو یقناً اس کی شہادت مہیا ہوسکتی ہے کہ یہاں قدیم نیرون کوٹ آباد تھا ۔ کیوں کہ یہ مقام بھی ایک ٹیلے پر واقع ہے ۔ یہ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے ایک اہم مقام ہے اور میر شیر علی قانع ٹھٹھوی لکھتا ہے یہاں ایک قلعہ ہوا کرتا تھا ۔
ہم اس مقام سے سیوستان کی جانب چلیں تو ہمیں سن ندی ملے گی ، جس کا فاصلہ یہاں سے تقریباً تیس فرسنگ یعنی ۹۰ میل بنتا ہے ۔ اس کی تائید ہمیں محمد بن قاسم کی نیرون کوٹ سے راوڑ پر قبصہ کے لیے سرگرمی سے ہوتی ہے مزید اصطخری کا یہ کہنا ہے کہ منصورہ سے نیرون کوٹ سے چار دن مسافت پر تھا ۔ یہی وجہ ہے رواٹی نے اعتراض کیا کہ حیدرآبا دو دن کی مسافت پر ہے اور اسی بنا پر راوٹی نے حیدر آباد کو نیرون کوٹ کے خرابہ پر آباد ہونے پر اعتراض کیا ہے ۔
چچ نامہ میں ہے حجاج کا خط ملتے ہی محمد بن قاسم نے داہر سے جنگ کا پختہ ارادہ کرلیا اور دریائے سندھ غبور کرنے کی تجویزیں سوچنے لگا ۔ محمد بن قاسم نیرون کوٹ سے چل کر ایک منزل پر خیمہ انداز ہوئے تھے کہ ثمنی راسل کے بزرگوں اور قوم بھٹی کے کچھ سربراہوں نے حاضر ہوئے اور امان طلب کی ۔ محمد بن قاسم نے حجاج اور اقرار مستحکم لے کر قلعہ اشبہار کی جانب روانہ ہوئے ، قلعہ اشبہار کے لوگوں نے کافی جنگی تیاریاں کر رکھیں تھیں اور فصیل کے چاروں طرف خندق کھدی ہوئی تھی ۔ مگر جلد ہی اہل قلعہ کو اندازہ ہوگیا کہ وہ مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں ، اس لیے انہوں نے سالانہ خراج پر صلح کر لی ۔
قلعہ اشبہار کے بارے میں ڈاکٹر بنی بخش بلوچ کا کہنا ہے کہ اشبہار کے آخر میں بہار لفظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس قلعہ کے قریب بدھ دہرم کا کوئی مندر تھا ، ٹنڈو محمد خان کے قریب بودھ جا ٹکہ (بدھ کی پہاڑیاں) کے قدیم آثار ہیںٍ ۔ اس سے یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ قلعہ بھی یہیں کہیں واقع ہوگا ۔
ہمیں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی اس بات سے اختلاف نہیں ہے کہ یہ قلعہ کسی بدھ مندر کے قریب واقع ہوگا ۔ کیوں کہ قدیم زمانے میں اس علاقہ میں بدھ مذہب چھایا ہوا تھا اور یہاں کثرث سے یہاں دہار اور اسٹوپے تھے ، مگر اس کا محل وقوع جو ڈاکٹر صاحب نے دیا ہے درست معلوم نہیں ہوتا ہے ۔ کیوں کہ ایسی صورت میں یہ علاقہ دریا کے مشرق میں ہوتا اور محمد بن قاسم نے دریا پار نہیں کیا تھا ۔ اگر اشبہار نیرون کوٹ سے زیادہ دور نہیں تھا اور دو منزل کے فاصلے پر تھا تو یہ موجودہ ہوسڑی اور جھرک کے درمیان ہوگا ۔ کیوں کہ یہاں محمد بن قاسم چند دن ٹہر کر راوڑ کی حدود میں داخل ہوا اور کہ دریائے سندھ مشرقی کنارے پر واقع تھا ۔
چچ نامہ میں ہے کہ چندر کے مرنے کے بعد سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ اڑور میں چچ کا بیٹا داہر تخت نشین ہوا اور برہمن آباد میں چندر کا بیٹا راج راجہ بنا ۔ اتفاق سے ایک سال کے بعد راج مرگیا اس کی جگہ داہر کا چھوٹا بھائی دھر سینہ بن چچ نے تخت پر قبضہ کرلیا ۔ دھر سینہ نے اگھم کی بیٹی سے شادی کی اور پانچ سال تک وہاں رہا ۔ اس کے بعد کچھ عرصہ راوڑ کے قلعے میں رہا ۔ اس قلعے کی بنیاد چچ نے رکھی تھی ۔ مگر یہ قلعہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ چچ نے وفات پائی ۔ دھر سینہ نے اس قلعے کی تعمیر مکمل کرکے آس پاس کے دیہاتیوں کو بلایا اور ان میں اچھے اچھے لوگوں کو اس قلعے میں آباد کرکے اس کا نام راوڑ رکھا ، پھر خود برہمن آباد چلاگیا اور سلطنت کے کاروبار میں مصروف ہوگیا ۔
ڈاکٹر نبی بلوچ کا کہنا ہے کہ راوڑ نشیب میں مہران (دریائے سندھ) کے ڈیلٹا پر مظبوط قلعہ تھا ۔ ان کا مزیذ کہنا ہے کہ قلعہ راوڑ کا صحیح مقام کا تعین کرنا مشکل ہے ، لیکن چچ نامہ کی دی ہوئی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ راوڑ لاڑ (نشیبی سندھ) میں مہران (دریائے سندھ) کے مدخل واقلی اراضی پر واقع تھا ۔ ان کا قیاس یہ ہے کہ راوڑ کا قلعہ لاڑ میں موجودہ ضلع ٹھٹھہ کے شابندر سب ڈویزن اور حیدرآباد ضلع کے ٹنڈو سب ڈویزن کی حدود میں کسی جگہ واقع تھا ۔ ان کی رائے میں نام کی مناسبت سے شاہ بندر سب ڈویزن میں قدیمی شہر رڑی کے کھنڈرات شاید راوڑ کے قدیمی قلعے اور شہر کے ہیں ۔
کزنس کا یہ گمان ہے کہ راوڑ کا قلعہ اروڑ سے 20 یا 25 میل مغرب یا جنوب مغرب میں شہر کنگری سے کچھ نشیب میں واقع تھا ۔
میجر راوٹی کا اندازہ ہے برہمن آباد کے مغرب میں تقریباً دس میل کے فاصلے پر واقع تھا ۔
ہوڑی والا کی رائے ہے کہ راوڑ نیرون کوٹ اور برہمن آباد کے درمیان واقع تھا ۔
ڈاکٹر عمر داؤد پوٹا کی رائے میں راوڑ حیدر آباد کی جگہ واقع تھا ۔
بالاالذ کر بیانات میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اور کزنس کے قیاسات حقیقت بعید ہیں اور ان کی تصدیق چچ نامہ سے نہیں ہوتی ہے ۔ البتہ میجر ہوڈی والا اور راوٹی کے کے قیاسات کی تصدیق بہت حد تک چچ نامہ اور محمد بن قاسم کی نقل و حرکت کے بیانات سے ہوتی ہے اور ڈاکٹر عمر ڈاؤد پوٹا کا قیاس درست ہے ، کیوں کہ محمد بن قاسم کی نقل و حرکت اس کی تصدیق کرتی ہے ۔ جو کہ ہم آگے بیش کریں گے ۔
دریائے سندھ کا مغربی کنارہ جو اروڑ کے مد مقابل اور دریا کے پار تھا ، غالباً اروڑ کی حدود میں شامل نہیں تھا ۔ شاید اسے اروڑ کے مد مقابل ہونے کی وجہ سے اسے استعمال کیا گیا ہے ۔ محمد بن قاسم یہاں دریا غبور کرنے کی فکر میں تھا ۔ یہ مقام غالباً موجودہ کوٹری یا اس کے قرب و جوار کا علاقہ ہوگا ۔
داہر کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس کے حاکم ایک ایک کرکے محمد بن قاسم سے ملتے جارہے ہیں تو اسے بڑا غصہ آیا ، اس نے ایک لشکر جرار مسلمانوں کے مقابلے کے لیے بھیجا جو درہائے سندھ غبور کرکے مسلمانوں کے مد مقابل ہوا ۔ مسلمانوں نے اس لشکر کا دلیری سے مقابلہ کیا اور اس کے دانت کھٹے کر دیئے ۔ یہاں تک کہ لشکر داہر کا لشکر شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوا ۔
محمد بن قاسم نے سفارت کے ذریعہ کوشش کی کہ اسے دریا پار کرنے کی جگہ مل جائے ، مگر داہر نے یہ منظور نہیں کیا ۔ اب داہر اور محمد بن قاسم کے درمیان دریائے سندھ رواں دواں تھا ۔ ایک دن داہر اسلامی لشکر کا معنی کرنے کے لیے دریا کے کنارے پہنچا ۔ ایک شامی نے اسے دیکھ کر گھوڑا دریا میں ڈال دیا کہ قریب ہوکر راجہ داہر پر تیر برسائے ۔ مگر گھوڑا پانی کو دیکھ کر بھرکنے لگا اور پانی میں نہیں اترا ۔ راجہ داہر نے یہ دیکھ کر ایک تیر ایسا تاک کے مارا کے اس شامی کی شہادت ہوگئی ۔
داہر نے واپس جاتے ہوئے جاہین کو حکم دیا کہ قلعہ بیٹ کے سامنے جو گھاٹ ہے اس پر پہرہ رکھے ، تاکہ عرب وہاں سے دریا پار نہیں کرسکیں اور اس کا خیال رکھے کہ عرب ایسی جگہ سے گزریں جہاں دلدل اور پانی گہرا ہو ۔ اس کے علاوہ کشتاں بھی تیار رکھی جائیں ، تاکہ عرب دریا پار کرنے کی کوشش کریں تو ان کی مزاحمت کی جا سکے اس حکم کے بعد ڈٹ گیا ۔
اسی دوران بعض سواروں نے جو سیوستان کے قلعہ میں متعین تھے ۔ بتایا کہ چندر رام جو سیستان کا حاکم تھا ، کچھ ٹھاکروں کو ورغلا کر سیوستان کے قلعہ پر قبضہ کرلیا اور عرب سپاہیوں کو نکال باہر کیا ۔ محمد بن قاسم نے محمد بن متعصب کو ایک ہزار سوار اور دو ہزر پیادوں کے ساتھ فوراً سیوستان بھیجا ۔ محمد بن متعصب سیوستان پہنچا تو چند رام نے مقابلہ نے قلعے سے نکل کر عربوں کا مقابلہ کیا ، لیکن شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوا اور قلعے میں واپس جانا چاہا تو قلعہ میں موجود لوگوں نے قلعے کا دروازہ بند کرلیا اور اسے اندار آنے نہیں دیا ۔ آخر چندر رام مجبور ہوکر شہم کی طرف چلاگیا ۔
محمد متعصب دوسرے روز قلعہ میں داخل ہوا اور قلعہ میں موجود لوگوں نے معذرتیں کیں کہ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے ، بلکہ چندر رام زبر دستی قلعہ پر قابض ہوگیا تھا ۔ محمد متعصب نے وہاں قابل اعتماد لوگوں کو مقرر کرکے ثمنوں اور تاجروں سے مناسب ضمانتیں لے کر چار ہزار جنگجو سپاہیوں کے ساتھ محمد بن قاسم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس میں دن موکو بن وسایو بھی تھا ۔
چچ نامہ کی روایت ہے کہ محمد بن قاسم نے راوڑ کو فتح کرنے سے پہلے جھم اور کرہل کے قلعے فتح کیے ۔ مگر میرا خیال ہے کہ ان قلعوں کو محمد بن قاسم نے نیرون کوٹ یا سیستان جانے پہلے انہیں فتح کرچکا ہوگا ۔ کیوں کہ یہ قلعے جھم پیر اور ٹھٹہ کے نشیبی علاقوں میں واقع تھے ۔ اس طرح یہ قلعے دیبل ، نیرون کوٹ کے استحکام اور سیستان کے مہم میں رکاوٹ پیدا کرسکتے تھے اور ان کا دشمنوں کے ہاتھ میں رہنا فوجی حکمت عملی کے لحاظ تھا ۔ لہذا انہیں دیبل کی فتح کے بعد فتح کرلیا ہوگا اور ان قلعوں کو جو دریا کی مغری سمت پر تھے چھوڑ دینا جنگی حکمت عملی کے خلاف تھا ۔ جیسا کہ محمد بن قاسم جب رواڑ کی مہم میں مصروف تھا تو سیستان میں بغاوت پھوٹ پڑی تھی اور اس بغاوت کو کچلنے کے لیے عربوں کا ایک دستہ روانہ کیا گیا ۔ جس کے انتظار میں اراوڑ کی مہم اس دستہ کی واپسی تک موخر کردی گئی تھی ۔
محمد بن قاسم نے نیرون کوٹ حجاج کو خط لکھا کہ امیر کبیر کو کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ داہر کے گورنروں میں ایک گورنر مہران کے مشرق کی جو وادی میں جو کہ ’کزشہا‘ کچھ کے سمندر کا جزیرہ ہے قلعہ بیٹ کا والی ہے جسے بسامی بن راسل (وسایو بن سر بند) کہتے ہیں ۔ اس کا بیٹا ہمارا خیر خواہ ہے اور ہم التجائیں کیں کہ ہم اس سے عہد نامہ مستحکم کریں ۔
ڈاکٹر بنی بخش بلوچ کا کہنا ہے کہ چچ نامہ فارسی اصل عبادت ہے کہ ’’دربر جزیرہ بحر کنبا است‘‘ لیکن بعض قدیم نسخوں میں ’کبہا اور کشتھا‘ ہے اس تلفظ کی بنیاد پر ہم نے کشتہا کو ترجیع دی ہے ۔ کیوں کہ چچ نامہ سے آگے چل کر اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ قلعہ مہران کے دو آبے یا ڈیلٹا پر واقع تھا ۔ محمد بن قاسم یقناً اس دو آبہ کا ذکر کر رہے ہیں ۔ جو کہ مہران کے مدخل کے قریب اس کی دو شاخوں کے درمیان تھا ، جو دونوں غالباً جنوب کی جانب ’سیر اور رین‘ اور مغربی پران کے قدیمی پیٹوں کے آس پاس علاقہ ’کچھ‘ کے سامنے گرتے تھے ۔ اس لحاظ سے مہران کا نشیبی دو آبہ گویا ’کچھ‘’ کے سامنے گرتے تھے ۔ اس لحاط سے مہران کا نشیبی دو آبہ گویا کچھ کے سمندر کا ایک جزیرہ تھا ۔ اسی لحاظ سے کشہا کو ترجیع دی گئی ہے ، جس کے معنی کچھ کے ہیں جو کہ بالکل قرین قیاس ہے ۔
بالاالذکر محمد بن قاسم کے خط کا ایک حصہ ہے ،جو حجاج کے نام ہے اور چچ نامہ میں درج ہے اور اس کے بعد ڈاکٹر بنی بخش بلوچ کی تقلقیات درج کیں ہیں ۔ مگر ان میں وضاحت طلب ہیں جو یہ ہیں ۔
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ بھول رہے ہیں اس وقت سمندر بہت اندر تک تھا اور بدین کے قریب ساحل تھا اور اس کے ساتھ صحرئی کچھ کا علاقہ تھا ۔
عربی میں وادی کے معنی دریا کے ہیں اور عربوں نے جہاں وادی ذکر کیا وہاں اس سے مراد دریا کے ہیں ، مثلاً اندلس دریائے کبیر کو وادی لکبیر لکھا ہے ۔ جب کہ اس خط میں مہران کے مشرق کی وادی میں لکھا گیا ہے اور اصولاً محمد بن قاسم کو وادی کے مشرق لکھنا چاہیے تھا مگر اس خط میں ایسا نہیں لکھا ہے ، بلکہ اس کے برعکس لکھا گیا ہے ۔ ہوسکتا ہے حامد اللہ کوفی جو کہ نام سے ظاہر ہے کوفہ کا رہنے والا تھا ، اس نے ایسی کیسی غلطی کی سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نقل کرنے والوں نے وادی مہران کے مشرق کی جگہ مہران کے مشرق کی وادی لکھ دیا ہو ۔
ڑاور اگر ڈیلٹا کے علاقہ میں ہوتا تو محمد بن قاسم سیوستان پر حملہ کرنے سے پہلے ڑاور پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ۔ نیز ایسی صورت میں سندھی فوج عربوں کا دیبل پر حملہ کی بھرپور مزاحمت کرسکتی تھی ۔ کیوں کہ ڑاور سے انہیں بھر پور مدد ملتی تھی ۔ مگر ہمیں ایسی کوئی اطلاعات نہیں ملتی ہیں ۔
ایسی صورت داہر نے محمد بن قاسم سے جنگ کے لیے کیوں ڑاور کو کیوں چنا ۔ کیوں کہ ایسی صورت میں داہر کا اندون ملک سے رابطہ قائم نہیں رہ سکتا تھا اور یہ جنگ اسٹریچی کے خلاف ہے ۔
راوڑ جو کہ دریا کے مشرقی کنارے پر واقع تھا اور اس کے دفاع کے لیے دریا کے مغربی کنارے پر ایک قلعہ اشبہار اور مشرقی کنارے پر بیٹ واقع تھا ۔ محمد بن قاسم سیستان پر حملہ آور ہوتے وقت اشبہار سے ہٹ کر کر نکل گیا تھا ۔ اب چوں کہ اب راوڑ پر حملہ آور ہونا تھا اس لیے ان رکاوٹوں کو ہٹانا ضروری تھا ۔ یہ قلعہ غالباً کچھ فاصلے سے بھولاری اور کوٹری کے درمیانی علاقہ میں واقع تھا اور اسے فتح کرنا نہایت ضروری تھا کہ راوڑ کی طرف پیش قدمی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ رہے ۔
محمد بن قاسم نے اشبہار کے قلعہ کا محاصرہ کیا اور تقریباً ایک ہفتے کے محاصرے کے بعد محصورین نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ انہیں امان دی گئی ۔ اب بھی محمد بن قاسم اروڑ کے بالمقابل دریا کے مغربی کنارے پر تھا ۔ جہاں سندھ کا راجہ داہر مرکزی فوج کے ساتھ پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا ۔ یہ شہر بہمن آباد سے جنوب میں کافی فاصلے پر واقع تھا ۔ کیوں کہ ان دونوں کے درمیان دو مظبوط قلعے بہرور اور ڈھالیا نام کے دو مظبوط قلعے تھے ۔ محمد بن قاسم دریا کو غبور کرنے تجویزوں پر غور کر رہا تھا ۔ راجہ داہر کے دستے کئی دریا پار کرکے آئے اور اسلامی لشکر پر حملہ آور ہوئے مگر فرار ہونے پر مجبور ہوئے ۔ محمد بن قاسم دریا کے مغربی کنارے پر اروڑ کے سامنے دریا خیمہ زن ہوگیا تھا ۔
داہر کو خبر ملی تو وہ ہاتھی پر سوار ہوکر اسلامی لشکر کے سامنے جا پہنچا ۔ دریا دونوں لشکروں کے درمیان تھا ۔ وہاں ایک شامی جو کنارے پانی میں اپنے گھوڑے سمیت اتر آیا تھا دیکھ کر راجہ داہر نے ایک تیر تاک کر مارا جس سے شامی کی شہادت ہوگئی ۔
ایچ ٹی لیمبرگ کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں دریا ایک بڑا ڈیلتا بناتا ہوا سمندر میں گرتا تھا اور یقینا واد واھ دریائے سندھ کی مشرقی شاخ ہوگی ۔ بیان کیا جاتا ہے یہ راوڑ اور جے پور یا جے ور نام کے درمیان سے گزرتی تھی ۔ وہ لڑائی جس نے سندھ کے مستقل کا فیصلہ کردیا اور راجہ داہر کی جان لی تھی دریائے سندھ اور داد واھ کے درمیانی علاقے میں لڑی گئی تھی ۔ معلوم ہوتا ہے راوڑ کا قلعہ ان دونوں کے درمیان تھا ۔ یاد رہے قدیم زمانے میں پران شاخ ہالا کے قریب نکلتی تھی اور موجودہ پھلیلی بھی دریا کی شاخ تھی ۔ یہاں دریا قریب ہونے کی وجہ سے گنجو ٹکر کے نیچے میدانی علاقہ سیلابی تھا اور پانی اترنے کے بعد اس جگہ جگہ پانی کے تالاب بن جاتے تھے ۔ اس لیے یہ علاقہ حملہ آور کی نسبت مزاحمت کرنے والوں کے لیے مدگار تھا ۔
راجہ داہر نے اپنے بیٹے جے سنگھ کو اسلامی لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے قلعہ بیٹ روانہ کیا تاکہ وہ دریا غبور نہ کرسکیں ۔ محمد بن قاسم داہر کی فوج کے مقابلے پر پہنچ گئے ۔ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل تقریباً پچاس دن پڑی رہیں ۔ ادھر حجاج نے وہاں کے محل وقوع اور دریا کے تنگ ہونے کے پیش نظر محمد بن قاسم کو رائے دی کہ اس دریا بیٹ کے مقام پر سے غبور کرنا چاہیے اور بیٹ دوآبہ میں ہے اس لیے اسلامی لشکر سہولت سے پیش قدمی کرسکتا ہے ۔
محمد بن قاسم نے دریا کو غبور کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے نے ایک دستہ کو حکم دیا کہ وہ راوڑ کے سامنے جائے کہ گوپی اپنے باپ کی مدد کو نہ آسکے اور اس کے بعد دوسرے اہم احکامات دیے ۔ پھر محمد بن قاسم نے کشتیوں کے ذریعے دریا پار کرلیا اور دریا کے مشرقی کنارے جیور نام کے گاؤں پر قبضہ کرلیا اور اس کے بعد اس نے قلعہ بیٹ کی طرف پیش قدمی کی جہاں اس کی جنگ بیٹ کے حاکم جائین سے ہوئی اور یہ قلعہ بھی سر ہوگیا ۔
راوڑ پہنچنے کے لیے عربوں کو دو دریائی جھیلیں غبور کرنی پڑھیں ۔ ان میں ایک داد واھ نام نہر تھی ۔ راجہ داہر کو خبر ملی تو وہ بھی اپنا لشکر لے کر پہنچ گیا اور دونوں لشکروں کے درمیان ایک جھیل حائل تھی ۔ راجہ داہر نے اپنے بیٹے جے سنگھ کو کچھ فوج کے ساتھ روانہ کیا اور خود بھی مقابلے کی تیاری کرنے لگا ۔
بلازری کا کہنا ہے کہ عرب فوج نے جس مقام پر سے دریا کو غبور کیا تھا وہ راسل کی علمداری میں تھا جو قضا Qassaغالباً کچھ کا حکمران اور راجہ داہر کا گورنر تھا ۔ مگر یہ بیان سندھ کے جغرافیہ کو دیکھ کر درست نہیں لگتا ہے ۔
جے سنگھ اپنی فوج کے ساتھ اسلامی فوج کے مقابل ہوا ۔ طویل خون ریز جنگ کے بعد جے سنگھ کے دستہ کو شکست ہوئی اور اس کے کے بشتر لشکری مارے گئے ۔ جے سنگھ کا ہاتھی بھی عربوں کے لشکریوں میں گھر گیا ۔ فیل بان نے بڑی مشکل سے عربوں پر حملہ کیا ۔ عرب ہاتھی کا مقابلہ نہ کرسکے اور وہ منتشر ہوگئے ۔ اس طرح جے سنگھ کے فرار کا راستہ ہموار ہوا اور وہ مشکل سے جان بچا کر اپنے باپ کے پاس پہنچا ۔
93 ہجری کئی لڑائیوں کے بعد میں محمد بن قاسم کی راجہ داہر کے ساتھ آخری جنگ شرع ہوئی جس نے سندھ کی قسمت کا فیصلہ کردیا ۔ یہ جنگ روزانہ مسلسل جاری تھی مگر فیصلہ نہیں ہو پارا تھا اور نہ اس طویل لڑائی سے لشکر اسلامی کے عزم میں کوئی فرق پڑا ۔ اگرچہ ان کی تعداد مخالف فریق کے مقابلے میں صرف ایک چوتھائی تھی ۔ آخر 10 رمضان کو جمعرات کا دن راجہ داہر مارا گیا اور سندھی ہتھیار ڈال کر امان طلب کی اور سندھ کے لشکر کو شکست ہوچکی تھی یوں فیصلہ ہوچکا تھا کہ اب سندھ پر مسلمانوں کی حکومت ہوگی اور مسلمان فاتحانہ راوڑ کے قلعے میں داخل ہوگئے ۔
ڑاور کو فتح کرنے کے محمد بن قاسم نے برہمن آباد کا رخ کیا ۔ راوڑ اور برہمن آباد کے درمیان دو مظبوط قلعے بہرور اور ڈھالیال تھے ۔ جسے عرب فوج نے معمولی مزاحمت کے بعد فتح کرلیا ۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے اگر اگر ڈاکٹر بنی بخش بلوچ کے مطابق ڑاور ساحلی علاقہ میں ہوتا تو عرب فوج ڑاور کو فتح کرنے کے بعد نیرون کوٹ آتی ۔ کیوں کہ ایسی صورت میں نیرون کوٹ راہ میں پڑتا ۔ مگر جیسا کہ بیان کیا گیا ہے محمد بن قاسم نے برہمن آباد کا رخ کیا اور ڑاور اور برہمن آباد کے درمیان دو قلعہ تھے انہیں فتح کیا اور راہ میں دریا کو غبور نہیں کیا ۔ جس سے بھی ڑاور کے حیدرآباد کے مقام پر ہونے کی تائید ہوتی ہے ۔
تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری