برصغیر کی دوسری قوموں کی طرح پشتونوں میں بھی آگ و پانی کی آزمائش کے ذریعے مجرم کے گناہ گار یا بے گاہ ہونے کا فیصلہ کیا جاتا تھا اور ان کی آزمائشوں پر جو پورا اترتا تھا اسے بے گناہ سمجھا جاتا تھا اور دوسری صورت میں اس کے گناہ گار ہونے کا یقین کرلیا جاتا تھا ۔
پانی کی ایک آزمائش انگریزوں سے پہلے بالائی ژوب کے بابو چینا کے قریب فقیر زئی کے چشمہ پر منعقد ہوتی تھی ۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ ایک آدمی چھ فٹ کا بانس ہاتھ میں لے کر چشمہ کے اندر کھڑا ہو جاتا تھا اور بانس کا سرا زیر آب کیچر میں گاڑھ دیتا تھا ۔ مجرم ملا کے دم و درود کے بعد دم بخود ہوکر پانی کے نیچے بیٹھ جاتا تھا ۔ جب کہ بانس والا آدمی اپنے دوسرے ہاتھ سے اس کا سر نیچے رکھنے کی کوشش کرتا تھا ۔ جونہی مجرم پانی کے نیچے کرتا تھا کنارے پر بیٹھا ہوا ایک آدمی دوسری طرف بھاگتا تھا ۔ جو پشت کی طرف ۳۰ تا ۷۰ قدم دور ہوتا تھا تو مجرم کنارے کی طرف بھاگتا اور اس دوران مجرم اپنا سانس روک سکتا تھا اور دوسرے کنارے تک آجاتا تو اسے بے گناہ قرار دیا جاتا تھا ۔
آگ کی ایک آزمائش میں لوہے کا دھکا ہوا بھالا مشتبہ شخص کے ہاتھ میں رکھ کر اسے سات
قدم چلنے کو کہا جاتا تھا ۔ اس طرح لکڑی کے کشکول کی تہہ میں ایک سوراخ کرکے چھڑی اس میں ڈال دی جاتی تھی ۔ اس کے بعد ملا قران الحکیم کی سورۃ یٰسین پڑھ کر کشکول میں پھونک مارتا تھا ۔ اگر کشکول بائیں طرف ہلے تو ملزم کو مجرم قرار دیا جاتا تھا ۔
اس طرح سورۃ یٰسین پسے ہوئے جوار پر پھونک کر مجرم کو نکلنے کے لئے دی جاتی تھی ۔ اگر یہ اس کے گلے میں چپک جاتی تھی تو اسے مجرم گردانا جاتا تھا ۔
اس طرح کی آزمائش برصغیر میں عام تھیں ۔ مسلمان سیاحوں نے ان آزمائشوں کے بارے میں بہت تفصیل سے لکھا ہے ۔ مثلاً سلیمان تاجر لکھتا ہے کہ ہندوستان میں کسی ایسی بات میں کوئی دعویٰ کرتا ہے ، جس کے ثابت ہونے پر مدعیہ علیہ کا قتل ہوجاتا ہے تو وہاں کے قانون کی رو سے ضروری ہوا تو مدعی سے پوچھا جاتا کہ کیا آگ کے امتحان میں اس کو ڈالنا پسند کرتے ہو ؟ اگر وہ جواب میں ہاں کہتا ، تو لوہے کے ایک ٹکڑے کو آگ میں ڈال کر خوب گرم کیا جاتا اور وہ جب بالکل لال ہو خود ایک انگارہ بن جاتا تو تب مدعیہ علیہ سے کہا جاتا کہ ہاتھ آگے بڑھا ۔ اس ہاتھ پر ایک قسم کے سات پتے رکھ کر اس پر لوہے کے گرم ٹکرے کو رکھ دیا جاتا ۔ پھر اس گرم کئے لوہے کو ہاتھ پر رکھے ہوئے وہ آگے پیچھے ڈورتا ہے ۔ اس کے بعد اس کے ہاتھ پر ایک تھیلی چڑھادی جاتی تھی اور راجہ اس تھیلی پر اپنی مہر ثبت کردیتا تھا ۔ پھر تین دن گزرنے کے بعد اس تھیلی میں سے ہاتھ نکالا جاتا اور اس کو دھان چھیلنے کے لئے دیئے جاتے کہ ان کے چلکے ناخنوں سے الگ کرے ۔ اگر اس کا ہاتھ آگ سے متاثر نہیں ہوتا تو تو وہ چلکوں کو باآسانی اتاردیتا اور وہ قتل ہونے سے بچ جاتا اور مدعی پر جرمانا عاعد کیا جاتا ۔ بسا اوقات ہانڈی میں کھولتے ہوئے پانی میں لوہے کہ انگوٹھی ڈال دی جاتی اور مدعی علیہ کو کہا جاتا اس میں انگوٹھی نکالے ۔
سیتا کی پاک دامنی کا امتحان رام چند نے آگ میں سے گزار کرلیا تھا ۔ جیمز ٹاد راجپوتوں میں آزمائش کے رواج کاذکر کرتا ہے ۔
ماضی میں ایک پٹھان بادشاہ جلال الدین فیروز شاہ خلجی نے بغاوت کے شبہ میں ان کے گناہ کے بارے فیصلہ آگ میں سے گزار نے کا سوچا تھا ۔
تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری