ٹھٹھ جب اب اتنا اہم نہیں رہا ہے ۔ مگر اس کے قبرستان مکلی کو دیکھیں تو اس کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے ۔ یہ قبرستان جو میلوں تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہاں اغونوں اور ترخانوں کے مقبرے ہیں ۔ مگر یہاں کا سب سے خوبصورت مقبرہ نظام الدین سمہ کا مقبرہ ہے ۔ جس کا گنبد گرچکا ہے ۔ مگر اس پر پتھر کا بہت خوبصورت کام ہے ۔ کم از کم مجھے تو سندھ کیا پورے پاکستان میں کسی اور عمارت نے متاثر نہیں کیا جیسا کہ اس مقبرے میں پتھر کے خوبصورت کام نے ۔
قدیم مورخین نے دیول اور ٹھٹھہ کا ذکر ایک ساتھ کیا ہے ۔ دیول کب برباد ہوا اس کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں ہے ۔ لیکن دیول کی بربادی کے ساتھ ٹھٹھ وجود میں آگیا تھا ۔ میر شیر علی قانع کا کہنا ہے کہ یہ اس شہر کو نظام الدین سمہ نے آباد کیا تھا ۔ لیکن حقیقت میں یہ شہر تیرویں صدی میں وجود میں آچکا تھا ۔ اس شہر کا سب سے پہلے تاریخی ذکر تاہم ٹھٹھ کے جام کو فیروز شاہ تقلق نے ۱۳۶۲ء میں شکست دی تھی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے یہ نظام الدین سمہ سے پہلے دارلحکومت بن چکا تھا ۔ اس سے پہلے ساموئی جو مکلی کے کچھ آگے تھا سموں کا دالحکومت تھا ۔ جس سے اس شہر نے بہت ترقی کی اور سندھ کا دارلحکومت دو سو سال سے زیادہ عرصہ تک رہا ۔ شاہ بیگ ارغون کے دور میں جب وہ ملتان پر حملے کے لیے گیا ہوا تھا اس شہر کو پرتگیزوں نے جلا دیا تھا ۔ یہ شہر سموں کے بعد ارغونوں ، ترخانوں اور مغل گورنروں کا صدر مقام رہا ۔ اس شہر کے مدرسوں اور صنعت و حرفت کی مورخوں نے بہت تعریف کی ہے ۔ اس شہر کی اہمیت کلہوڑوں کے دور تک رہی مگر کلہوڑوں نے سندھ کو اجارے پر لے لیا تو اس کی اہمیت کم ہوگئی ۔ خاص کر حیدرآباد کی بنیاد کی بعد اس کی اہمیت بہت کم ہوگئی ۔ مگر جب اس کی اہمیت اس وقت اور کم ہوگئی جب انگریزوں نے ریلوے لائن گزارتے ہوئے اس شہر سے ہٹ کر گزاری ۔ جس کی وجہ سے اس شہر کی اہمیت کم ہوگئی ، تاہم یہ اہمیت کا حامل ہے ۔
ٹھٹھہ کب وجود میں آیا اس بارے میں اختلافات ہیں ۔ اور اس کے بعد چارسو سال تک سندھ کی تاریخ میں اہم کردار ادا کرتا تھا ۔ اس کی صنعتی مصوناعات سولہ اور سترویں صدی میں منافع کا زبردست ذریعہ تھا ۔ پرتگیز پادری میزیق نے ۱۶۴۱ء ٹھٹھہ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ سلطنت سندھ کا عظیم تر شہر اور تجارت و کاروبار کا مرکز ہے ۔ کیپٹن الیگزینڈر ہمٹیٹین نے اسے ۱۶۹۹ء میں اسے دیکھا اور اس کا بیان ہے کہ یہ علاقہ کی بڑی منڈی ہے اور ایک دولت مند اور خوبصورت شہر ہے ۔ وہ یہاں کی عمارتوں باغات اور پھلوں کی تعریف کرتا ہے وہ مزید لکھتا ہے کہ شہر ٹھٹھہ میں الہٰہات ، فلسفہ اور سیاسیات کے علم و فضل کے لیے مشہور ہے اور یہاں نوجوانوں کو ان علم و تدریس مہیا کرنے ۴۰۰ مدارس ہیں ۔
ٹھٹھہ میں پرتیگیزی یہاں کا تجارتی سامان خریدنے آیا کرتے تھے ۔ ان کے مشنری یہاں آئے مگر انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی ۔ البتہ انہوں نے یہاں ایک گرجا گھر بنالیا تھا ۔ وہ یہاں بیچنے کے لیے اولیا کی تصاویر لائے جو بیچنا چاہتے تھے ۔ مگر انہیں خریدنے والا کوئی نہ تھا ۔ اس لیے گرجا گھر میں پڑے پڑے سڑ گئے ۔ بعد میں یہاں پلیگ کی وبا پھیلی تو اسی ہزار آدمیوں کی جان چلی گئی ۔ کلہوڑوں کے دور مینںجب یہ ذوال پزیر ہوا تو اس کے وسیع و عریض بکھڑے ہوئے کھنڈرات کا یورپی سیاحوں نے ذکر کیا ہے ۔ ۱۸۰۹ء میں ہنری پوٹنگر نے اس کے بارے میں کہا کہ اب اس کی آبادی پندرہ ہزار بھی نہیں رہی اور ہر طرف کھنڈر اور ان کی بکھری اینٹیں اس کے ماضی کی شان و شوکت کے ماتم کناں ہیں ۔ بکھرے کھنڈروں میںاکا دکا مکان جس میں نصف سے زیادہ خالی پڑے ہیں ۔ آر ایچ کنیڈی نے ۱۸۳۹ میں بیان کرتا ہے کہ ٹھٹھہ کی بچی کھچی صنعت آبادی کے رحم و کرم پر زندہ ہے ۔ ریشم اور سوت کی بنی ہوئی لنگیاں جو زونائی پکاری جاتی ہیں اب بھی دولت مند ایشیائیوں سے خراج تحسین وصول کرتی ہیں ۔ میکانگی ہنرمندی میں قدیم ذوق کا ایک زندہ نشان پجرنگی جڑاؤ کام جو بمبئی بکسوں کے نام سے مشہور ہے ۔ تالپوروں کے آنے سے حالات زیادہ خراب ہوئے تو یہ سندھ چھوڑ کر بمبئی چلے گئے ۔ آج ٹھٹھ کو دیکھ کر لگتا نہیں ہے کہ یہ ماضی میں کس قدر شان و شوکت رکھتا تھا ۔ صرف ایک بادشاہی مسجد ہی اس کی ماضی کی عظمت رفتہ پتہ دے رہی ہے ۔
ٹھٹھ کی ماضی کی شان و شوکت کی داستان مکلی کا گورستان سے پتہ چلتا ہے ۔ جہاں خوبصورت قبریں اور مقبرے بکھرے ہوئے ہیں ۔ جس میں مرزا جانی بیگ کا مقبرہ ، مقبرہ عیسیٰ خان ترخان ، مقبرہ مرزا تغلق خان اور بہت سے مقبرے ہیں ۔ مگر ان میں سب سے خوبصورت نظام الدین سمہ کا مقبرہ ہے ۔
تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری