ٹھگ
ٹھگی ہندو مت کی طرح قدیم اور ہندو رسوم اور اعتقاد پر قائم ایک زبردست تحریک تھی ۔ جو رفتہ رفتہ ایک فرقہ بلکہ صدہا فرقوں کا مجموع بن امتتداد زمانہ مذہبی رنگ میں دوبی ہوئی تھی ۔ اس کی سیاسی حثیت کچھ نہ تھی ، لیکن اعتقادی بنا پر ہندو مت یا فلسفہ مذہب کی ایک شاخ یا اس کا اک پہلو شمار کی جاسکتی تھی ۔ برہما تخلیق یا نسل انسانی کا ذمہ وار تھا تو بھوانی اس کی کاٹ چھاٹ اور فنا کرنے کی زمہ وار تھی ۔ خیر و شر کی یکجائی ہمیشہ مذہب عالم کا جزو رہی ۔ لیکن تخریب و تخلیق کی آزادانہ اور خود مختیارانہ علمداری اس اصول کے تحت حیات و ممات میں توازن رکھا جائے صرف ہندو مذہب اور دیو مالا کا امتیازی مستحکم قانون ہے اور رانی بھوانی یعنی کالی مائی کی رعایا اور اس کے پجاری ہونے کی حثیئت سے روئے زمین (کم از کم ہندوستان میں) اس کے سرگرم گماشتے اور کارکن ٹھگ تھے ۔ جو نسل انسانی کو ضائع کرتے رہنا بھوانی کے مشن کی تکمیل ، اس کی خوشنودی اور نجات کا ذریعہ تصور کرتے تھے اور دن رات اسی میں کوشاں رہتے تھے ۔ اس طرح یہ کہنا صحیح ہے کہ وہ اس کو مذہبی فریضہ سمجھتے تھے اور اس سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے ۔
ٹھگ سنسکرت کے الفاظ اسٹیگ یا اسٹھاگا جس کے معنی چالاک ، دھوکہ دہی اور اسٹیٹی (ستھاگتی) یعنی چھپاتے ہیں سے نکلا ہے یہ اصطلاح مسافروں کے قتل اور ڈکیتی کو بیان کرتی ہے ۔ یعنی ٹھگ پیشہ ور ڈاکوؤں اور قاتلوں کا ایک منظم گروہ ہے جس کا مطلب ہے ‘دھند’ یا ‘دھوکہ باز کے ہیں جو برصغیر پاک و ہند اور خاص طور پر ہندوستان کے شمالی حصوں میں مشہور تھی ۔
ٹھگی اور دوسرے پر تشدد جرائم کا سلسلہ انسان کی روح مضمر تشدد سے جوڑا جاسکتا ہے ۔ ماہر نفسیات ایرخ فرام نے سوال اٹھایا کہ انسان واحد مخلوق ہے کہی جو اپنی نوع کی دوسری مخلوق کو بلاوجہ موت کے گھات اتارنے اور اذیت پہنچانے کا کام کرتی ہے ۔ اس سوال کا جواب انسائیکلو پیڈیا قتل Encyclopaedia of Murder کے مصنف کولن ولسن نے انسانوں کی مجرمانہ تاریخ میں یوں دیا ہے کہ اس کا سبب نہ تو مورثی عناصر ہیں نہ کسی قسم کی فرضی خواہش مرگ بلکہ یہ خود اوعائی کی انسانی ضرورت اور اولیت Primacy حاصل کرنے کی لگن ہیں ۔ وہ تشدد کی اس جبلت کو تخلیقی قوت کے سکے کا دوسرا رخ سمجھتا ہے
بھوانی
انگریزوں نے مسلمان اور ہندو دونوں کو ٹھگی کے لیے بھوانی کی پرستش پر زور دیا ہے ۔ یہ قابل ذکر ہے کہ انگریزوں کے ذریعے اطلاعات کے علاوہ ہم اس کی کسی اور ذرائع سے تصدیق نہیں کر سکتے ہیں ۔ اگرچہ اس کی تصدیق اس طرح ہوتی ہے کہ ٹھگ گروہوں میں ہندو مسلم دونوں شریک ہوتے تھے ۔ مگر برصغیر میں ہندو اور مسلمانوں دونوں ہی ہر میدان میں شیریک رہتے تھے حتیٰ کہ وہ باغی جس مغلیہ سلطنت اور مسلمان کے خلاف ہندو دھرم کا حیا چاہتے تھے ۔ ان کے لشکروں میں بھی مسلمان شریک تھے ۔
میک لوڈ McLeod commented کا کہنا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ نہ صرف ٹھگوں کے درمیان بلکہ وسطی ہندوستان کی نچلے طبقہ کے لوگوں خاص کر ان پڑھ آبادی میں مسلمانوں نے ہندوؤں کے عقیدوں کو جس طرح مانتے تھے وہ (دیوی یا بھوانی) سے کہیں زیادہ ہے ۔ ڈیوڈ آچٹرلونی David Ochterlony نے پنڈاریوں کو ٹھگی کے عروج کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے ۔ سلیمن نے اس کا الزام ہندوستانی حکمرانوں پر لگایا جس نے اپنی فوجوں کو برخاست کردیا جس کی وجہ سے بہت سارے فوجیوں کی نوکری چھوٹ گئی تھی ۔ ٹھگوں کے بارے میں سلیمان کی تحریروں پر مبنی رابرٹ وین رسیل Robert Vane Russell کا دعوی ہے کہ ان ٹھگوں میں سے بیشتر کنجر تھے ۔ اس خیال ہے ان ٹھگوں نے حال ہی میں اسلام قبول کیا تھا ۔
1882 میں الیگزینڈر کننگھم Alexander Cunningham نے ہیوئن تھنسگ Hiouen-Thsang کے اس بیان پر تبصرہ کیا تھا کہ “وہ لوگ جو کھل گاؤں تشریف لائے تھے وہ چھوڑنا بھول گئے ہیں” اور کہا ہے کہ اصل وجہ راہب کے مطلب سے مختلف ہوسکتی ہے اور اس نے ایک جگہ کے طور پر کہلگاؤں کی شہرت کے ساتھ اس کی مثال بیان کی ہے ۔ “دریائے ٹھگ” کے ذریعہ متواتر ۔
ٹھگوں کی خاص دیوی بھوانی تھی جو کالی کا ایک روپ ہے اور اس روپ میں وہ خون ریزی کو پسند کرتی ہے ۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے ٹھگوں کے گروہ میں ہندو اور مسلمانوں کی کوئی تخصیص نہیں تھی ۔ ہندوؤں کے ساتھ مسلمان بھی برابر کے شریک تھے اور وہ بھی بھوانی پوچا اور دوسری رسومات میں شریک ہوا کرتے تھے ۔ٹھگی صرف ان کا پیشہ ہی نہیں بلکہ جی اینڈرسن کے الفاظوں میں مذہب بھی تھا ۔ ان کا اعتقاد تھا کہ ان کی کار گزاریوں پر ان کی دیوی خوش ہوتی ہے اور اس کا اظہار بعض مسلمہ علامتوں اور آوازوں کے ذریعے ان کے ساتھ سلسلہ پیام جاری رکھتی ہے ۔ وہ بھوانی کی رضا جوئی کے لیے پرتکلف رسوم ادا کرتے اور اس کے شگون ملنے تک کسی مہم میں حصہ نہیں لیتے تھے ۔ اس سے زیادہ ظاہری مذہبی رسوم یا متوقع انکشافات کے باطنی مظبوط عقیدے کے ساتھ مسلمہ قدامت کے زمانہ ہائے بعید میں بھی کسی فال گو نے اپنے دیوتا سے کبھی مشورہ نہ کیا ہوگا ۔
وہ بھوانی کی رضا جوئی کے لیے پرتکلف رسوم ادا کرتے اور ہر مہم سے پہلے دیوی کی پوجا کے علاوہ اس کے شگونوں کے منظر رہتے تھے ۔ یہ گدھے ، گیڈر اور الو کی آواز کو مبارک اور اسے بھوانی کی رضامندی خیال کرتے تھے اور اس طرح بعض جانوروں اور شگونوں کو منحوس سمجھتے تھے ۔ کسی بھی شخص کو ٹھگ بنانے سے پہلے بھوانی کی رضامندی ضروری سمجھی جاتی تھی اور اس کے لیے اس کی پوجا اور کچھ رسوم ادا جاتی تھیں اور جب تک بھوانی کی طرف سے کوئی شگون نہیں ملتا تھا اسے گروہ میں شامل نہیں کیا جاتا تھا ۔ جب مبارک شگون مل جاتا تو اسے ٹھگوں کی برادری میں شامل کرلیا جاتا تھا ۔
جب ٹھگوں جب کسی شکار کو قتل کرنے کرنے سے پہلے مبارک شگون مل جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بھوانی نے اپنی خوشنودی کا اظہار کردیا ہے ۔ اب شکار کو قتل کرنا ان کا نہ صرف ایک مذہبی فرض بن گیا ہے بلکہ ایک خوشگوار فرض قرار پاجاتا تھا ۔ یہی وجہ ہے ٹھگوں کو اپنے شکار کو قتل کرنے کے بعد کبھی کسی قسم کی پشیمانی نہیں ہوتی تھی ۔ کرنل سلمین ایک ایسے مسلمان ٹھگ کو جسے معافی مل چکی تھی یہ سوال کیا کہ کیا تمہیں مقتول لوگوں کے ساتھ کبھی رحم یا ہمدردی محسوس کی ؟ اس ٹھگ نے جواب دیا کبھی نہیں ۔ کرنل سلیمین پھر پوچھا کہ تم جن لوگوں کے ساتھ سفر کرتے تھے وہ تمھارے ساتھ بیٹھتے بات چیت کرتے اور اپنے مسلے مسائل بیان کرتے تھے ، نیز اپنے اہل و عیال کا ذکر کرتے تھے جن سے وہ کئی سال کی جدائی ، تکلیفوں اور مصیبتوں کے بعد وہ ملنے جارہے ہوتے تھے ۔ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے تھے تمہیں قتل کرتے وقت ان پر ترس یا رحم نہیں آیا ؟ اس نے جواب میں کہا کہ شگونوں کے ملنے کے ہم انہیں ایسا شکار سمجھتے ہیں جنہیں قتل کرنے کے لیے بھوانی نے ہمیں حکم دے دیا ہے اور ہماری حثیت محض آلے کی ہوجاتی ہے ۔ اگر ہم اسے قتل نہیں کریں گے تو بھوانی ہم سے ناراض ہوجائے گی ۔ ہم اور ہمارے خاندان مصیبت و مفلسی میں مبتلا ہوجائیں گے اور ہم پر بھوانی کا قہر ہم نازل ہوگا ۔
ٹھگی کا نظریہ
جی اینڈرسن کا کہنا ہے کہ ٹھگوں کے لیے ان کی وہ کدال جن کو وہ لاش کو دفنانے کے لیے کھدائی کے لیے استعمال کرتے تھے خاص اہمیت کی حامل اور مقدس ہوتی تھی ۔ لاش کو کسی اور دوسری کدال یا کھدائی کے دوسرے اوزار سے کھدائی اور دفنانا ممنوع تھا ۔ کیوں کہ ان کے خیال میں کدال ہی ان کے پیشے کی علامت تھی اور ان کا اعتقاد تھا کہ خود دیوی نے بطور میراث اسے چھوڑا ہے ۔ اس کدال کو خاص عقیدت اور رسومات کی ادائیگی کے بعد ڈھالی جاتی تھی اور پھر بعض رسوم کی ادائیگی بعد یہ متبرک ہو جاتی تھی ۔ لیکن ہمیں ایسی مثالیں ملتیں ہیں کہ بعض اوقات لاش کو کسی کھڈ ، نالے اور جانوروں کے کھانے کے لیے چھوڑ دی جاتی تھیں ۔
اگرچہ ٹھگ ان کی ابتداء کلیبی کی رکتبیجا کے خلاف ناکام لڑی جانے والی لڑائی سے کرتے ہیں ، لیکن ان کی بنیاد تانترک فرقوں کے قریب ہے جو ویدک نسخوں اور قدیم روایات سے الگ ہیں ۔ اس کے پسینے سے پیدا ہونے والے ٹھگ اپنے آپ کو کالی کے بچے سمجھتے تھے ۔ تاہم بہت سے ٹھگ جنہیں انگریزوں نے گرفتار کیا اور انھیں سزا سنائی گئی تھی وہ مسلمان تھے اور غالباً ایک تہائی تک ۔
نوآبادیاتی ذرائع کے مطابق ٹھگوں کا خیال تھا کہ انہوں نے انسانی جانوں کو بچانے میں مثبت کردار ادا کیا ۔ ٹھگ کی مقدس خدمت کے بغیر کالی سارے انسانوں کو تباہ کرسکتی ہے ۔ “یہ خالق ہی ہے جو فنا کرتا ہے اور اس کا نام بھوانی ہے ۔”خدا ہر ایک میں ہے ، اچھائی اور برائی کے لئے ۔” خدا نے بھوانی کے کھانے کے لئے خون مقرر کیا ہے اور کہا ہے کہ تم کھاؤ لہو پر کھانا کھلاؤ ۔ میری رائے میں یہ بہت برا ہے ، لیکن وہ خون کا سہارا لینے کا حکم دے کر کیا کر سکتی ہے ! “”بھونی بہتے خون سے خوش ہوتی ہے ۔
مسلمان ٹھگوں نے اپنی توحید پرستی کو برقرار رکھتے ہوئے بھوانی کو ٹھگی کے لئے اپنایا اور وہ اللہ کے تابع روح کے طور پر ہم آہنگ ہے ۔ سلیمن کے ہاتھوں پکڑے جانے والے ایک مسلمان ٹھگ نے بیان کیا کہ “جب میں ایک آدمی کا گلا گھونٹتا ہوں تو میں خدا کا نام لیتا ہوں ۔ دوسرے مسلمان ٹھگوں نے سلیمن کے سامنے اس کی اس بات سے اتفاق کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بھوانی کو پیغمبر حضرت محمد کی بیٹی فاطمہ سے ملحق کر لیا ہے جس نے رتبیجا کو مارا اور ٹھگی کا عمل شروع کیا ۔
مائک ڈیش Mike Dash کے مطابق ٹھگوں کا قتل کرنے کا سبب مذہبی نہیں تھا ۔ جب کہ مذہبی عناصر ٹھگوں کے درمیان موجود تھے اور ان کے عقائد اصولی طور پر دوسرے لوگوں کے مذہبی اعتقادات برصغیر میں رہنے والوں کچھ مختلف تھے اور اپنی کامیابی اور ناکامی کو مافوق الفطرت طاقتوں سے منسوب کرتے تھے “در حقیقت ٹھگوں کے تمام افسانوی تصور جن کا تعلق بھوانی دیوی سے تھا وہ عام طور پر لوک داستانوں میں پائے جاتے ہیں۔
ٍ ڈونلڈ فریل میک لیوڈ Donald Friell McLeod جس نے راجپوتانہ ایجنسی میں ٹھگوں کے خلاف مہم کی رہنمائی کی تھی ۔ اس نے ان کی روایات کو قلمبند کیا۔ ان کے بقول وہ اصل میں مسلمان تھے اور انہیں دیوتا دیوی یا بھوانی نے تھیوجی کی تعلیم دی تھی ۔ اس کے بعد وہ لودھا گروہ میں شامل ہوئے اور دہلی ہجرت کر گئے ۔ جہاں 84 جرائم پیشہ قبائل جو ہندوستان مجرمانہ کاروائیاں کرتے تھے وہ بھی ٹھگوں کا حصہ بن گئے ۔ ایک معالج جس کا تعلق ان 84 قبیلوں سے تھا ایک شاہی ہاتھی کا علاج کرنے کے بعد اسے شہرت ملی اور دوسرے ٹھگوں نے اسے قتل کردیا۔ اس سے ان میں اختلافات پیدا ہوگئے تو وہ دہلی چھوڑ گئے اور سات مسلم قبائل کی تشکیل ہوئی۔ میک لیڈ کے مطابق ، ان قبائل کا نام بھینس ، برسوٹ ، کیچینی ، ہوتار ، کتھور گوگرہ ، بہلیم اور گانو تھے اور دہلی سے آنے والے ٹھگوں کو 12 سے زیادہ گروہوں میں بانٹ دیا گیا ۔
ان ٹھگوں کا طریقہ کار ایسا ہوتا تھا کہ یہ مسافروں میں گھل مل کر ان کا اعتماد حاصل کرتے اور پھر وہ رومال یا نوز کے ساتھ مسافروں کو گلا گھونٹ کر ہلاک کردیا کر دیتے تھے اور پھر ان کا مال لوٹ کر دفن دیتے تھے ۔ اس کی وجہ سے ٹھگوں کو فان سیاگر Noose استعمال ہوتا تھا جو جنوبی ہندوستان میں عام طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان ٹھگوں کا خاتمہ 1830کی دہائی کے دوران ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹینک Lord William Bentinck, کے حکم سے کپتان ، ولیم ہنری سیلمن William Henry Sleeman. نے ٹھگوں کو خاتمہ کیا ۔
یہ تحریک کب شروع ہوئی اور یہ فرقہ کب وجود میں آیا ، تاریخی حدود سے بہت آگے ہے اور ہندو مت کی طرح اس کا کوئی تعین زمانہ نہیں ہوسکتا ہے اور نہ اس کی قدامت اور مذہبی تقدس پر کوئی شبہ ہوسکتا ہے ۔ زندگی کو فنا کرنے کے بھوانی کے پجاریوں کے طریقہ مختلف تھے ۔ بھوانی کے مندروں میں اس کی پوجا میں جانوروں اور کبھی انسانی قربانیاں برابر ہوتی رہیں ۔ یہ طریقہ کھلے اور ظاہر پجاریوں معتقدوں اور کار گزریوں کا فرقہ تھا ۔ جو خون بہا کر بھوانی کی رضاجوئی کرتے رہتے تھے ۔ لیکن انسانوں کو ہلاک کرنے والے فرقہ خفیہ طریقے سے کام کرنے پر مجبور تھے ، اس لیے ان میں بے انتہا رازداری ملتی ہے اور اسی مناسبت سے ان کے طریق کار بھی ایسے تھے کہ عوام کو ان کے ارادوں میں اور ان کی نیتوں پر شک نہ ہوسکے ۔ یہ لوگ مختلف بھیس بدل اور دھوکہ و فریب سے کام لے کر اپنا کام کرتے تھے ۔ اور اس کے لیے تلوار اور تیر ، علم برچھے اور لٹھ کے بجائے رومال کے چھٹکے سے انسان کا گلہ گھونٹتے تھے اور لاشیں دفن کر دیتے تھے ۔ زندگی کا چراغ گل کرنا نجات کا موجب تھا کے بعد اگر کچھ ہاتھ آجائے تو وہ قوت لایموت کا ذریعہ ہوتا تھا اور بھوانی طرف سے انعام تصور ہوتا تھا ۔ اس لیے زندہ انسان کے مال و دولت سے قطع نظر کرکے صرف جان لینے کے بعد کے بعد مردوں کے اثاثہ سے ان کو وابستہ تھا ۔
ٹھگوں کی ابتداء کے بارے میں سب سے ابتدائی ریکارڈ شدہ روایات 1760 کی ہیں۔ کچھ نسخوں کی بنیاد پر جو کچھ ٹھگوں نے سنائے ہیں ، مؤرخ مائک ڈیش نے بیان کیا کہ ٹھگجی کی ابتداء 17 ویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں ہوسکتی ہے ۔ ان میں عام اتفاق رائے یہ تھا کہ ان کی ابتدا دہلی سے ہوئی ہے ۔ ٹھگ غلام حسن جو 1800 کی دہائی کے اوائل میں پکڑا گیا تھا نے بتایا کہ اس کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ ٹھگ سکندر اعظم کے زمانے سے ہی موجود تھے ۔ 1800s کے اوائل میں ٹھگوں کے درمیان ایک اور روایت میں بتایا گیا تھا کہ وہ اکبر کے زمانے تک دہلی میں مقیم تھے اور اس دور میں ان کے سات عظیم قبیلوں پر مشتمل تھا ، اگرچہ ان کے ہندو نام تھے ۔ ان میں سے ایک نے اکبر کے پسندیدہ غلام کو ہلاک کرنے کے بعد شہنشاہ کو نشانہ بنانے سے بچنے کے لئے دہلی کو دوسرے علاقوں میں چھوڑ دیا ۔ ایک برہمن ٹھگ جس سے سلیمان نے تفتیش کی اس نے مسلم ٹھگوں کو کنجرز” یا کنجر کہا جاتا ہے حالانکہ دوسرے ٹھگ نے اس کی تردید کی ہے ۔
کم واگنر Kim Wagner کا کہنا ہے کہ ہم ٹھگوں کے بارے میں دہلی کی روایات کا تجزیہ کرسکتے ہیں ۔ ایک ٹھگ نے بتایا کہ ٹھگوں نے آگرہ میں آباد ہونے کی کوشش کی اور بعد میں وہ دوآب کے علاقے میں اکوپور میں آباد ہوگئے تھے ۔ تاہم انہیں ہمت پور بھاگنا پڑا اور بعد میں وہاں کے حکمرانوں نے لوٹ مار میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کا مطالبہ کرنے کے بعد وہ پارہارا فرار ہوگئے ۔ اس کے نتیجے میں مسلم ٹھگوں نے دوسرے گروہوں جیسے برہمنوں ، راجپوتوں ، ہندوؤں ، لودھی اور اہیروں میں ٹھگی کو پھیلادیا ۔
ٍ ایک ٹھگ نے بتایا کہ ٹھگوں کے آباو اجداد جب دہلی سے فرار ہوے وقت انہوں نے کنجروں کا بھیس بدلا تھا ۔ تاہم وہ اعلی ذات پات کے مسلمان ہیں ۔ اگرچہ ان کے گروہوں میں کچھ کمتر نسل کے لوگ جو مغل فوج کے کیمپوں میں کام کرتے تھے شامل ضرور ہوگئے ۔ تاہم انہوں اس سے بھی انکار کردیا ۔ اس کے برعکس شواہد کے مطابق انیسویں صدی کی ابتدا تک ان مختلف لوگوں کو شامل ہوتے رہے ہیں ۔
ٹھگوں نے عورتوں ، فقیروں ، بورڈوں ، موسیقاروں اور رقاصوں کو مارنا گناہ سمجھا ۔ قدیم ہندو ماخذوں کی طرح جنھوں نے براہمن ، خواتین اور بچوں کے قتل اور ڈکیتی سے پرہیز کرتے تھے ۔ اس طرح بہت سے ٹھگوں نے ایسے لوگوں کو مارنا ممنوع سمجھا ۔ ان میں نچلا طبقہ یا پیشوں میں کام کرنے والے ، بیمار اور معذور افراد کو بھی عقیدے کی بنیاد پر شکار بنائے جانے سے منع کیا گیا ۔ جن ٹھگوں نے ان اصولوں کو توڑ ا ان کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ عذاب الہی کا نشانہ بنے اور ان کی موت کو ان قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہوئی جنہیں انہوں نے توڑا تھا ۔
تنازعہ اور شکوک و شبہات
عصر حاضر کے اسکالرز “ٹھگی” کے تصور پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور انہوں نے اس پر مختلف سوال اٹھائے ہیں ۔ متعدد مورخین نے ٹھگی کو بنیادی طور پر برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی وجہ قرار دیا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ تھگی کے واقعات متضاد اور مبالغہ آمیز ہیں۔ تاہم زیادہ تر روایت پسند نقادوں کا کہنا ہے کہ اس بارے میں دستاویزات ٹھگوں کے بارے میں برطانوی تصور پر ضرورت سے زیادہ زور دیا گیا ۔
ایکول پرٹیک ڈیس ہاؤس ایٹڈیس کے مارٹین وین واورکنز Martine van Woerkens of École Pratique des Hautes Études لکھتے ہیں کہ 19 ویں صدی میں ٹھگوں کے بارے میں جو ثبوت فراہم ہوئے ان معلوم ہوتا یہ برطانوی کے خوف کی وجہ سے یہاں باشندوں کے معاشرتی طریق کار میں مذہب کی محدود تفہیم سے پیدا ہونے والی نوآبادیاتی تخیلات کی پیداوار تھے ۔
سنتھیا این ہمس Cynthia Ann Humes کا کہنا ہے کہ سلیمن کے پکڑے گئے زیادہ تر ٹھگوں کے بیانات سے پجاریوں کی نفع بخش ہدایت کے اس نظریہ کی تائید نہیں ہوتی ہے ۔ مزید ان کا کہنا ہے کہ وہ مزید کہتے ہیں کہ ٹھگی کی کارروائیوں کو دوران تقدیر کے اسلامی تصور کو زیادہ یقین رکھتے تھے ۔ جب کہ بھوانی کی مخالفت کرنا بہت کم تھا ۔
مؤرخ کم واگنر Kim Wagner نے زیردست ہندوستانی ریاستوں میں فوجیوں کی کمی کرنے کی وجہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی پالیسیاں ٹھگوں بڑھتے ہوئے واقعات کے ذمہ دار ہیں ۔ برطانیہ سے پہلے کے دور میں یہ سپاہیوں کے گروہ اکثر آزادانہ ایک ریاست سے دوسری ریاستوں کی فوجیوں کے رومنگ بینڈ اکثر ایک بادشاہی یا دوسری ریاست میں شامل ہوجاتے تھے ۔ ان فوجیوں کی بشتر آمدنی لوٹ مار پر منحصر ہوتی تھی ۔ ہر ریاست کی فوج میں ایسا گروہ شامل ہوتا تھا جو دشمن کے علاقہ میں لوٹ مار کرتا تھا ۔ جس کی ایک بین مثال پنڈاری ہیں جو ابتدا میں مرہٹہ فوج کا حصہ تھے اور انہوں نے برخاست ہونے کے بعد لوٹ مار شروع کی ۔ کیا فیروز شاہ تغلق کی سوانح حیات کے ذکر کردہ ٹھگ اصل میں وہی ٹھگ تھے جن کا برطانوی حکام نے مقابلہ کیا ۔
سگنکSagnik Bhattacharya بھٹاچاریہ شکیوں skeptics کے سے متفق ہے کہتا ہے کہ یہ اس خوف کا اظہار ہے جو وسطی ہندوستان پر برطانوی راج کی وجہ سے ہوا ۔ ٹھگ اس کے بعد سوچنے لگے تھے کہ وہ اس بیابان میں تنہا ہیں ۔ اس نے اپنی معلونات کے وسائل کے مطابق اس نے برطانوی آبادیاتی ماڈلز سے جوڑ دیا ہے جو ہندوستان کے نسلی تنوع کو گرفت میں لینے سے قاصر تھا ۔ وہ 1830 کی دہائی کی گھبراہٹ کو قرار دیتا ہے ۔
محقیقین اس عہد میں تیزی سے بڑھتے ہوئے ٹھگی کے واقعات کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور اس لیے مورخین نے برطانوی نوآبادیاتی حکومت کا قیام وجہ ٹھگ کو بیان کرنے پر مجبور ہیں ۔ ہندوستانی حکمرانوں کی انگریزی اثر کی وجہ سے اپنی فوجوں میں بڑے پیمانے پر تخفیف کی ۔ جس کی بنا پر سپاہیوں کے بڑی تعداد بے روزگار ہوگئی ۔ ان بے روزگار سپاہیوں نے ٹھگی کے پیشے کو اپنا لیا ۔ کہا جاتا ہے کہ ٹھگوں نے ابتدا میں ڈاکوؤں کے گروہوں کی حیثیت سے کام کیا ، اس کی ابتدا دھوکہ دہی سے شروع ہوئی اور بعد میں یہ اپنے شکاروں کا گلا گھونٹ کر مار دیا کرتے ۔
لیکن امتداد زمانہ سے جس طرح عموماً مذاہب اور عقائد کے بعض بنیادی اصول دب جاتے ہیں اور حصول منفت اصل مقصد ہوجاتا ہے ۔ اس طرح ٹھگی کے پرستار زیادہ تر دولت حاصل کرنے میں مصروف و منہک ہوگئے اور کالی یعنی بھوانی کی پوجا اور اس کی بھینٹ یعنی قربانی ایک رسمی دستور ہوگیا ۔ جان لینے سے پہلے شگون لینا ایک رسمی دستور ہوگیا ۔ عقائد کے انحاط میں یہ عام باتیں ہوتی ہیں ۔ اس لیے آخری زمانہ میں ٹھگ جان لے کر غارت گری کرنا اپنا مستقل اور آبائی پیشہ بنا چکے تھے ۔ کالی مائی کی پوجا اور اس کے شگون داستان پاستان بوسیدہ رسوم کا کا مجموعہ اور ڈھکوسلے رہ گئے تھے ۔ لیکن ان طباع کو مطمعین ضمیر کو رضامند اور حوصلہ کو بلند رکھنے میں بہت کارآمد تھے اور مختلف فرقوں اور عقیدوں کے آدمیوں کو یکجا رکھنے اور ان میں اخوت پیدا کرنے بالخصوص تنظیم قائم رکھنے میں مضبوط بندھبن کا کام کرتے تھے ۔ باہمی ایکا یعنی اتحاد اور رازداری ان کی امتیازی خصوصیت تھی ۔ ٹھگوں کے غول کے ساتھ ایک متبر تبر ہوتا تھا جو کالی کے دانت کے مشابہ ہوتا تھا ۔ تبر پر قسم کھانے کے بعد قسم توڑنے کے بعد قسم توڑنے کی سزا بے رحمی کی موت دی جاتی تھی ۔ ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ایسے آدمی کا سر پر کر پشت کی طرف ہوجاتا ہے اور وہ آخری دم تک سخت درد کی اذیت سے تڑپا کرتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ ٹھگوں نے برصغیر پاک و ہند کے مختلف گروہ کی صورت میں رہے ہیں اور ان کے ماخذ کے بارے میں متعدد روایات ملتی ہیں ۔ ڈی ایف ایف میکلوڈ D. F. McLeod نے ماخذوں سے کچھ قبیلوں سے لگایا ہے جو ایک معالج کو قتل کے دہلی سے فرار ہوگئے تھے ۔ ایک اور شخص نے اس کا پتہ کچھ ایسے عظیم مسلمان خاندانوں سے لگایا جو اکبر کے پسندیدہ غلام کو قتل کرنے کے بعد فرار ہوگئے تھے ۔ ان مسلمان ٹھگوں نے ٹھگی کو راجپوت ، ہندو ، لودھی اور ابیروں میں پھیلادیا ۔ ایک دوسری روایات کے مطابق وہ کنجر تھے اور مغل کیمپوں میں کام کرتے تھے ۔ لیکن اس کا سرا انگریزوں کی فتوحات سے بھی جوڑا جاتا ہے ۔
ٹھگی گروہ کا حلیہ مسافروں کی طرح اور ان کی طرح پگڑی پہنتے اور اپنے ساتھ سفر کا سامان بھی رکھتے تھے ۔ اس طرح وہ مسافروں کو دھوکہ دیتے تھے ۔
ٹھگی کا مطلب ہے کہ وہ پکڑے بغیر زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کی جائے ۔ وہ مسافروں کا شکار اس وقت تک نہیں کرتے تھے جب تک ان کی تعداد مسافروں سے زیادہ نہ ہو ۔ وہ اپنے شکار کے بارے میں مختلف مخبروں سے معلومات حاصل کرتے تھے کہ ان سے کتنی دولت حاصل ہوسکتی ہے ۔ ان میں بشتر ٹھگ اپنے رہائشی علاقوں کے قریب ٹھگی سے ارتکاب سے اجتناب کرتے تھے ۔ اس وجہ سے ان کا سراغ لگانا ایک مشکل کام تھا ۔ وہ اپنے شکاروں کو بے وقوف بنانے کے لئے اکثر ہندو یا مسلمان ہونے کا بہانہ کرتے تھے ۔
گروہ کے سرغنہ کو جمدار کہا جاتا تھا ۔ فوجی انداز کے استعمال جیسے عہدے میں جمدار اور صوبیدار جیسے عہدوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی تنظیم فوجی انداز کی تھی ۔
انھوں نے اپنے گرہوں کے لیے رمسی Ramasee کے نام کا استعمال کرتے تھے تاکہ وہ اپنے اصلی عزائم کو اپنے اہداف سے چھٹکارا کرسکیں۔ اگرچہ قتل کے ان کے سب سے معروف طریقوں میں سے گلا گھونٹنا تھا اور اس کے علاوہ انھوں نے بلیڈ اور زہر کا بھی استعمال کیا ۔
ٹھگوں میں شامل افراد ایسے تھے جنہوں نے بطور خاندانی پیشے کے وراثت میں ملا تھا ۔ اس کے علاوہ اور لوگ جو ضرورت کے پیش نظر اس پیشہ کو اپنانے مجبور تھے ۔ عموماً ٹھگوں کے گروہ کی قیادت موروثی ہوتی تھی جو اکثر جدی پشتی ایک ہی گروہ میں رہتے ۔ اس طرح ان ٹھگ گروہوں کی اہمیت تھی ۔ تاہم بہت سے ٹھگوں اپنے اہل خانہ کو ٹھگی کے پیشی سے دور رکھا ۔ ان ٹھگوں کے اکثر تجربہ کار ٹھگ تھے ہوتے تھے جنہیں بعض اوقات گروہ بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ ٹھگ عام طور پر اپنی حرکتوں کو ایک خفیہ رکھتے تھے ۔ خواتین ٹھگ بھی موجود تھیں اور رمسی میں انہیں بارونی کہا جاتا تھا ، جبکہ ایک اہم مرد ٹھگ کو بارو کہا جاتا تھا ۔
اکثر ٹھگ بچوں کو ہلاک کرنے سے گریز کرتے تھے اور انہیں اپنا بیٹا بنا کر پرورش کرتے تھے ۔ لیکن بعض ٹھگ خواتین اور بچوں کو شناخت کے ڈر سے قتل بھی کردیا کرتے تھے ۔ کچھ ٹھگوں نے اپنے عقائد کے مطابق خود ان کو قتل کرنے سے گریز کیا ۔ مگر دوسرے ٹھگوں کو ان کا قتل سے نہیں روکا نہیں ۔
ٹھگوں کی برادری کے طور پر اس کا ابتدائی حوالہ ضیاء الدین برنی کی تاریخ فیروز شاہ تقریبا 13 1356 میں ملتا ہے ۔ اس نے سلطان جلال الدین خلجی کا ایک واقعہ بیان کیا جس میں گرفتار 1000 ٹھگوں کو لکھنوتی یا گور بھجوایا گیا تھا ۔ اس سلطان نے تقریبا 1290 میں دہلی میں کچھ ٹھگوں کو اور اس برادری سے تعلق رکھنے والے والوں ایک ہزار کے لگ بھگ کشتیوں کے ذریعے لکھنوتی میں جلا وطن کر دیا تھا ۔ سر ایچ ایم ایلیوٹ Sir HM Elliot, History of India ہندوستان کی تاریخ سورداس نے اپنے نظریاتی جوڑے میں “ٹھگ” نامی ڈاکوؤں کا ذکر کیا جنہوں نے اس کی املاک کو ہلاک اور لوٹ مار کے دوران ایک مظلوم کو لالچ دیا ۔ سکھوں کی روایتوں میں ٹھگ کی اصطلاح ایک ایسے ڈاکو کے لئے استعمال کی تھی جو یاتریوں کو راغب کرتا تھا۔ جین ڈی تھیوونٹ نے Jean de Thévenot اپنے کھاتے میں ڈاکوbersں کے ایک گروپ کا حوالہ دیا ہے جو اپنے متاثرین کا گلا گھونٹنے کے لئے چلتی ہوئی بو کے ساتھ کچھ مخصوص پرچی استعمال کرتا تھا ۔ جان فریر John Fryer نے اسی طرح کے طریقہ کا بھی ذکر کیا ہے جس نے سورت سے ڈاکوؤں کے ذریعہ استعمال کیا تھا جسے اس نے دیکھا کہ مغلوں نے اسے 1675 میں سزائے موت دی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں سے تین رشتے دار تھے ، جن کو کم واگنر Kim Wagner کے نوٹس ٹھگوں سے ملتے جلتے ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا بطور خاندانی پیشے اس میں مشغول ہیں۔ 1672 میں اورنگزیب کے جاری کردہ ایک فرمان میں اسی طرح کے طریق کار سے مراد ہے اور اس میں “فانسیگر” کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے ۔
انگریزوں کو ٹھگوں کے بارے میں پہلی بار 1807 میں جنوبی ہند میں معلوم ہوا ۔ جب کہ شمالی ہندوستان میں انھیں 1809 میں معلوم ہوا ۔ 1812 میں ایک زمیندار تیجن اور ٹھگ گسی رام کے درمیان ایک تنازعہ کھڑا ہوا ۔ گسی رام نے ایک بآثر شخص لال جی پاس پناہ لی ۔ تیجن ان ٹھگوں کے بارے میں Nathaniel Halhed ناتھنل ہال کو خبر دی ۔ اس پر Thomas Perry تھامد پیری جو اٹاوا کا مجسٹریٹ تھا ۔ اس نے 1812 میں Nathaniel Halhed ناتھنل ہال کی سربراہی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوجیوں کا ایک ان ٹھگوں کی سرکوپی کے روانہ کیا ۔ ان سپاہیوں نے 100 سے زیادہ ٹھگوں کو شکست دی اور ان کا مرکز مورنی گاؤں کے ساتھ تھا کمپنی کے سپاہیوں نے اسے تباہ اور جلا دیا ۔ لالجی فرار ہوکر رام پورہ اور دریائے سندھ کے جنوبی کنارے بھاگ نکلے لیکن مرہٹوں نے اسے پکڑ لیا جس نے اسے کمپنی کے حوالے کردیا ۔
برطانوی حکام کو کبھی کبھار مختلف ذرائع معلومات جن میں نیوز لیٹرز یا ایشیاٹک سوسائٹی کے ایشیٹک ریسرچز جریدے کی اطلاعات پر کچھ ٹھگوں کو گرفتار کیا اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ۔ لیکن سلیمن پہلا شخص ہے جس ٹھگوں کے بارے میں ایک گروپ سے حاصل کردہ معلومات کو دوسرے ضلعوں میں ٹھگوں کی کھوج اور شناخت کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ۔ اس کی پہلی اہم پیشرفت “فرنگیہ” جسے سید امیر علی ، خدا بخش Deahuct Undun and Daviga Persaud بھی کہا جاتا ہے کی گرفتاری تھی ۔ جس کے انکشافات نے بنیادی ثبوت فراہم کیا ۔ فرنگیہ کی کہانی 1839 کے کامیاب ناول کنفیکشنس آف ٹھگ کی اساس تھی ۔ فرینگیہ نے سلیمن کو ایک سو لاشوں کے ساتھ ایک اجتماعی قبر پر لے آیا ، اسے ان قتلوں کی تفصیل اور ان قتلوں میں حصہ لینے والے ٹھگوں کا نام بتایا ۔
ابتدائی تفتیش جو فیرنگیا سے کی گئی تھی اور اس کی تصدیق کے بعد سلیمان نے ثبوتوں کی روشنی میں مخبروں کے ذریعے ایک وسیع مہم شروع کی۔ سلیمان کو 1830 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک محکہ 1830 میں ٹھگی اور ڈاکو ڈیپارٹمنٹ کا سپرنٹنڈنٹ بنایا گیا تھا ۔ ڈکیٹی ایک منظم ڈاکوئوں کی ایک قسم تھی ، لیکن ان وارداتوں سے کسی ان کے طرز عمل کا کوئی خاص عنصر نہیں تھا ۔ سلیمن نے خفیہ مخبری کے علاوہ وہ طریقہ کار استعمال کیے جو یوروپ و امریکہ میں استعمال ہو رہے تھے ۔ جس میں ملزمان قیدیوں کو نمبر دیئے گئے اور ان کے نام ، رہائش گاہیں ، ساتھیوں ٹھگ اور مجرمانہ کاروائیاں جن کا ان پر الزام ان پر تھا ان کو رجسٹر کیا گیا تھا ۔ تاکہ وقت ضرورت حوالہ استعمال کیا جاسکے ۔ بہت سے ٹھگوں کے نام ایک جیسے تھے ۔ ان میں اکثر قوموں کا فرق تھا ۔ اس لیے قبیلوں ، ذاتوں اور پیشوں کے ناموں کو گروہ استعمال کرتے تھے ۔ اس کے باوجود درست ریکاڈ رکھنا بھی مسلہ تھا ۔ کیونکہ اکثر ٹھگ اپنے ناموں کے بجائے عرفیت سے پکارے جاتے تھے اور تقریبا ہر گروہ میں مسلمان اور ہندو ٹھگ موجود تھے ۔
برطانوی دباؤ
ایک ٹھگ غلام حسین کے مطابق اگرچہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ کھانے سے گریز کرتے تھے ، لیکن شراب نوشی اور تمباکو نوشی میں کسی قسم کا تعصب نہیں برتا جاتا تھا ۔
اس مہم کی کامیابی انحصار ان ٹھگوں پر تھا جو مخبر بن چکے تھے اور انہوں نے بھی مافی کی شرط پر وہ سب کچھ بتایا تھا جو انھیں معلوم تھا ۔ ان تھگوں کو مخبر بننے کی شرط پر معافی کی پیش کش کی گئی تھی ۔ ایک مورخ مائک ڈیش کے مطابق جس نے برطانیوی کمپنی کی ٹھگوں کی دستاویزات کا معائنہ کیا تھا ۔ لکھتا ہے کہ انگریز ججوں کے سامنے ہی مشتبہ افراد کے بینچ ٹرائل ہوسکے تھے ۔ اگرچہ مقدمات کی سماعت بعد کے معیارات کی کمی تھی ، جیسے مشتبہ افراد کو صفائی کی قانونی اجازت نہیں تھی اور زیادہ تر مشتبہ افراد کو مجرم قرار دیا گیا تھا ۔ ڈیش کہنا ہے کہ عدالتیں حقیقت میں سچائی کی تلاش میں دلچسپی تھیں اور غلط شناخت یا ناکافی شواہد کی وجہ سے یا محض شبہ پر کو الزامات کو مسترد کردیتی گئیں۔ یہاں تک کہ بعد کے معیارات کے مطابق ۔ ڈیش کا کہنا ہے کہ بہت سے ٹھگوں کے لئے جرم کا ثبوت بھی تھے ۔ مثلاً دریائی ٹھگوں نے چونکہ انہوں نے کشتیاں استعمال کیں اور اپنے متاثرین کو ندیوں میں ٹھکانے لگادئے تھے اور ان کے خلاف ثبوت نہ ہونے کی وجہ سزا سے بچنے میں کامیاب ہوگئے ۔ ان کا ایک ہم وطن اودھ سے ۔ سلیمن کی کمان میں فورسز نے ان کے خلاف کاروائی 1836 کی ۔ بعد میں 1870 کی دہائی تک ٹھگ معدوم ہوچکے تھے ۔ لیکن ٹھگی کی تاریخ 1871 کے فوجداری قبائلی ایکٹ (سی ٹی اے) کی طرف راغب ہوئی۔ اگرچہ سی ٹی اے کو ہندوستانی آزادی پر منسوخ کیا گیا تھا ۔ تاہم جرائم پیشہ قبائل کے طور پر سمجھے جانے والے قبائل اب بھی ہندوستان میں موجود ہیں۔ [48] محکمہ ٹھگ اور ڈاکوء 1904ء تک قائم رہا اور پھر اس کی جگہ سنٹرل فوجداری انٹلیجنس ڈیپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) نے سمبھال لے لیا ۔
بعد میں مارک ٹوین نے ولیم ہنری سلیمان کی 1839 حکومت کی رپورٹ کے بارے میں لکھا ہے ایک بہت ہی حیرت انگیز چیز ہے جس پر میں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ آپ نے ٹھگوں کے متاثرین کے بعد درج کالنگوں سے فائدہ اٹھایا ہے کہ کوئی بھی ہندوستانی سڑکوں پر غیر محفوظ علاقوں کا سفر نہیں کرسکتا تھا اور سفر اس کی موت کا پیام تھا اور ٹھگوں کا کسی قسم اخلاقی معیار نہیں رلھتے تھے ۔ وہ کسی پیشے اور مذہب کا کسی احترام نہیں کرتے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے ہر اس شخص کا شکار کیا جو ان کی راہ میں آیا تھا – ٹھگوں کی اعتراف کی موٹی فائل میں ایک انگریز مسافر کا ذکر ہے لیکن ایک بار اور یہ تھگ اس صورت حال کے بارے میں کیا کہتا ہے :
” وہ مہو سے بمبئی جارہے تھے ۔ ہم نے ان کی مدد کی اور انہیں بچایا ۔ اگلی صبح وہ متعدد مسافروں کے ساتھ محفوظ جگہ کی تلاش میں انہوں نے بارودہ تک کا راستہ اختیار کیا۔”
ہم نہیں جانتے کہ وہ کون تھا۔ وہ اس زنگ آلود پرانی کتاب کے اڑتے صفحہ کی طرح جو غائب ہو جاتا ہے ۔ لیکن وہ ایک متاثر کن شخصیت تھی ۔ موت کی اس وادی میں سکون اور خوف ہے انگریزی نام کی طاقت میں ملبوس تھا ۔
اب ہم نے اس بڑی سرکاری کتاب کی پیروی کی ہے اور ہم سمجھ گئے ہیں کہ ٹھگی کیا تھا ، یہ کتنی خونی دہشت اور کتنی وحشت انگیز لعنت تھی ۔ 1830 میں انگریزوں نے اس کینسر زدہ تنظیم کی بیچ کنی کرنے نکلی ۔ جو اس کے زیر تسلط علاقوں کے اہم حصوں میں سرایت کرچکا تھا ۔ جو خاموشی اور رازداری سے لوگوں کو قتل کر رہا تھا ۔ ان گنت بڑی تعداد میں چھوٹے بڑے حکومتی اور ریاستی اہکار ، عام لوگ ، عہدار اور حکمران کی مدد اور مدگاروں کے لیے تحفظ کا یقین دلایا ۔ اگرچہ عوام خوف کی وجہ سے کچھ نہ جاننے کا بہانہ کررہے ہیں ۔ جب کہ یہ ناسور ان نسلوں سے موجود تھا اور یہ لوگ صدیوں سے اور قدیم رسم و رواج کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے ۔ اگر کبھی کوئی غیر متنازعہ کام ہوا اور دنیا میں کبھی ناامید کام ہوتا تو یقینا یہاں پیش کی جاتی تھی یعنی ٹھگی کو فتح کرنے کا کام ۔ لیکن ہندوستان میں اس تھوڑے سے انگریزی عہدیداروں نے سختی اور جان کنی سے کام کیا اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا ۔ کیپٹن ویلانسی Captain Vallancey’ کے الفاظوں میں “وہ دن جو اس دور دراز کی برائی کو ہندوستان سے مکمل طور پر ختم ہونے اور صرف نام سے جانا جاتا دیکھنا چاہتا ہے ، مشرق میں برطانوی حکمرانی کو ہمیشہ کے لئے امر کرے گا۔” مشرق میں برطانوی حکمرانی کو بہت حد تک امر کرنے کی طرف مائل ہوگا۔ اس کام کے لیے اس سے زیادہ خوبصورت الفاظ کہنا مشکل ہوگا۔ –
تھگی کا انسداد
توہمات اور رسومات اور رسوم کی پابندیوں کرشمہ چاہیے کہ متواتر ثبوت فراہم ہونے کے بعد بھی انگریزی کمپنی کی حکومت ٹھگوں کے وجود قائل نہ تھی ۔ چودھویں صدی عیسوی اور سترویں صدی عیسویں کے سیاحوں کے سفر ناموں میں ٹھگوں کے جابجا حوالے ملتے ہیں اور ہندوستان کی بعض ریاستوں نے اپنی حدود میں ان کا استیصال بھی کیا ۔ لیکں چونکہ کوئی ظاہری ثبوت جرم ٹھگوں کے خلاف نہیں ملتا تھا ۔ کمپنی کے احکام ان کے وجود سے منکر تھے اور اپنی رپوٹوں میں لکھتے تھے کہ کمپنی کی حدود کے اندر ان کی دسترس نہیں ہے ۔ لیکن ۱۸۱۰ء سے ان کے کان کھڑے ہوئے اور ۱۸۱۲ء میں ایک انگریز کے ٹھگوں کے ہاتھوں مرنے سے چونکے ۔ لیکن ۱۸۱۶ء تک انسداد ٹھگی کے بارے میں کوئی قابل ذکر عملدرآمد نہ ہوا ۔ ۱۸۲۰ء میں کرنل سلمین صلع نرسنگھ کا حاکم مقرر ہوا ۔ ۱۸۲۲ء تا ۱۸۲۴ء کے سامنے بکثرت واقعات پیش آئے اور ثبوت میں سیکڑوں لاشیں زمیں سے کھود کر برآمد کیں ۔ ان سے ٹھگوں کی خفیہ سرگرمیوں میں شک و شبہ کی گنجائش نہ رہی اور تحقیقات سے ظاہر ہوا کہ ان کے مکر و فریب اور قتل و غارت گری کا جال تمام ملک میں پھیلا ہوا تھا ۔ مسافروں اور قافلوں کے غائب ہونے کا علم سب کو علم تھا ۔ حکومت کی طرح عوام لناس میں لیٹروں ، چوروں اور ڈاکوؤں کو مجرم سمجھا جاتا تھا ۔ لاشوں کی برآمد اور گرفتار شدہ ٹھگوں کے اقبال جرم اور اس کی تائید میں دفن شدہ لاشوں کو نکلوا کر فراہمی ثبوت نے حکومت کو ان کے استحصال پر آمدہ کیا اور لارڈبیننٹنگ گورنرجنرل کے عہد میں محکمہ انسداد ٹھگی کا محکمہ قئم ہوا ۔ ۳۲۔۱۸۳۱ء میں ٹھگوں کے بہت سے سرغنہ گرفتار ہوئے ۔ ان میں فرنگیا بھی تھا ۔ جس کہ نام سے لوگ تھرتھر کانپا کرتے تھے ۔ ٹھگوں کی سزا موت تھی لیکن اقبالی ٹھگوں کی موت کی سزائیں حبس دوام میں بدل دی جاتیں تھیں ۔ اقبالی ٹھگوں کے مصدقہ بیانات کی تفصیل یکایک پبلک کے سامنے آنے کی وجہ سے تمام ہندوستان میں کھلبلی پھیل گئی اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ان کے خلاف عوام و خواص میں ایک ایسا محاذ قائم ہوگیا اور جو ان کو جلد نیست و ناپود کرنے کا سبب ہوا ۔ لیکن ۱۸۶۱ء تک کا خاتمہ نہیں ہوسکا اور یہ محکمہ ۹۰۴ٍ۱ء تک قائم رہا ۔
ٹھگوں کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سلطنت اودھ میں ان کا تسلط ایک ہزار چار سو چھ میل کے گرد تھا ۔ وہاں دو سو چوہتر بل (وہ مقامات جہاں ٹھگ لوٹ کی لاشون کو دفن کرتے تھے) دریافت ہوئے ۔ یعنی ہر ساڑھے پانچ میل کے فاصلے پر ایک بل تھا۔
اودھ میں بیس سرغنوں نے اقبالی ہوئے ۔ بہرام ٹھگ نے چالیس برس میں نو سو اکتیس اور فتح خان نے بیس برس میں پانچ سو آٹھ قتل کرنے کا اقبال جرم کیا ۔
۱۸۳۱ء تا ۱۸۳۷ء تک کے حالات کا نقشہ یہ ہے ۔
حبس دوام کی علت میں پنیانگ (چین) وغیرہ بھیجے گئے ۔ ۱۰۵۹
پھانسی دی گئی ۴۱۲
حبس دوام مع قید سخت ۸۷
قید بوجہ عدم ادائیگی ضمانت ۲۱
قید (مختلف معیاد) ۶۹
بیان سے یہ بری ہوئے ۳۲
جیل سے فرار ہوئے ۱۱
جیل میں مرگئے ۳۶
اقبال جرم کیا ۴۸۳
عدالت سے مجرم پائے لیکن سزا نہ ہوئی ۱۲۰
مقدموں میں ماخوذ ۹۳۶
میزان ۳۲۶۶
ٹھگی کو فروغ پانے کی وجوہات مختلف تھیں ۔ ہندوستان جیسا وسیع بر اعظم قدیم زمانے سے ہی بے شمار والیان ریاست اور سرداروں میں منقسم تھا ۔ جداگانہ راجدھانیاں تھیں ، ان کی حکومتیں ضعیف اور انتظامات ست تھے ۔ باہمی عدات او حسد کی آگ ہر وقت لگی رہتی تھی ۔ ان حالات میں شاہرائیں پرخطر تھیں اور ان پر چلنے والے مسافروں کی سلامتی کا خیال بھی نہیں آسکتا تھا ۔ ان کے تحفظ کے لیے کوئی مشترکہ اقدام نہ ہوا اور اگر کبھی کسی ریاست میں حکومت اور انتظام اچھے ہوئے تو ناممکن تھا کہ وہ ملحقہ دوسری ریاستوں کے انتظام درست کرسکے ،
اور جب یہ امر پیش نظر رہتا کہ سڑکوں کے نہ ہونے اور ان کے استعمال سے احتراز ہونے کی وجہ سے ہندوستان میں کبھی باقاعدہ کرایہ کی سواریوں کا رواج نہ رہا ۔ سفر کتنا ہی طویل ہو پیدل یا گھوڑوں کی پشت پر طہ کیا جاتا تھا اور مسافروں کے قافلے جو ایک دوسرے سے واقف ہوتے تھے باہمی حفاظت اور رفاقت کے خیال سے آپس میں مل جل کر سفر کرتے تھے اور شاہرائیں تک (سوائے انگریزی فوجوں کی سڑکوں کے جو واقعی سڑک کہی جاسکتی تھی) معمولی ڈگرے اور پگڈندیاں ہوتی تھیں اور اکثر جنگلی پہاڑی اور گیر کاشت کردہ علاقوں میں سے ہوکر گزرتی تھیں ۔ جہاں چھوٹے چھوٹے قریے اور مختصر قریے اور آبادیاں تھیں ۔ یہ آسانی سے سے لالچی اور ارتکاب جرم کے مواقع ہر قسم کے لٹیروں کو کو مسافروں کی غارت گری ااور لوٹ مار پر آمادہ کرتی تھیں ۔ اس وجہ سے وہ لوگ جو دراصل لٹیروں کو مختلف ناموں موسوم ہیں ہمیشہ موجود رہے ہیں اور کھلا کھلم ہتھیاروں سے وحشیانہ حملے کرتے تھے اور کچھ بھیس بدل کر چوریاں کرتے ہیں ۔ لیکن ان سب سے زیادہ ٹھگوں کی تعداد دریافت ہوئی اور میں سب سے زیادہ ایکا اور رازداری تھی ۔ اس لیے یہ زیادہ خطرناک اور تباہ کن تھے ۔
مسافر روز مرہ کی ضروریات خریدنے کے علاوہ گاؤں والوں سے واسطہ نہیں رکھتے ۔ ان کے پاس ضرورتاً جاتے تھے ۔ اور عموماً ان کے اطراف میں درختوں کے سائے میں خیمہ لگالیتے یا لیٹ کر آرام کرتے تھے ۔ اس لیے کسی شخص کے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک جانے کے حالات نہیں معلوم ہوتے تھے ۔ ملک میں بے شمار فرقوں ، قوموں اور پیشوں کی وجہ سے چوروں اور ٹھگوں کو بھیس بدلنے میں بے انتہا سہولتیں ہوتی تھیں ۔ شرح مبادلہ سے بچنے کے لیے کثیر مقدار میں سونا اور چاندی ملک کے مختلف گوشوں سے برابر آتا جاتا رہتا تھا ۔ جوہرات اور قیمتی پتھر اکثر دور دراز مقامات سے ایسے آدمیوں کی معرفت بھیجے جاتے تھے ۔ جو عموماً اپنی شکل شباہت کمینوں اور غریبوں سی بنالیتے اور ہر شخص مجبور تھا کہ اخراجات و سفر کے لیے روپیہ ساتھ لے چلتے ۔ یہ تقریباً ناممکن تھا کہ تلاشی کے وقت ریاستوں میں غیر محدود اختیارات برتنے والے چنگی کے عمال سے کوئی چیز چھپائی جاسکے یا ان کے ماتحتوں کو لٹیروں اور ٹھگوں کی مخبری سے باز رکھے ۔
ہندوستان کے ہر حصے میں بہت سے خاندانی زمیندار اور قصبات کے عمال ٹھگوں سے پشتینی ذاتی مراسم اور روابط رکھتے تھے اور ان کو بے کھٹکے قتل و غارت گری میں سہولتیں فراہم کرتے اور خطرے کے وقت ان کو پناہ دیتے تھے اور ان کے ایک جزو سے یا ان کے مکانوں پر ٹیکس لگا کر اپنا حق حضوریت وصول کرتے اور ٹھگ بخوشی ادا کرتے تھے ۔
ہر گاؤں سے (شہروں میں نسبتاً ان کی تعداد بہت زیادہ ہوتی تھی) متعدد سادھو ، فقیر اور مذہبی بھکاری وابستہ ہوتے تھے ۔ ان کے جھونپرے اور مکان جو کہ حفاظتی چہار دیواروں سے باہر اور ہمیشہ باغوں کے اندر ہوتے تھے ۔ وہ ٹھگوں کے رہنے یا ان کے چھپنے کے مقام تھے اور یہ فقیر بے غرض بن کر اور فریب دے کر مسافروں کو پانی پلانے اور سایہ دار جگہ ٹہرانے کے بہانے وہاں لے آتے تھے اسی قسم کی اور صدہاں سہولتیں ٹھگوں کو میسر تھیں ۔
قصبوں کے زمیندار ، پٹیل ، بھٹیارے ، گوشائیں م ساہوکار اور متصدی سب ٹھگ ہوتے خود راجہ جالون ٹھگ تھا ۔
چھوڑا نایک اور کدک بنواری مشہور و معروف ٹھگ تھے ان کے متلق بہت سے کہانیاں اور روایاتیں ٹھگوں میں مشہور ہیں اور انہیں ٹھگ درست سمجھتے ہیں ۔
وارداتیں
ہندوستان میں ٹھگوں کی منعظم طریقے پر کاروائیاں قدیم زمانے سے چلی آرہی تھیں ۔ ان میں عموماً زہر دے کر یا گلے میں پھندا ڈال کر مسافروں کو قتل کیا جاتا تھا ۔ ٹھگوں کی تنظیم براریاں کی برادریوں کی سطع پر پورے ہندوستان پھیلی ہوئیں تھیں ۔ ان کی خطرناک کی وارداتوں سے ملک کو کوئی بھی علاقہ محفوظ نہ تھا ۔ برصغیر کے ہر علاقے میں ان ٹھگوں نے خوف و حراص کی فضاء پھیلا رکھی تھی ۔ لوگ سفر کرتے ہوئے اور کسی بھی اجنبی مسافر پر اعتماد کرتے ہوئے ڈرتے تھے کہ ناگاہ ان کا ساتھی کہیں ٹھگ نہ ہو اور اس میں حقیقت بھی تھی ۔ کیوں کہ یہ ٹھگ مسافروں کو راستہ میں ہی مسافر کی حثیت سے ملتے تھے اور موقع پاکر ان کا قتل کردیتے تھے ۔ چنانچہ سی پی ، بنگال ، مدراس ، بمبئی ، یوپی ، سندھ اور پنجاب کی کسی سڑک یا راستہ ایسا نہیں تھا جو ان ٹھگوں کے وجود سے خالی ہو ۔ اکثر بشتر مسافر راستہ میں غائب ہوجاتے یا ان کی لاشیں بے دردانہ طریقے سے گلا گھٹی ہوئی ملتی تھیں ۔
طریقہ کار
شکنجہ کو اکثر ٹھگی کے ہتھیار کے طور پر بتایا جاتا ہے ۔ دیگر شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کتار (خنجر) ان کا ذاتی حیثیت کا ہتھیار تھا ۔ ٹھگ یہ ہتھیار فخر سے اپنے سینے میں پہنا کرتے تھے ۔ ٹھگ کے ابتدائی حوالوں میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے رسی یا پھندے سے گلا گھونٹ کر قتل کیا ۔ لیکن بعد میں انہوں نے کپڑے کے رومال کا استعمال کیا جس کو دوسرے کاموں میں استعمال کیا جاسکتا تھا اور بظاہر معمول کے استعمال کے لیے تھا اور اسے بظاپر سر کو ڈھانپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔
ہوسکتا ہے ٹھگوں نے گلا گھونٹنے کا رواج مغل سلطنت قانون اس کی وجہ سے شروع ہوا جس کے تحت کسی قاتل کو موت کی سزا کے ضروری تھا کہ قتل کے لیے خون بہایا ہو ۔ لیکن قتل میں خون نہیں بہا ہو تو انھیں قید ، سخت مشقت اور جرمانے کی سزا بھگتنا پڑتی تھی ۔ یعنی وہ اس طریقہ سے قتل کرکے پھانسی کا خطرہ مول نہیں لیا جاتا تھا ۔
بعض اوقات ٹھگ شکار کو قتل یا قابو میں کرنے کے لیے زہریلے یا نشہ آور اشیا بھی استعمال کرتے تھے ۔ جس میں شکار کی موت یا غنودگی اور بدن کو شل ہوجاتا تھا جس سے گلا گھونٹنا آسان ہوجاتا تھا ۔
ٹھگ شکار کو جہاں قتل کرنا ہوتا تھا پہلے اس جگہ کا انتخاب کرلیا کرتے تھے ۔ وہاں کہیں قریب ہی اس کی قبر بھی کھود لی جاتی تھی ۔ جو کہ عموما راستے سے ہٹ کر جھاڑیوں میں ہوتی تھی اور اطلاع دے دی جاتی تھی کہ قبر تیار ہے ۔ جب قبر تیار ہوتی تو یہ اپنے شکار کو مارنے کے لیے ایک رول کیا ہوا رومال استعمال کرتے تھے ۔ جس کے بیچ میں ایک سکہ ہوتا تھا اور اسے پھرتی سے شکار کے گلے میں اس طرح ڈالتے کہ سکہ اس کے نرخرے پر آجاتا اور رومال کا جھٹکا شکار کی سانس کی ڈوری توڑ دیتا تھا ۔ گلے میں رومال ڈالنے والے کے علاوہ عموماً دو مدگار اور ہوتے تھے ۔ ایک ہاتھ پکڑتا اور دوسرا اس کے پیر کھنچ کر زمین پر گرا دیتا تھا ۔ اس رومال کو استعمال کرنے کے لیے خاص پھرتی اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور قتل کرنے والے ٹھگ کا رتبہ گروہ میں بھی بڑا ہوتا تھا ۔ اسے دوسروں سے زیادہ حصہ ملا کرتا تھا ۔ بعد ازاں لاش سے کپڑے اتار کر مال حاصل کرلیا جاتا تھا اور لاش جلد سے جلد دفن کردی جاتی تھی ۔ اس دوران اگر کوئی اجنبی شخص آجاتا تو جلدی سے لاش پر کپڑا ڈال دیا جاتا تھا اور اس کے پاس بیٹھ کر گریہ و زاری کرتے کہ گویا ان کا کوئی عزیز ساتھی مرگیا ہو اور آنے والے ایک یا دو ہوتے تو انہیں بھی شکار کرلیا جاتا تھا ۔
دہری زندگی
ان ٹھگوں کی دہری زندگی ہوا کرتی تھی اور عام حالات میں یعنی جب یہ اپنے گھروں یا ملازمت پر ہوتے تھے تو اچھے چال چلن کے مالک ، محنتی اور امن پسند ہوا کرتے تھے ۔ کچھ ٹھگوں کے بارے میں معلوم ہوا انہوں نے ٹھگی کا پیشہ چھوڑ کر سپاہی بھرتی ہو کر مختلف پلٹنوں میں تعینات تھے ۔ جب ان کے چال چلن کے بارے میں معلومات کی گئیں تو ان کا چال چلن میں کوئی خرابی پائی نہیں گئی ۔ اس برادری کا ایک مستعد خالق جسے پھانسی دی گئی تھی ۔ وہ بھی ایک سپاہی تھا اور قانون کے مطابق رخصت لے کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ جا ملتا اور ٹھگی اور قتل کی وارداتیں کرنے کے بعد واپس پلٹن میں آجاتا تھا ۔ اس کے چال چلن میں بھی کوئی خرابی نہیں پائی گئی ۔ ان ٹھگوں کو جنہیں پکڑا گیا ان میں سردار جفاکش کاشتکار ، سپاہی اور دوسرے پیشے سے وابسطہ تھے اور اچھی شہرت کے مالک تھے ۔ حلانکہ ان کے مختلف گروہوں نے دور دور تک قتل و غارت اور لوٹ ماری کا بازار گرم کر رکھا تھا ۔
سرپرست
یہ ٹھگ جن علاقوں اور موضعات میں رہتے تھے وہاں کے سرکاری عہدہ دار اور جاگیر دار اکثر ان کے دھندوں سے واقف تھے ۔ مگر ان ٹھگوں سے رقوم اور دوسرے تحفہ بٹورتے تھے اور نہ دینے کی صورت میں انہیں قید اور سولی پر لٹکانے کی ڈھمکی دیتے تھے ۔ ٹھگوں کو بھی ایک محفوظ پناہ کی ضرورت ہوتی تھی ۔ اس لیے وہ ہر مہم یا سفر سے واپس آکر لازماً انہیں کوئی تحفہ یا رقم ادا کرتے تھے اور انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے ۔ مگر یہ ٹھگ اپنی بشتر رقوم ان عہدہ داروں اور جاگیر داوں سے چھپا کر رکھتے تھے ۔ ایسا بھی ہوتا کوئی جاگیردار یا عہدہ دار انہیں یا ان کے خاندان کو قید کرکے ان سے مزید رقوم کا تقاضا کرتا اور نہ دینے کی صورت میں سولی پر چڑھانے کی ڈھمکی دیتا تھا ۔ لیکن یہ اپنی بیویوں سے اپنے ٹھگ ہونے کا ذکر نہیں کرتے تھے ۔ انہیں خوف ہوتا تھا وہ کہیں دوسروں پر یہ راز فاش نہ کردیں ۔
مختلف طریقے
یہ ٹھگ مختلف قسم بھیس بدلنے میں ماہر ہوتے تھے اور مختلف روپوں میں یہ اپنا کام انجام دیتے تھے ۔ یہ ٹھگ اکثر مختلف میں مسافروں کے ساتھ سفر کرتے اور راستہ میں ان مسافروں کو فریب سے زہر کھلا کر یا گلے میں کپڑے کا پھندا ڈال قتل کر دیتے تھے اور ان کا مال و متاع لے کر فرار ہوجاتے تھے ۔ ان میں کچھ گروہ ایسے تھے جو بھکاریوں کو بھی قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے ۔ ان ٹھگوں میں بعض گروہ دولت کے لیے نہیں قتل کرتے تھے بلکہ ان کا مقصد ان کے بچوں کو اغوا کرکے فروخت کے لیے قتل کرتے تھے اور یہ ٹھگ میگھ پونیا کہلاتے تھے ۔ جو ہندی میں میکھ پھندیاں ہے ۔ میکھ یعنی کیل اور پھندیاں پھندے کو کہتے ہیں اور یہ تسمہ باز کے مترادف ہے ۔ تسمہ باز مختلف شعبدہ بازی بھی کرتے تھے ۔ اس سے بھولے بھالے لوگ اور دیہاتی ان کے پھندے میں پھنس جاتے تھے ۔
تسمہ بازی کا طریقے فیتہ دہرا کر کے لپیٹ لیا جاتا تھا اور مہارت یہ ہوتی تھی کہ لپٹے ہوئے فیتہ میں سلاخ اس طرح پڑوتے کہ اگر فیتہ کو کھولا جائے تو سلاخ بیچ میں آجائے اور سرا چھوڑے بغیر سلاخ نہ نکلے ۔ یہ تسمہ باز ٹھگ منگھ پونیا ٹھگوں کی طرح سے ہوتے تھے ۔ ان کے ٹھگنے کا طریقہ ایک ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ کافی نئے نئے طریقوں سے لوگوں کو ٹھگانے لگاتے تھے ۔ جنرل ہروی نے منگھ پونیا کے ٹھگوں کے سات طریقہ ریکارڈ میں لکھے ہیں جو کہ راجپوتانہ میں رائج تھے ۔ 1803ء میں کانپور کی برطانوی رجمنٹ میں ایک گریگ سپاہی نے تین اور سپاہیوں کو تسمہ بازی کا طریقہ سکھایا اور یہ شخص یورپین تسمہ بازوں کا سرغنہ بن گیا تھا ۔ یہ سپاہی چھٹی لے کر لوگوں کو لوٹا کرتے تھے اور چھٹی ختم ہونے پر واپس رجمنٹ میں آجاتے تھے ۔
یہ مجرمانہ پیشہ کسی خاص طبقہ یا مذہب کے لیے مخصوص نہیں تھا ۔ بلکہ ہزاروں افراد جو اس پیشہ سے منسلک تھے ان میں ہر مذہب ، فرقہ اور طبقہ کے لوگ شامل ہوتے تھے اور اس پیشہ میں برصغیر کے کونے کونے سے نئے لوگ بھی شامل ہوتے تھے ۔ 1877ء میں آگرہ کے کہاروں کے ایک گروہ نے ٹھگی کا پیشہ اختیار کرلیا ۔ اس گروہ میں عادی اور نئے دونوں طرح کے لوگ شامل تھے یہ لوگ کھانا پکانا چانتے تھے اور سڑکوں پر سوتے تھے ۔ جس وجہ سے انجام مسافر ان کے پنجے میں پھنس جاتا تھا ۔
یہ ٹھگ عام مسافروں کی طرح سڑکوں پر سفر کرتے تھے اور ان میں اور دوسرے مسافروں میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا ۔ یہ روپ بدلنے کے ماہر اور کئی طرح کے بھیس بدلتے تھے کہ ان پر کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں ہوتا تھا ۔ یہ جب اپنی مہم کے لیے جب سفر کرتے تو علحیدہ علحیدہ بھی اور تین یا چار چار کی ٹولیوں میں بھی ہوتے تھے ۔ اس طرح یہ سب ایک ساتھ ٹولیاں بنا کر نہیں چلتے تھے ۔ ان میں شکار کی قبر کھودنے والے آگے ہوتے تھے ۔ اس طرح راہ میں ملنے والے فقیر یا مسافر بظاہر اجنبی ہوتے مگر ان ہی کے ساتھی ہوتے تھے جو آپس میں مختلف اطلاعات کا تبادلہ یا احکامات وغیرہ دیا کرتے تھے ۔ یہ گفتگو اور اشارے صرف ایک ہی ٹھگ سمجھ سکتا تھا ۔ یہ گفتگو کچھ اس طرح کی ہوتی تھی ، مثلاً قبر کھود لو یا قبر کھود چکی ہے ، خطرہ ہے اور لوگ آرہے ہیں ۔ ان میں موٹی آسامی ہے ۔ اس طرح ان کا آپس میں گفتگو ہوتی رہتی تھی اور شکار کو اس کا پتہ ہی چلتا تھا ۔
یہ شہروں اور قصبوں میں آپس میں ملتے تو اجنبیوں کی طرح اور دوسرا کوئی انہیں شناخت نہیں کرسکتا تھا ۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ بظاہر کوئی ایک ذی رتبہ شخص کسی ریاست کی جانب سفر کر رہا ہوتا تھا اور اس کے ساتھ ملازمین اور محافظ ساتھ ہوتے ۔ دوسرے پیشہ ور جن گانے بجانے والے ، طوائفیوں یا اس کے خاندان کی عورتوں کی ڈولیاں ساتھ ہوتی تھیں ۔ انہیں دیکھ کر تنہا مسافر دھوکہ کھا جاتے اور حفاظت کے خیال سے ان کے ساتھ ساتھ سفر کرتے اور اجل کا نشانہ بنش جاتے تھے ۔ اگرچہ یہ اپنی مہم میں خواتین کو شریک نہیں کرتے تھے اور اپنی بیویوں تک کو اس راز سے آشنا نہ کرتے کہ کسی کو بتا نہیں دیں ۔ اس لیے قافلوں میں شریک خواتین کے علم میں لائے بغیر ساری کاروائی کرتے تھے ۔
بھیس بدلنے کے ماہر
ٹھگ اپنی کاروائیاں چند افراد کی صورت میں سفر کرتے تھے ۔ دوسرے اس گروہ کہ ٹھگ ان کی پیچھے یا کچھ آگے ہوتے تھے یا کسی اور مقام پر انتظار کر رہے ہوتے تھے ۔ ان سب کا آپس میں مسلسل رابطہ ہوتا تھا ۔ یہ پیغام رسانی کے لیے راہ میں آتے جاتے بظاہر مسافر لیکن اصل میں ٹھگ ہوتے تھے کے ذریعے مختلف اشاروں یا اپنی مخصوص بولی میں جسے دوسرے مسافر سمجھ نہیں پاتے تھے بھیجواتے تھے ۔ ایسا بھی ہوتا تھا یہ کسی قافلہ کی شکل میں جس میں کوئی امیر آدمی بڑی شان و شوکت اور سپاہیوں کے ساتھ سفر کر رہا ہوتا تھا ۔ جس کے ساتھ مختلف پیشہ ور اور سپاہی بھی ساتھ ہوتے ۔ نادان مسافر اپنے تحفظ کے لیے ان کے ساتھ سفر کرتے اور نتیجہ میں وہ پھنس جاتے تھے ۔ ان میں سے بہت سے گرفتار بھی کرلیے جاتے تھے ۔ مگر زیادہ تر انفرادی مجرم کی حثیت سے ۔ جس کی وجہ سے ان کے گروہوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی انہیں لمبی سزائیں ملتی تھیں ۔ کیوں کہ انہیں گرفتار کرنے والے اکثر جاگیردار ہوتے تھے ۔ جو کہ ان کے پیشے کو جانتے تھے وہ ان سے دولت کے حصول کے لیے انہیں گرفتار کرتے ۔ اس وہ مال دے کر چھوٹ جایا کرتے تھے ۔ یہ اپنی مہموں کم از دو افراد کے ساتھ اور اس سے بڑی کی قید نہیں ہوتی تھی شریک ہوتے تھے ۔ ہاتھ آئے ہوئے مال میں ہر ٹھگ کو اس کے کام کے مطابق حصہ ملتا تھا ۔ قتل کرنے والا یا پھندا ڈالنے والا زیادہ حصہ کا حقدار ہوتا تھا ۔
فرقے
تھامس پیری Thomas Perry جو 1811 میں اٹاوا تعینات ایسٹ انڈیا کمپنی کا افسر تھا اس کے علم میں آیا کہ ٹھگوں کے بہت سے گروہ ہیں اور وہ اپنے گروہوں سے مختلف ہیں ہیں ۔
ٹھگ گروہ کی شناخت زیادہ تر ان کے پیشوں پر تھی ناکہ علاقائی بنیاد پر ۔ ان کے جمالدی گروہ کا نام اس لئے رکھا گیا تھا کہ اس کے اراکین دریائے جمنا کے کنارے آباد تھے اور وہ دوآب اور اودھ علاقوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ ایک اور بیان کے مطابق اس گروہ کے بانی کا نام جمالدین تھا ۔ تلنگانی ٹھگوں کی ابتدا تلنگانہ سے ہوئی تھی ۔ آرکیٹیوں کی ابتدا آرکوٹ سے ، براریوں کا تعلق برار سے ، لودھا فرقہ جو زیادہ تر بہار میں سرگرم تھا اور ایک ٹھگ کے مطابق یہ ٹھگ کاروانوں بوجھ اٹھانے والے تھے اور ان کا نام بوجھ یا لودھ کے نام پر پڑا تھا ۔ اس دور حکومت میں لودھا بہار ، بنگال اور نیپال کے آس پاس کے خطے میں پائے جاتے تھے ۔ ان کا اصل علاقہ اودھ تھا جو انہوں نے 1700 کے آس پاس چھوڑ دیا تھا ۔ دکن کے ایک ٹھگ نے بتایا تھا دریائے کرشنا کے آس پاس کے ہندو ٹھگ تلنگانی ٹھگوں میں شادی نہیں کرتے تھے اور وہ پست سمجھتے تھے ۔ اس کے علاوہ تلنگانی ٹھگوں کی کھانے کی عادتوں پسند نہیں کیا جاتا تھا اور انہیں ہنڈی وال تمسخر میں کہا جاتا تھا ۔
بنگال کے پنگو یا بنگو نے اپنا نام بنگال کے خطے سے اخذ کیا ۔ اس کے ساتھ لودھی یا لودھا بھی موجود تھے ۔ رام پوریا اس خطہ کے موتھیہ بنانے والوں کی ذات سے تھا اور ان کا نام مٹھی بھر (متھی دینے کے عمل) سے ماخوذ ہے ۔ اترپردیش کے گروہوں میں کوہور کے کور کوریا ، آگرہ کے آگوری ، جمالدی ، لودھی ، ٹنڈلے اور ملتانی کا تعلق ملتان سے تھا ۔
مدھیہ پردیش کے گروہوں میں بنگوری یا بنجارے ، بلھیم یا بلھیمی ، کھوکریہ اور شیپور کے سوپوری تھے ۔ موجودہ راجستھان کے گروہوں میں گوگرا جن کا نام دریائے گھکر سے نکلا ہے جو دھنک گروہ کا حصہ تھے ۔ موجودہ مہاراشٹرا میں دھولنی گروہ تھا۔ دکن کے دکنیوں کا تعلق منیرآباد اور کارناٹک کے علاقہ سے کرناٹکیوں کا تعلق تھا ۔ ایک گروہ کٹورے تھے جن کا نام کٹھوٹا نام کے کٹورے سے نکلا ہے ۔ جس کو ایک شخص میں رسموں میں استعمال کیا تھا ۔ قلندر نام کا گروہ قلندر نامی مسلمان فقیروں سے اخذ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ جوگی ٹھگ بھی تھے جو بارہ ذیلی گرہوں میں تقسیم تھے ۔
فرنگیہ کے مطابق پرہار کے گائوں تھنگور کے برہمنوں کو میگی کے بادشاہوں کے ساتھ دہلی آنے کے بعد ٹھگی کی تعلیم دی گئی تھی اور اس کو آس پاس کے علاقے میں پھیلانے میں مدد ملی ۔ اس کے دو آباؤ اجداد نے تقریبا سات نسلوں قبل مورنا کے برہمنوں کے ساتھ سکونت اختیار کی تھی اور ان میں شادی کی تھی اور انہوں نے اس علاقے میں ٹھگی کو متعارف کروایا تھا ۔ شکوہ آباد سے تعلق رکھنے والے ایک ٹھگ نے اپنے گروہ کے بارے میں روایت سنائی کہ منہاروں نے افغانوں ، میواتیوں اور شیخوں کی بے پناہ لوٹ مار نے ٹھگوں کو متاثر کیا ۔
سلیمن نے 1839 میں میپونائسی Meypunnaists کے ایک گروہ کے بارے میں بتایا تھا کہ انھوں نے بچوں فروخت کرنے کے لئے اغوا کرتے تھے ۔ 1802 میں کانپور میں تعینات ایک برطانوی فوجیوں نے تاشمبازوں” Tashmabazes نام سے ان کی شناخت کی تھی ۔ دریائی ٹھگوں کے گروہ کا جنوبی بنگال کے خطے میں بہت گہرا اثر تھا ۔
تھگی کے بارے میں برطانوی نقطہ نظر محض بھوانی کے پرستاروں کے ذریعہ قتل عام کی ایک شکل کے طور پر تھا۔ سلیمن اس کو ہندو مذہب کا ایک ناقص عقیدے کے طور پر دیکھا ۔ یہ نکتہ نظر اس وقت کے برطانوی نظریے پر مبنی تھا جو بت پرستی کے ایک حقیر اور غیر اخلاقی عقیدے کے طور دیکھتے تھے ۔ 1820میں شائع ہونے والے ایشیاٹک ریسرچس میں آر سی شیروڈ R. C. Sherwood نے اس واقعے کو ہندوستان کی مسلمان فتوحات کی طرف واپس لے جانے کی بات کی ہے اور ہندو متکلموں سے ربط رکھنے کی تجویز دی ہے ۔ چارلس ٹریولین Charles Trevelyan ان کو ہندو مت کے کا نمائندہ سمجھا جس کو وہ “برائی” اورباطل ” سمجھتے تھے ۔ سلیمن نے کچھ برہمنوں کو ٹھگوں کو اطلاعات فراہم کرنے والے خیال کیا اور یہ دعوی کیا کہ انہوں نے ٹھگی سے فائدہ اٹھا کر انہیں ہدایت کی اور بڑے پیمانے پر اپنے حصہ وصول کیا ۔
زہر دینے والے
زہر دینے والوں کی دو یا تین افراد آٹھ دس مسافروں کو بڑی مہارت سے ہلاک کریا کرتے تھے ۔ ان کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ وہ سفر پر روانہ ہوتے تھے ۔ راہ میں دوسرے مسافروں کی ٹولی مل جاتی تھی اور یہ ان کے ساتھ سفر کرتے تھے ۔ چند دنوں کے سفر کے بعد یہ ان سے تعلقات بڑھاتے اور اپنی باتوں سے ان کو رجھاتے ۔ ان سے اپنے مسلے مسائل بیان کرتے اور ان سے مشورہ کرتے ۔ اس طرح کے مسلے مسائل سنتے اور ان کو بھی مخلصانہ مشورے دیتے ۔ ان اپنی کسی شادی میں مدعو کرتے ۔ یہاں تک وہ ان پر اعتماد کرنے لگتا تھا ۔ پھر وہ کھانا یا کسی مٹھائی میں زہر ملا کر انہیں دعوت دیتے تھے ۔ دوسرے مسافر ان کا خلوص دیکھ کر انکار نہیں کرتے تھے اور وہ مٹھائی یا کھانا کھالیتے اور موت کی نیند سوجاتے تھے ۔ اکثر زہر دینے کا کام اس گروہ کی بوڑھی عورتیں یا مرد انجام دیتے تھے ۔ یہ زہر دھتورے کے بیجوں کا نہایت مہلک زہر ہوتا تھا ۔
ایک ٹھگ کی کہانی
کرنل سلمین کو ایک ایسے ٹھگ جسے معافی مل چکی تھی بتایا کہ میں جے پوری سپاہی کے قتل کے بعد تقریباً چالیس یوم تک گھر پر رہا اور ٹھگوں کی ایک ٹولی کے ساتھ روانہ ہوا ۔ ہم نے موسم برسات میں کونڈو سے شکار کی تلاش میں سفر شروع کیا اور دو ٹھگ آدھار اور مکدی نے جن میں مکدی جو نہایت ہوشیار تھا ایک شخص کا اعتماد حاصل کرلیا ۔ یہ مسافر لاہور کا ایک راجپوت تھا اور اپنے وطن واپس جارہا تھا ۔ اسے مکدی نے ایک بنیے کے مکان میں ٹہرایا اور رات وقت جب سو رہا تھا اسے جگایا اور اسی وقت سفر کے لیے روانہ ہونے کو کہا تو وہ راضی ہوگیا ۔ وہ روانہ ہوگئے مگر راستہ میں وہ آدھار اور مکدی سے بدک گیا اور ان سے کہا تم لوگ ٹھگ لگتے ہو میرے قریب نہیں آؤ ۔ میں نے مخصوص ٹھگی زبان میں کہا الگ چلے جاؤ اسے تم پر شبہ ہوگیا ہے ۔ دونوں ہمارے آگے روانہ ہوگئے ۔ مسافر نے مجھ سے اپنا شبہ بیان کیا اور کہا کہ ہم دونوں کو ساتھ چلنا چاہیے ۔ میں نے اس سے اتفاق کیا اور دونوں ساتھ چلنے لگے اور وہ جب کہ چل رہا تھا کہ میں نے بڑبڑاتے ہوئے مکدی کو اپنی مخصوص زبان میں سامنے درخت کے قریب آنے کے لیے کہا جو کہ مجھ سے کچھ آگے چھپ کر چل رہا تھا ۔ جب وہاں پہنچ کر میں جھکا کہ میرے پیر میں کچھ چپھ گیا ہو اور اور اس کے پیچھے سے گلے میں رومال ڈال کر اس کا گلا گھونٹ دیا ۔ جیسے ہی میں نے اس کے گلے میں رومال ڈالا مکدمی نے اس کی ٹانگیں پکڑ کر کھنچ لیں اور وہ مزاحمت بھی نہیں کرسکا ۔ ہم نے نعش ایک ایسے مقام پر پھنک دی جہاں پانی نہیں تھا تاکہ اسے گیڈر کھاجائیں ۔ اس بعد ہم دو ٹولیوں میں بٹ گئے اور مدار اور میں ایک طرف نئے شکار کی تلاش میں روانہ ہوگئے ۔ ہم نے اسی روز ایک اور گھسیارا ملا جو ٹٹو پر سوار تھا ہم اس کے ساتھ روانہ ہوگئے ۔ ٹٹو پر اس کا شکار نہیں کیا جاسکتا تھا اس لیے اسے ٹٹو پر سے اتارنے کے لیے مدار نے بہانہ کیا کہ اسے قے آرہی ہے اور پیٹ پکڑ کر قے کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔ میں نے گھسیارے کو کچھ دیر ٹہرنے کو کہا کہ اس کی طبعیت بہتر ہوجائے ۔ وہ راضی ہوگیا اور ٹٹو سے اتر کر ایک جگہ بیٹھ گیا ۔ میں اس کی پشت پر گیا اور رومال گلے میں دال کر جھٹکا دیا اور مدارا نے اس کے پیر کھنچے ، وہ مزاحمت نہیں کرسکا اور دم توڑ دیا ۔ پھر ہم نے اس کی لاش ایک کنوئیں میں پھنک دی ۔ جہاں پہلے بھی میں پندرہ یا سولہ مسافروں کو پھنک چکا تھا اور اس کنوئیں سے ان کی ہڈیاں نکالی جاسکتی ہیں ۔ اس کے بعد ہم گھر واپس لوٹ گئے ۔ کیوں کہ ہمیں تقریباً ایک ماہ سفر میں ہوچکے تھے ۔ ان دو وارداتوں میں مجھے پچاس روپیے ملے ۔ کیوں کہ جو شخص جو گلا گھونتا ہے اسے ہمشہ سب سے زیادہ حصہ ملتا ہے ۔
دریائی ٹھگ
یہ ٹھگ ہندو یاتریوں اور دوسرے مسافروں کو بندیل کھنڈ اور اودھ کے علاقہ میں گنگا ندی میں سفر کے دوران لوٹ مار اور قتل کی وارتیں کرتے تھے ۔ ان ٹھگوں کی زبان رمسی زبان سے الگ زبان جو کہ اس علاقہ کی زبان سے مختلف تھی ۔ یہ ٹھگ کشتیاں کھارک بابو نامی جمدار سے کرائے پر حاصل کی جاتی تھی ۔ سلیمن کا کہنا ہے کہ یہ قتل کا اشارہ تین دفعہ دیتے تھے ۔ یہ رقم ، زیور اور دوسرا قیمتی سامان لوٹ لئے لاش کی کمر توڑ کر مگر مچھوں کے کھا نے کے لئے دریا میں پھینک دیا کرتے تھے تاکہ سوراغ نہیں ملے ۔
ارکاٹی ٹھگ
کرپا و چتور اور شمالی اوڑیسہ اور جنوبی ہند میں ٹھگوں کی ایک جماعت تھی جو کہ ارکاٹی ٹھگ کہلاتے تھے ۔ ان کے چار مشہور سردار شیخ احمد ، ایمن صاحب ، ہورنور صاحب اور حیدر خان تھے اور ان کی سردگی میں ضلع ملی پٹم کے موضعوں میں حیدرآباد کے سرحدی مقام مونگل سے ایلور کی شمالی جانب ایک منزل کی مسافت کے موضع تک اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی تھے ۔ ان ٹھگوں میں سے اکثر لوگ جفاکش کاشتکار ہونے کی وجہ سے نیک نام تھے ۔ تیرہ سال کی مدت کے دوران ان گروہوں نے اپنے موضعوں کے اطراف تین سو میل کے اندر ملک کی تمام بڑی بڑی شاہراؤں پر قتل و غارت کے کام کو جاری رکھا اور اس قتل و غارت سے انہوں نے کثیر رقمیں حاصل کیں ۔ ان کی کچھ وارداتوں کا علم ہوا ۔ جس کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
ٍ ضلع باندہ میں مقیم ہونے کے بعد ان کا سب سے پہلا مال غنیمت چودہ ہزار روپیوں کی ایک رقم تھی جو کہ پانچ اشخاص کو قتل کرکے حاصل کی گئی تھی اور یہ مال بندر کے ایک تاجر کا تھا جو اسے حیدرآباد روانہ کر رہا تھا ۔ اس واقع کے بعد تقریباً چودہ سال بعد انہوں نے ایک واردات میں چار افراد کو قتل کرکے چھ ہزار روپیوں کی ایک رقم حاصل کی جو کرپا کے ایک تاجر کی تھی ۔ پھر اسی مقام کے قریب ایک سال بعد ان کی مٹ بھیڑ پانچ خزانہ برداروں سے ہوئی ، جن کو قتل کے بعد انہیں آٹھ ہزار کی ایک رقم اور ملی ۔ اس کے دس سال بعد انہوں نے ایک مغل گھوڑوں کے سوداگر کو جس ہمراہ چار افراد تھے اچانک آ گھیرا اور سب کو قتل کرنے پر تین ہزار مالیت کا مال غنیمت حاصل کیا ۔ یہ ان کچھ وارداتیں ان کی وارداتوں کا معمولی حصہ ہیں جن کا ان ٹھگوں کے اس گروہ نے ارتکاب کیا تھا ۔ قتل کی کچھ ہی وارداتوں کا علم احکام کو ہوسکا تھا ۔ ان بیان کے مطابق یہ اپنی گرفتاری پہلے ساٹھ واداتیں کرچکے تھے ۔ ان وارداتوں میں ایک سو ستر افراد ان کے شکار بنے اور پچاس ہزار کی مالیت کا مال ان کے ہاتھ آیا تھا ۔ ٹھگوں کا یہ گرہ اپنی کاروائیاں مزید جاری رکھتا اگر ایک وعدہ معاف ٹھگ ان کی اطلاع نہیں دیتا ۔ کچھ عرصہ بعد ان کی تمام آبادی جو ساٹھ افراد پر مشتمل تھی گرفتار کرلیا گیا ۔
اس گروہ کی گرفتاری کے بعد ضلع دیزیگاپٹم میں مسلمان ٹھگوں کی ایک بستی کا علم ہوا ۔ ان مسلمان ٹھگوں سے ضلع باندرہ کے ٹھگ راہ میں دو تین مرتبہ ملے تھے ۔ اس طرح انہیں صرف ان مسلمان ٹھگوں کا علم ہوا تھا ۔ مگر یہ بستی کب سے قائم ہے انہیں اس بارے نہیں معلوم تھا ۔ جب اس بستی کے ٹھگوں کو حراست میں لیا گیا تو تو معلوم ہوا تقریباً بیس سال پہلے ان کی تعداد ساٹھ اور ستر کے درمیان تھی ۔ لیکن اب ان کی تعداد گھٹ کر بارہ رہ گئی تھی ۔ کیوں کہ اس گروہ کے اکثر جوان سپاہی بھرتی ہو کر مختلف پلٹنوں میں تعینات تھے ۔ جب ان سپاہیوں کے چال چلن کے بارے میں معلوم کیا گیا تو ان کے بہتر چال چلن کی پلٹنوں نے تصدیق کی ۔ پہلے ذکر ہوچکا ہے ایک ٹھگ جو سپاہی تھا اور ٹھگی کی وارداتیں بھی کرتا تھا اس کا تعلق اسی برادری سے تھا ۔
گروہ کے ایک ضعیف ٹھگ نے بتایا کہ ان کے اجداد اور کئی افراد کے ساتھ ہندوستان (شمالی ہندوستان) سے آئے تھے اور وہ ابتدا میں تین سرداروں کے تحت تھے ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اجنبیوں کو اپنے گروہ میں شامل نہیں کرتے ہیں ۔ اس گروہ کے ٹھگوں کو لوٹ کھسوٹ کا مال کبھی بڑے پیمانے پر نہیں ملا ۔ اگرچہ یہ نہایت سنگ دل قاتل تھے ، جو ضعیف یا عمر کا خیال کرتے اور نہ ہی ان فرقوں یا ان لوگوں کا احترام کرتے تھے جن کا قتل کرنا دوسرے ٹھگوں کے نذدیک ایک سنگین جرم ہے اور وہ نہ ہی شگونوں اور کدال کو نہیں ماتے تھے ۔ ٹھگوں کے اس گروہ کو ارکاٹی ٹھگ اچھا نہیں خیال کرتے تھے وہ انہیں منحوس سمجھتے تھے ۔ ان ٹھگوں نے بڑی تعداد میں قتل کیے ۔ 1825ء سے 1835ء کے درمیان اپنی گرفتاری تک انہوں نے ٹھگی کی چالس واردتیں کیں اور اسی افراد کو قتل کیا ۔
امیر علی ٹھگ
برطانوی حکام کو کبھی کبھار مختلف ذرائع معلومات جن میں نیوز لیٹرز یا ایشیاٹک سوسائٹی کے ایشیٹک ریسرچز جریدے کی اطلاعات پر کچھ ٹھگوں کو گرفتار کیا اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ۔ لیکن سلیمن پہلا شخص ہے جس ٹھگوں کے بارے میں ایک گروپ سے حاصل کردہ معلومات کو دوسرے ضلعوں میں ٹھگوں کی کھوج اور شناخت کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ۔ اس کی پہلی اہم پیشرفت “فرنگیہ” جسے سید امیر علی ، خدا بخش Deahuct Undun and Daviga Persaud بھی کہا جاتا ہے کی گرفتاری تھی ۔ جس کے انکشافات نے بنیادی ثبوت فراہم کیا ۔ فرنگیہ کی کہانی 1839 کے کامیاب ناول کنفیکشنس آف ٹھگ کی اساس تھی ۔ فرینگیہ نے سلیمن کو ایک سو لاشوں کے ساتھ ایک اجتماعی قبر پر لے آیا ، اسے ان قتلوں کی تفصیل اور ان قتلوں میں حصہ لینے والے ٹھگوں کا نام بتایا ۔
ٹھگوں کے بارے میں اردو بلکہ برصغیر کے زبانوں میں کم لٹریچر ملتا ہے ۔ بلکہ ہے نہیں یہ کہنا درست ہوگا ۔ کیوں کہ اردو میں جو کچھ لٹریچر ہے انگلش لٹریچر کا ترجمہ ہے ، جو کہ مختلف انگریزوں نے لکھیں تھی ۔ ان میں ایک اہم کتاب امیر علی ٹھگ جو کرنل میڈوز ٹیلر لکھی تھی ۔
کرنل میڈوز ٹیلر پولیس سپریٹنٹ تھا ۔ ان کے پاس اکثر ایسی رپوٹیں آتی تھیں کہ سڑکوں کے کنارے پھانسی پر لٹکے ہوئے آدمیوں لاشیں ملتی ہیں ۔ لیکن مجرموں کا سرواغ نہیں ملتا ہے ۔ وہ قاتلوں کی ٹوہ میں لگے رہتے اور تمام عمر افسوس رہا کہ اس معمے کو حل کرنے سے پہلے ان کا تبادلہ ہوگیا اور انسداد ٹھگی کا سہر کرنل سلیمن کے سر رہا ۔
کرنل میڈوز ایسٹ انڈیا کمپنی کا اہلکار نہیں بلکہ حیدرآباد کی ریاست میں ملازمت کرتا تھا ۔ اس نے دوران ملازمت ریاست حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں مختلف عہدوں پر رہا تھا ، اس نے کئی برس شوراپور میں گزارے اور ریاست کے بعض علاقوں کا انتظام سنبھالا ۔ ملازمت کے دوران اس کا واستہ ۳۰۔۱۸۲۹ء کے لگ بھگ میڈوز ٹیلر کا واسطہ ٹھگوں سے پڑا ۔ جب کیپٹن سلیمن نے ٹھگوں کی سرکوبی کا بیڑا اٹھایا اور وسطی ہندوستان کے علاقہ میں ٹھگ پکڑے گئے تو میڈوز ٹیلر شہادت جمع کرنے کے لیے اپنی خدمات راضاکارانہ طور پر پیش کیں تھیں اور قتل و غارت گری کی داستانیں سن سن کر دستاویزات تیار کرتا رہا ۔ اسے اس بعد کا صدمہ تھا کہ اس کے جانے پہچانے علاقوں میں بہت سے ایسے افراد ٹھگ اور ٹھگوں سے متعلق نکلے جن کہ بارے میں اسے شک تھا لیکن وہ ان کے جرائم کا خاتمہ کرکے شہرت حاصل نہ کرسکا ۔
اس ناول کا ہیرو خود ٹھگ تھا جس کے اعترافات اس نے خود سنے تھے اور اس کے بارے میں میڈوز ٹیلر لکھتا ہے کہ یہ اعتراف نسانیت کی مختلف النوع دستاویزات کا ایک عجیب و غریب اور خوفناک صفحہ تھے ۔ اس میں میڈوز ٹیلر نے آدمی کا روپ دیکھا اور دیکھایا وہ اس کردار کی اصل صورت ہے ۔ ہم ٹھگوں کی سفاکی پر حیران ہوتے ہیں اور ان کی ہوشیاری و چالاکی پر تعجب کرتے ہیں ۔ امریکی مورخ تھامس Thoimas Metealf نے اپنی کتاب Indeologies of th Raj نے یہ نکتہ اٹھایا کہ ٹھگی کی ہولناکیوں کا بیان برطانوی راج کے لیے بہت افادیت رکھتا تھا ۔ ٹھگی کے بیان سے اس تصور کو مظبوط کیا جاتا ہے کہ ہندوستانی ناقابل اعتبار اور دغاباز ہیں ۔ اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ٹھگی منعظم و باضابطہ طریقہ نہیں تھا اور نہ ٹھگوں کو دوسرے چور اچکوں اور ڈاکوں لٹیروں سے ممتاز کیا جاسکتا تھا ۔ ٹھگی کا تصور یوں مقبول ہوا کہ اس کے ذریعے انگریز اپنی گھبراہت اور خوف اور پریشانی کو ایک باقیدہ شکل دے سکتے تھے ۔ ان کو ہندوستان میں قدم قدم پر فریب اور دھوکہ نظر آتا تھا ۔ ہندوستان میں وہ سب سے زیادہ اس بات پر خائف تھے کہ اپنے محکموں کو پوری طرح جاننے اور ان پر مکمل قابو کرکے سے قاصر تھے ۔ ٹھگی ان کے لیے اس خوف کی علامت بن گئی ۔ اپنی پریشانیوں کو ٹھگوں سے منسوب کرکے اور پھر اس پورے گروہ کا قلع قمع کرکے وہ در اصل اس قوت کو اس حد تک پابند کرنا چاہتے تھے اور اپنے کو یقین دلانا چاہتے تھے کہ وہ بلا شرکت ہندوستان کی تقدیر کے مالک ہیں ۔
امیر علی کہتا ہے کہ گڑ کھایا ہوا ٹھگ کے لیے ممکن نہیں ہے کہ ہاتھ میں آیا ہوا شکار جانے دوں ۔
امیر علی کا باپ امیر علی سے کہتا ہے میں ٹھگ ہوں اور ایسے متبرک پیشے سے تعلق رکھتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کی بے عیب مصلحتوں کو پورا کرنے کے لیے زمانہ قدیم سے منتخب بندوں کو تعلیم دیتا چلا آیا ہے ۔ اس کو اختیار کرکے ہندو اور مسلمان ایک ہوجاتے ہیں ۔ ان میں بے اعتقادی کا وجود نہیں رہتا ہے ، تنہا یہی ایک کارنامہ اس پیشہ کے منجانب اللہ ہونے کا ثبوت ہے ۔ کیوں کہ ہم لوگوں کے علاوہ تم دنیا میں صحیح اعتقاد اور کہاں ملے گا ؟ مجھے دنیا میں کسی شعبے میں اعتقاد کا وجود نہیں ملتا ہے ۔ ہر شخص اپنے ہمسایہ کو فریب دینے میں مشغول ہے ۔ میں نے دنیا کی سیاہ قلبی سے بچ کر اپنے عقیدہ میں پناہ لی ہے اور اس میں امن اور اطمنعان پاتا ہوں ۔ اس پر دھیان کرکے میری روح تازہ دم ہوجاتی ہے ۔ ہم میں سے چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا یکساں مستفرق رہتا ہے ۔
جہاں چاہو چلے جاؤ ہماری ایک برادری ملے گی ۔ ملک کے مختلف حصوں میں رسم و رواج کا اختلاف ہوسکتا ہے مگر دل سب کے یکساں ہیں ، سب کا مقصد ایک ہے اور سب ٹھگی کے اعلیٰ اعراض و مقاصد کو پورا کرنے کے جذبے کے پابند ہیں ۔ ہم جہاں بھی چلے جائیں ہمارے لیے گھروں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ۔ ہمارا خیر مقدم ایسی قوموں کے آدمی کرتے ہیں جن کی بولی ہم سمجھتے نگر شناخت کرنے اور پہنچانے کے نشانات ان کے اور ہمارے ایک ہی ہیں ۔ ان لوگوں میں رہ کر ہی میری طرح میرے اس دعوے کی تصدیق ہوسکتی ہے ۔ کیا بغیر تائید غیبی کے ایسا کرشمہ ممکن ہے ۔ انسان کے طباء جداگانہ اور ایک دوسرے کے ضد واقع ہوئے ہیں اور ہمارے ملک کی معاشرتی حالت ایسی ابتر جاہلانہ بلکہ وحشیانہ ہے کہ امداد غیبی کے بغیر دلوں میں یہ کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی ہے ۔
ابتدا میں اس پیشے میں کی ہدایتوں پر عمل کرنے میں کس قدر کراہیت معلوم ہوتی ہے مگر تھوڑے دنوں کے بعد جاتی رہتی ہے ۔ کیوں کہ جن انعامات کا اللہ نے وعدہ فرمایا ہے ایسے اعلیٰ اور عمدہ ہیں کہ ان کے حصول کے ذرائع کو اختیا کرنے میں کسی کو ایک لمحہ کو ترد نہیں ہوسکتا ہے ۔ اس کا دوسرا انم تقدیر ہے جس کو آخری فیصلہ کہتے ہیں ۔ کسی کی مجال ہوسکتی ہے کہ جو اس سے انحراف کرسکے ۔ جب وہ خود اس کام کو کرنے کی دعوت دیتا ہے تو ہم کو مظبوط اور بہادر قلب عطا فرماتا ہے اور ہمارے ارادوں کو ایسی پختگی بخشتا ہے کہ دنیا کی کوئی مخالف قوت ان کو مسخ کرسکتی ہے ۔ اور طبعیت کو ایسا استقلال ودیعت فرماتا ہے جو کبھی ہاتھ سے ہلا نہیں سکتا ہے ۔
دسہرے کو عوام کی طرح ٹھگ بھی متبرک سمجھتے ہیں ۔ پہلے فوجی مہوں میں ابتدا اس زمانے میں کی جاتی تھیں ۔ ٹھگوں کا دستور ہے کہ بڑے بڑے معاملات انہی دنوں میں طہ ہوتے تھے ۔ اس وقت برسات رک چکی ہوتی ہے اور رکے ہوئے ملتوی شدہ کاموں کو ملتوی کرنے میں رکاوٹوں کا اندیشہ نہیں ہوتا ہے ۔ لوٹ اور غارت گری کا یہ خاص فصل ہے ۔ کیوں کہ مسافر گھروں سے نکل کر لمبے سفر اختیار کرتے ہیں ۔ ٹھگوں کے نزدیک خصصیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دسہرہ کا تعلق براہ راست بھوانی سے ہے اور بھوانی ٹھگوں کی معاون اور سرپرست دیوی ہے ۔
ٹھگ مسلمان ہونے کے باوجود دسہرے کی حرمت مانتے ہیں جہ اس مقدس پیشہ کو ہندو دھرم سے خاص تعلق ہے اور ٹھگی کے فن میں ہندو ہمارے استاد ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ ہندو مت قدیم ہے اور اس کے اندر ایسی باتیں موجود ہیں جن کو قبول کرنے سے ایک دین دار مسلمان کو قباحت نہیں ہوتی ہے ۔ ان کا مذہب اور طریق عبادت اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور کوئی مسلمان مذہب تبدیل کر کے ہندو ہونا پسند نہیں کرے گا اور ٹھگی نام ہے اس ذریعہ کا جس سے اللہ تعالیٰ اپنی مصلحتوں کو پورا کرتا ہے ۔ ٹھگی کا پیشہ نہایت قدیم ہے اور جن لوگوں کے مقسوم میں ٹھگ ہونا لکھا ہے وہ اس کو پسند کریں یا نہ کریں مگر اسو کو اختیار کرنے پر مجبور ہیں ۔ ان وجوہ سے ہندوؤں کے ساتھ اشتراکی عمل کوئی گناہ نہیں ہے ۔ ہم صرف ایک تہوار دسہرہ کو مانتے ہیں وہ بھی اس لیے کہ یہ زمانہ ہمارے لیے موزوں اور فائدہ مند ہوتا ہے ۔ اور ہنود کا نہایت مقدس اور قدیم تہوار ہے ۔
ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ جب دنیا قائم ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک پیدا کرنے والی قوت اور دوسری فنا کرنے والی بنائی ۔ اس وقت سے دونوں میں مخالفت چلی آرہی ہے ۔ تخلیقی قوت نے نہایت تیزی سے زمین پر آدمی بسانے شروع کیے تاکہ فنا ہونے والی قوت مقابلہ نہ کرسکے ۔ لیکن ہر چند اس کو مقابلہ کرنے کی اجازت نہ تھی لیکن اس معاملے میں آزاد تھی کہ فنا کرنے ۔ چنا نچہ اس تخلیقہ قوت کی بیوی نے جو بھوانی اور کالی وغیرہ کے نام سے مشہور ہے ۔ منجملہ دیگر مورتیوں کے ایک مورت بنائی اور اس کو بنانے کے بعد اس میں جان ڈالنے کی اجازت ملی ۔ ۔ اس نے اس مورت میں جان ڈالی اور اپنے پجاریوں کو جمع کرکے اس کا نام ٹھگ رکھا اور ان لوگوں کو ٹھگی کا فن سکھایا اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ فن قدیم ہے اور برقرار رہے گا اس نے اپنی بنائی ہوئی مورت کو اسی طریقہ جو اب تک ٹھگوں میں رائج ہے مار ڈالا ۔ اس کے علاوہ ٹھگوں کو غیر معمولی ذہانت اور پھرتی عطا کی تاکہ وہ انسانوں کو بآسانی فریب دے کر فنا کرسکین ۔ اس کے بعد اس نے اسے زمین پر اتار دیا اور ان کی محنت کا معاوضہ تجویز کیا کہ وہ لوگ مقتولوں کے مال و اسباب کے وارث ہوں گے ۔ ان کو یہ بتایا گیا تھا کہ مقتولوں کی لاشیں چھوڑ دیا کریں دیوی ان کو خود اٹھا لیا کرے گی ۔ اس طریقہ پر ایک زمانے تک عمل ہوتا رہا ۔
اس طریقہ پر ایک زمانے تک عمل ہوتا رہا اور وہ ٹھگوں کو انسانی قوانین سے بچاتی رہی ۔ ٹھگ اپنے اپنے مقام پر ثابت قدم رہے ۔ مگر امتداد زمانہ سے ان کی نیتوں میں فتور آنے لگا ۔ یہاں تک ایک موقع پر ڈاکوؤں کے کسی گروہ نے کسی کو قتل کیا ۔ یہ لوگ بہت بہادر اور جھان بین کرنے والے تھے ۔ اس لیے بجائے لاش کو حسب دستور وہیں چھوڑ کر آتے جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھ گئے کہ لاش کو کون اٹھا کر لے جاتا اور کہاں لے جاتا ہے ۔ ان کی عقل میں یہ بات نہیں آئی کہ غیب سے کوئی فانی کس طرح چھپ سکتا ہے ۔ چنانچہ دیوی نے انہیں اپنے پاس آنے کا حکم دیا ۔ یہ لوگ اس کا روشن اور رعب دار چہرہ دیکھ کر سمجھ گئے کہ دیوی ہے ۔ اس لیے شدید انتقام کے ڈر سے بھاگ کھڑے ہوئے مگر اس نے ان کے قدم زمین پر پکڑ لیے ۔ دیوی نے ان کو بہت کچھ ملامت کیا اور کہا تم نے اپنی آنکھوں سے میرے درشن کرلیے یعنی ایسی قوت پر تمہاری نگاہیں پڑھیں ہیں ، جس کو کوئی اور فانی ذات دیکھتی تو زندہ نہ رہتی ۔ لیکن میں تم کو جان بخشتی ہوں ۔ البتہ آئندہ تمہارے مقتولوں کی لاشیں اٹھانے کا وعدہ نہیں کرتی ہوں ۔ اب تم خود انہیں اٹھاؤ گے اور اپنی حفاظت کرو گے ۔ اب تم ہر موقع پر بچ نہیں سکو گے ۔ اہل زمین تم کو گرفتار کریں گے یہی تمہاری سزا ہے ۔ میری یہ بد دعا دنیا کہ آخری دور تک تمہارے ساتھ رہے گی ۔ ہاں اپنے کاموں میں شگون لے کر تم میری مرضی معلوم کرسکو گے ۔ یہ کہہ کر دیوی غائب ہوگئی اور ان کو اپنی حماقت اور ناواجب جرات کا خمیارہ اٹھانے کے لیے زندہ چھوڑ گئی ، لیکن وہ ان کی حمایت سے قطعی دست بردار نہیں ہوئی ۔ ایسا سنا جاتا ہے کہ مقتولوں کی لاشوں کے پتے لگ گئے ہیں اور قاتل ٹھگوں کی سراغ رسانی ہوئی ہے ۔ لیکن میرے علم میں کوئی ایسی مثال نہیں ہے ۔ میرا عقیدہ ہے ایسے واقعات ان لوگوں کے ساتھ پیش آتے ہوں گے جنہوں نے بھوانی کو قربانی چڑھانے اور شگون لینے میں غفلت کی ہوگی اور اس کو ناراض کردیا ہوگا ۔
اب تم اندازہ ہوا ہوگا کہ ہماری برادری میں جو قاعدے اور رسوم جاری ہیں ان پر سختی سے عمل کرنا کس قدر ضروری ہوتا ہے اور ان میں کمی بیشی کرنے یا غفلت کرنے سے دیوی کے روٹھنے کا اندیشہ رہتا ہے ۔ ان باتوں کو ماننے سے ہمارے عقائد میں کوئی فرق نہیں آتا ہے ۔ ہم اللہ رسول کے احکام پر چلتے ہیں ۔ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں اور دین کے احکام پر پورے کرتے ہیں ۔ ہم بت پرست نہیں ہیں ۔ ہم لوگ ہندوستان پر حملہ آور ہونے کے زمانے سے ٹھگوں میں شامل ہیں ۔ اگر یہ فعل اللہ رسول کی مرضی خلاف ہوتا تو بیشک اب تک ہم پر عذاب نازل ہوتا ۔ ہمارے منصوبے بے شکست ہوتے ، ہماری کوششیں بے ہوتیں ۔ اور ہماری زندگیاں دوبھر ہوتیں بلکہ ٹھگی اور ہندو ٹھگوں سے ہمارے تعلقات ختم ہوجاتے ۔
ٹھگ کے گروہ میں شامل کرنے کے لیے غسل کے بعد نئے کپڑے پہن کر دوسرے ٹھگوں کے سامنے پیش ہوتا ۔ وہاں دوسرے ٹھگوں سے منظوری لی جاتی اور پھر سب کھلے آسمان تلے آتے ۔ وہاں آسمان کی طرف منہ اٹھا کر بھوانی کو بلند آواز سے پکارا جاتا ۔ اے بھوانی ! سنسار کی ماتا ، ہم تیرے پجاری ہیں ۔ اس چاکر کو قبول کرکے اپنی حفاظت میں لے اور ہم کو شگون دے تو نے ہمارا ہدیہ قبول کیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد الو کے بولنے کی آواز آئی ۔ ٹھگوں نے بھوانی کی جے ، بھوانی کی فتح کے نعرے بلند کرتے ہیں اور ٹھگ کو مبارک باد جاتی تھی کہ بھوانی نے اسے قبول کرلیا ۔ بہت اچھا شگون دیکھنے میں آیا ۔ تمہاری قربانی دیوی نے قبول کرلیا ۔
پھر واپس کمرے میں واپس آتے ہیں اور شامل ہونے والے ٹھگ کو ایک رومال تبر پیش کیا جاتا ہے ۔ تبر تھگوں کا مقدس نشان ہے ۔ ٹھگ اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر سینے پر رکھ کر قسم کھاتا اور پھر بایاں ہاتھ آسمان پر بلند کرکے دوبارہ وہی قسم کھا کر دیوی سے عرض کرتا ہے ۔ میں تیری سیوا کرکے اپنی جان پیش کرتا ہون اس کو قبول کر ۔
پھر مجھے تیسری مرتبہ وہی قسم قران شریف اٹھا کر لینی پڑی اور ایک ڈلی گڑ یا میٹھی شکر کی کھائی اور اس طرح میری شمولیت کی رسم کا خاتمہ ہوا ۔
حاضرین نے مبارک بادی اور والد نے فرمایا بیٹا تو نے جو پیشہ آج اختیار کیا ہے وہ دنیا کے قدیم ترین پیشوں میں ہے اور عالم غیب اور مقبول ہے ۔ تو نے وفاداری ، شجاعت اور رازداری کا حلف اٹھایا ہے اور اس بات کا عہد کیا ہے کہ ان لوگوں کے علاوہ جو مستنیٰ قرار دیئے جاچکے ہیں ، جو شخص اتفاق سے یا حسن تدبیر سے تیرے قابو میں آئے گا زندہ نہ جاسکے گا ۔ ہم لوگ ڈھوبی ، بھاٹ ، سکھ ، نانک شاہی ، مداری ، فقیر نچنئے ، گوئیے ، میراثی ، بھنگی ، تیلی ، لوہار ، بڑھئی ، لنگڑے ، لولے اور کوڑھی کو ہاتھ نہیں لگاتے ۔ کیوں کے ان کی قربانی جائز نہیں ہے ۔ ان کے علاوہ تمام انسانی نسل تیرے لیے موجود ہے ۔ تیرا فرض ہے کہ ان کو فنا کرنے میں کوتاہی نہ کرے ۔ لیکن شگون کا ہمیشہ خیال رکھنا ۔ اس کے خلاف عمل نہ کرنا ۔ اب تو ٹھگوں کی برادری میں شامل ہوچکا ہے ۔ اس پیشے کے متعلق جو اور باتیں ہیں ان کو ہمارے گرو رسوم کے ساتھ تجھے بتائیں گے ۔
میں نے کہا یہی بہت ہے میں مرتے دم تک وفادار رہوں گا ۔ وہمارا خدا وہ دن جلد لائے کہ میں اپنی وفاداری کا ثبوت دوں ۔
امیر علی کا کہنا ہے کہ والد صاحب کا رتبہ نہیں ہوتا تو میں ادنیٰ درجہ میں داخل ہوتا اور برسوں مستعدی ، قابلیت اور ہمت سے خدمات انجام دینے کے بعد سرداری کا نمبر آتا ۔ لیکن میں ان سب زحمتوں سے بچ گیا ۔ کم عمری کے سبب میں سرداری کا اہل نہیں تھا ۔ لیکن میرا رتبہ سب سرداروں سے بلند تھا اور سب جانتے تھے والد کی خانہ نشینی کے بعد میں جانشین ہوں گا ۔ ؎
سفر کرنے سے پہلے شگوں لینا لازمی تھا ۔ چاہے سفر چھوٹا ہو یا بڑا اور شگون کے بغیر سفر نہیں کیا جاسکتا تھا ۔
سفر شروع کرنے سے پہلے سب ایک جگہ جمع ہوتے ہیں ۔ ان میں جو شخص معتبر اور رسومات کا ماہر ہوتا ہے اس کے ہاتھ میں مقدس تبر ہوتا ہے ۔ پانی سے بھرا ہوا ایک لوٹا اس کے بائیں جانب لٹک رہا تھا اور اس کی رسی ان کے دانتوں میں دبی ہوئی تھی ۔ یہ احتیاط اس لیے کی جاتی ہے کہ لوٹا کا گرنا انتہاہی بدشگونی ہوتی ہے ۔ یعنی اس سال یا اگلے سال اس کا انتقال ہوجائے گا اور اس کو دنیا کی کوئی طاقت بچا نہیں سکتی ہے ۔ پھر آہستہ آہستہ چل کر مقام مزکورہ پر پہنچتے ہیں ۔ جس سمت جانا ہوتا ہے اس سمت منہ کرکے کھڑے ہوجاتے ہیں اور بایاں ہاتھ سینے پر رکھ کر آسمان کی طرف منہ کرکے بھوانی کو پکار کر کہتا ہے ، اے سنسار کی ماتا ار ہماری برادری کی سرپرست اگر یہ مہم تجھے قبول ہے تو ہماری مدد کر اور شگون دے ۔
پھر ہر شخص ان الفاظوں کو دوہراتا ہے ۔ پھر بے چینی سے سے شگون کا انتظار کیا جاتا ہے ۔ کچھ دیر انتظار کے بعد بائیں طرف ایک گدھے کے رینگنے کی آواز آئی ۔ اس کے بعد دائیں جانب گدھے کے بولنے کی آواز آئی ۔ یہ مکمل اور بہت مبارک شگون ہوتا ہے اور کثیر دولت ہاتھ آنے کی پیشن گئی تھی ۔ اس لیے سب ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے اور بھوانی کی شان میں جے ہرکارے بلند ہونے لگے ۔ پھر روانہ ہوئے اور راستہ میں پل ہاود اور تھی یایو کے شگون سننے ملے ۔ یہ زبردست شگون تھے ۔
مسافروں قتل کرنے کے بعد پتونی نذر نہایت ضروری ہوتی ہے اور اس میں غفلت نہیں پرتی جاتی ہے ۔ یہ گڑ منگوا کر رسومات ادا کرنے والا زمین پر ایک کمبل بچھا کر بیٹھ پچم کی طرف منہ کرکے بیٹھ جاتا ہے ۔ اس کے دوسری جانب والد صاحب (مہم کا سبراہ) بیٹھ جاتا ہے اور کمبل کے دونوں جانب دوسرے لوگ بیٹھ جاتے ہیں ۔ کمبل کے کنارے مہم کا سربراہ زمین پر ایک چھوٹا سوراخ کرتا ہے ۔ اس میں دم کیا ہوا تبر ، گڑ اور ایک روپیہ چڑھاوے کے طور پر رکھے اور تھوڑی سی شکر سوراخ میں ڈال کر ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے دعا مانگی ، اے بزرگ برتر دیوی ! تو مدتوں سے اپنے پجاریوں کی سیوا کر رہی ہے ۔ تو نے جورا نائک اور کھٹیک ببواری کو ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ عطا کر ان کی مشکلیں حل کیں ۔ ہم التجا کرتے ہیں کہ تو ہماری مدد کر اور ہماری مرادیں پوری کر ۔ اس دعا کو ہر ایک نے اپنی زبان سے ادب و احترام سے ادا کیا ۔ پھر سربراہ زمین کے سوراخ پر پانی کے چھنٹے چھڑک کے گڑ تقسیم کیا ، اس رسم میں عملی طور پر وہی لوگ شریک ہوسکتے ہیں جس نے کسی کا گلا گھونٹا ہوں اور گڑ اسی دیا جاتا تھا ۔ مگر گڑ لینے والا کسی کو بھی یہ گڑ کھلا سکتا تھا ۔ اس گڑ کو کھانے کے بعد پکا ٹھگ بن جاتا ہے اور وہ چھوڑما چاہے تو چھوڑ سکتا تھا ۔ جو شخص اسے چک لے وہ ٹھگ بن کر رہے گا اور ساری عمر ٹھگ رہتا ہے ۔
؎ ٹھگی کی تعلم دینے والا منتر پڑھ کر تعلیم دیتا ہے ۔ تعلیم حاصل کرنے والا اس دوران گوشت ممنوع ہوتا ہے ۔ چار دن تک صرف دودھ استعمال کرتا ہے ۔ متبرک تبر پر بہت سے چڑھاوے چڑھائے گئے ۔ مختلف شگونوں کی تربیت حاسول کی جاتی ہے ۔ کوچ اور قیام کے دوران مختلف پرنددوں اور جانوروں دیکھ کر نتیجے اخذ کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے ۔
پانچویں دن صبح کے وقت رومال دیا گیا ۔ اس کے بعد غسل ہوا ، بدن پر خوشبو دار تیل بدن پر ملا گیا اور ماٹھے پر سیندور کا ٹیکہ لگا کر ان رسوم کے اختتام پر بھوانی کے چیلوں میں شامل ہوا اور بھٹوانی بننے کی عزت حاصل ہوگئی ۔ اس کے بعد رومال پھنکنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ رومال کے ایک کونے پر چاندی کا سلہ رکھ کر ایک بڑی سے گرہ لگائی اور اس کونے کو بائیں ہاتھ میں لے کر اتنا کپڑا چھوڑ کر جو آدمی کی گردن پر لپیٹ سکے ۔ دوسرا خالی سرا داہنے ہاتھ میں لیا اس طرح دونوں مٹھیاں اوپر تھیں اور مجھ سے کہا دیکھو اسے یاد رکھنا ۔ جب پیچھے سے رومال پھنک کر کسو تو فوراً بند مٹھیوں کو گردن میں گڑا کر جس طرف آسانی جھٹکہ دو اس طرح آدمی کا دم نکل جائے گا ۔ اس کی بار بار مشق کرائی جاتی ہے ۔
پرانے زمانے میں عورتیں ہمیشہ چھوڑ دی جاتی تھیں ۔ اگر کسی قافلہ میں عورتیں شامل ہوتیں اور مال دار ہوتی تھیں تو بھی انہیں چھوڑ دیا جاتا تھا ۔ کیوں کہ ٹھگوں کی سرپرست دیوی ایک عورت ہے ۔ اس کی ہم جنس کو فنا کرنا اسے ناگوار ہوتا ہے ۔ اس لیے ہر موقع پر عورتوں سے کنارہ کیا جاتا تھا ۔ اس کے علاوہ مرد کے شکار کے لیے مرد ہی موزوں ہیں ۔ کوئی سپاہی عورت سے جنگ نہیں کرتا ۔ کوئی شریف آدمی کسی عورت کے خلاف انگلی نہیں اٹھاتا ، ٹھگوں کی مہم میں عورتوں کی موت پر افسوس کرایا جاتا ۔
ٹھگوں میں دستور ہے جب تک پہلا آدمی جان سے نہیں ماڑ لیتے نہ ڈاھاڑی منڈاتے نہ پان کھاتے ۔
ٹھگوں کی اصطلاحات
ٹھگوں کی کچھ اصطلاحات ذیل میں دی گئی ہیں ۔
سوٹھا ۔۔۔ شکار کو ترغیب دینے والا
تلائی ۔۔۔۔ جاسوس ، مخبر
شمیشوں ۔۔۔۔ ہاتھ پکڑنے والے
سوٹھائی ۔۔ وہ لوگ جو مسافروں کو بھکاکر ٹھگوں کے پاس لاتے ہیں ۔
بھٹونی ۔۔ پھانسی دینے والا
لکھائی ۔۔ قبریں کھودنے والے
خسی بردار ۔۔۔
پھنکت ۔۔۔
بھٹوٹ ۔۔۔۔ رومال کے ذریعے گلا گھونٹنے والے
تمباکو لاؤ ۔۔۔ یعنی شکار کو قتل کردو
جھرنی دینا ۔ ۔ قتل کر اشارہ کرنا
بونیج ۔۔۔۔ شکار جن کی متبرک قوانین کے تحت جان لینا فرض ہوتا ہے ۔
ایکاریا کی آواز ۔۔۔ یہ اس سیار کی آواز ہے جو رات کے ابتدا میں چھوٹی چھوٹی اور تیز آواز میں چیختا ہے یہ نہایت برا شگون مانا جاتا ہے ۔
ڑوکریا ۔۔۔۔ پیسہ لانے لے جانے والے اہلکار
انسداد
لارڈ ولیم بنٹنک نے ہندوستان کا گورنر جنرل بنا تو اس کے سامنے جو مسلے درپیش ہوئے ان میں ایک اہم مسلہ ٹھگی کے انسداد کا بھی تھا ۔ جس کے بارے میں سر جان کیٹی کا کہنا ہے کافی لمبے عرصہ تک برطانوی حکومت کو اس وحشیانہ قتل اور لوٹ مار کے جرم کا علم ہی نہیں ہوسکا ۔ یہ ٹھگ جو بے گناہ مسافروں کو قتل کرکے ان کا مال لوٹ لیا کرتے اور پورے ملک میں ڈنداتے پھرتے تھے اور ان کی خاص قتل و غارت کی آماج گاہ وسط ہند دکن اوڑیسہ کے علاقے تھے ۔ یہ پیشہ ور بلکہ آبائی قاتلوں کے گروہ تھے جو کہ ہر سال سیکڑوں مسافروں کو وحشیانہ طور پر قتل کرکے ان کا مال غنیمت حاصل کیا کرتے تھے ۔
1829ء تک یہ جرائم مسلسل جاری تھے مگر ان کے انسداد کی طرف کسی نے سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی ۔ کرنل سلیمن نربدا ساگر کے علاقہ میں مامور ہوئے ۔ ان کے علم یہ بات آئی کہ 1807ء میں جبل پور کی سڑک پر 17 خزانہ بردار اور 1814ء میں ضلع دموہ سے میل کے فاصلے پر ہٹہ کو جانے والی سڑک پر سنجا گاؤں سے آدھ میل کے فاصلے پر سات آدمی قتل ہوئے تھے ۔ اس طرح کی اور وارداتیں ان کے علم آئیں ۔ چنانچہ انہوں نے اس کے متعلق ایسٹ انڈیا کمپنی کو ان جرائم کی تفصیلی رپوٹ بھیجی ۔ جس کے بعد 1829ء میں ایف سی سمتھ کو نربدا ساگر کے علاقہ میں خصوصی طور پر بھیجا گیا اور اس کے اسٹنٹ کے طور پر کرنل سلیمن کا تقرر ہوا اور بعد میں 1835ء میں سپرنٹنڈٹ محکمہ انسداد ٹھگی اور 1838ء میں کمشنر ٹھگی اور ڈاکہ کے عہدے پر فائز ہوئے ۔
ٹھگوں سے چھٹکارا پانا مقامی حاکموں اور جاگیرداروں سے حل ہونا ممکن نہیں تھا کیوں کہ وہ لالچ میں ان سے چشم پوشی کرتے تھے اور جب ٹھگوں کو پتہ چلتا کہ ان کے خلاف اقدامات کئے جارہے ہیں تو یہ خبر پاتے ہی وہاں سے فرار ہوکر ہیں ملک کے کسی دوسرے حصے میں متقل ہوجاتے تھے ۔ دوسرا مسلہ یہ تھا ایسی شہادتیں اور گواہیاں فراہم کرنا جن کی بنا عدالت سزا دے ایک بہت دشوار کام تھا ۔ لہذا لارڈ ولیم بنٹنک نے اس کے لیے بعض ضروری قانونی اصلاحاتیں کیں اور ان کے انسداد کے لیے ایک خصوصی محکمہ کرنل سلیمن زیر نگرانی قائم کیا ۔ اسے کمپنی کی مملکت میں خاص اختیارت دیئے گئے اور ایک قانون نافذ کیا گیا جس کے تحت انہیں سرسری تحقیقات کے بعد سزا اور معافی کا بھی اختیار بھی حاصل ہوگیا ۔ ان اختیارات کے ملنے کے بعد کرنل سلیمن اور اس ساتھیوں نے اپنا کام شروع کیا اور محنت اور جانفشانی کے ساتھ ٹھگی کے فن اور ان کی زبان کے بارے میں اتنی معلومات حاصل کرلیں کہ جتنی خود ٹھگوں کو تھیں ۔ ان ٹھگوں تک رسائی حاصل کرکے کچھ ٹھگوں کو گرفتار کیا ۔ گرفتار شدہ ٹھگوں میں سے جن کے سدھر جانے کے آثار تھے انہیں معافی اور ملازمت بھی دی گئی اور معافی یافتہ ٹھگوں کی مدد سے مختلف گروہوں کو تلاش کیا گیا اور انہیں 1823ء سے 1836ء تک یعنی تیرہ سال کی مدت کے دوران ٹھگی کا مکمل خاتمہ کردیا گیا ۔ سرجان کیٹی نے اپنی رپوٹ میں لکھا ہے کہ یہ ایک عظیم انشان اور باوقت کارنامہ ہے کہ چند انگریز عہدہ داروں نے اعلی انتظامی حکام کے احکام پر عمل کرکے ٹھگی کا پیشہ ہندوستان سے ہمیشہ کے لیے پاک کردیا ۔
سزائیں
یہ دور ٹھگوں کے مجرموں کی تحقیقات کا کہلاتا ہے ۔ جس میں ٹھگوں کے مختلف گرہوں کے رکنوں اور ان کے عزیز و اقارب اور دوستوں کے بارے تحقیقات کیں گیں ۔ ان کے حالات معلوم کرکے ان کا پوری طرح قلع قمع کرنے کی کوشش کی گئیں ۔ اس قبیح جرم کے خاتمہ کے لیے خاص قوانین جن میں 1837ء کا ایکٹ 18 ، 19 ۔ 1838ء کا ایکٹ 10 ۔ 1839ء کا ایکٹ 18 ۔ 1842ء کا ایکٹ 14 ۔ 1843ء کا ایکٹ 18 ، 24 ۔ 1847ء کا ایکٹ 10 اور 1848ء کا ایکٹ 3 اور 11 کا نفاذ کیا گیا ۔ حیدرآباد ، میسور ، اندور ، لکھنو اور گوالیار میں میں ان مقدمات کے لیے خاص عدالتیں قائم کی گئیں ۔ جہاں ہر قسم شہادت جس میں دستاویزی زبانی اور دوسرے شہادتیں پیش کرنے اجازت تھی چاہے اس کی حثیت کچھ بھی ہو ۔
ان عدالتوں کے مجسٹریٹ اور کیس کی پیروی کرنے والے نہایت ذہین اور محنتی انگریز تھے اور وہ یہ کام اعزازی طور پر کرتے تھے ۔ چنانچہ ان کی محنت اور کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ 1826ء تا 185ء کے دوران ٹھگی کے جرم میں 1562 ملزموں پر مقدمات چلائے گئے ۔ ان میں سے 1404 افراد کو پھانسی یا عمر قید کی سزا دی گئی ۔ کچھ ٹھگوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے دوسو سے زیادہ قتل کئے ۔ ایک ٹھگ نے بتایا اس نے 1719 افراد کو قتل کیا ۔ جو ٹھگ وعدہ معاف گواہ بنے ان کی جان بخشی کئی گئی اور انہیں جبلپور کی اسپیشل جیل میں مع ان کے خاندانوں کے نظر بند کیا گیا ۔ انہیں دری ، قالین اور دوسرے کاموں کی مشقت میں لگایا گیا ۔ ان کی مشقت کے لیے ایک کارخانہ کرنل سلیمن اور کیپٹن چارلیس براؤن کی کوششوں سے 1838ء میں قائم کیا گیا ۔ یہاں تک برصغیر سے اس جرم کا مکمل صدبات ہوگیا اور 1904 میں محکمہ انسداد ٹھگی کو ٹور دیا گیا ۔
تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری