پشتونوں کے ہر دیہہ اور گاؤں کے باہر ایک نہ ایک بزرگ ہستی کا مدفن ہوگا ۔ جو اپنے زمانے میں قبیلے یا گاؤں کا رہنما ، اخلاف یا سادات میں سے کوئی ہوسکتا ہے ۔ جس سے وابستہ بہت سی روایات اور کرامات ہوتی ہیں ۔ یہ مدفون ہستی گاؤں کی محافظ ہوتی ہے جو گاؤں کو آفات اور دیگر تکالیف سے بچاتی ہے ۔ پشتونوں میں روز مرہ کے کاموں میں ان ہستیوں یعنی آبا اجداد اور اولیا کی مداخلت اور دستگیری کا عقیدہ عام ہے اور ان سے بیمار کے علاج ، آفات کے دفیعہ ، بارش کے لئے اولاد یا باآور کرانے کے لئے ان سے فریاد کی جاتی ہے ۔
ان ہستیوں کے مزارات عام طور پر پھتر کے یا مٹی کے ڈھیر اور پھتر کے احاطے پر یا کبھی
کبھار کچی جھونپڑی پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ جن کے گرد بانس گاڑے ہوتے ہیں ، جن پر کپڑوں کے چھیچڑے ، سینگ یا گھنٹیاں لٹک رہی ہوتی ہیں اور ان کے متعلق عجیب وغریب عقیدہ رکھتے ہیں ۔ مثلاً پشین کے بابا فرید کا مزار ہے ، جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آب سرخاب کی نمود ان کی کرامت ہے ۔ پشین کے ہی شمو زئی کاکڑ پیر عبدالحکیم کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے پیچھے آنے والے پستے کے درختوں کو درہ خوستک پر روک لیا اور ان کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے توبہ کے سانپوں کو بے ضرور بنا دیا ۔ اس طرح قطب نیکہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے مزار کی بدولت حاجی جان (پشین) کے علاقہ ہیضہ سے محفوظ ہے اور ان کا مزار بالخصوص بے اولاد عورتوں کا مرجع ہے ۔ اس طرح ہندو باغ کے قریب سخی نیکہ تارن نے ایک کھیت کے خربوزوں کو پھتروں میں تبدیل کردیا تھا ۔ ہندو باغ کے شاہ حسین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بکری کی طرح سینگوں کے مالک تھے ۔ قلعہ سیف اﷲ کے بیکر نیکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ احمد شاہ ابدالی نے انہیں قندھار بلایا اور مالیہ مانگا اور انہیں ابلتے ہوئے پانی میں میں ڈالا گیا اور وہ محفوظ رہے تو احمد شاہ ابدالی ان کی بزرگی کا قائل ہوگیا ۔ اس طرح افغان قبیلے زمرے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے مورث اعلیٰ نے ایک دفعہ عارضی طور پر زمرے (شیر) کی شکل اختیار کرلی تھی ۔ جلال زئیوں کے مورث اعلیٰ سیّد نے ایک دفعہ پونی ندی میں ہاتھ دھو کر پانی کو دودھ کی شکل میں بدل دیا تھا اور بعد میں لوگوں کی التجا پر اسے واپس پانی میں بدل دیا تھا ۔ کوئٹہ کے قریب خواجہ مودود چشتی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کوہ چیر میں شگاف اندازی ان کی کرامت بتائی جاتی ہے ۔
پشتونوں کی اکثریت سنی العقیدہ ہے مگر صرف ملا اور سادات ہی اپنے مذہب کے ظاہری اطور کو کسی حد تک سمجھتے ہیں اور عام لوگ اگرچہ نماز روزے کے پابند ہیں ، مگر دیگر امور میں توہمات مذہب پر غالب ہیں ۔ ایک عام وہم ہے کہ کسی کو اس وقت پکارے جب ہوہ عازم سفر ہو تو اسے قدم اٹھانے سے پہلے لازماً بیٹھنا چاہیے ۔ اگر روانگی کے فوراً خرگوش اس کا راستہ کاٹے ، بعض جگہ جنازہ دیکھے ، بعض جگہ جولاہا ملے تو اسے لازماً گھر لوٹ کر واپس جانا چاہیے ۔ اس طرح بعض جگہوں پر گیڈر راستہ کاٹے تو اسے اچھا شگون سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن بعض مقامات پر منگل اور ماہ صفر میں سفر نہیں کیا جاتا ہے ۔ اس طرح کاکڑ جمع کے روز مغرب کی طرف سفر نہیں کرتے ہیں ۔ علی زئی اچکزئی اپنی موسمی ہجرت کے دوران کوچ کی پہلی رات کسی مہمان یا رشتہ دار کو اپنے خیمہ میں داخل ہونے نہیں دیتا ہے ۔
شادیاں عموما محرم اور صفر کے ابتدائی بارہ دنوں میں نہیں کی جاتی ہیں ۔ جب کہ خرشین کے سادات شادیاں مہینے کی تیسری ، آٹھویں ، اٹھارویں اور اٹھائیس تاریخوں میں نہیں کی جاتی ہیں اور سنزر خیلوں میں ماہ شبعان میں شادیاں نہیں کی جاتی ہیں ۔
بابو زئی دومڑ جمع یا مہینے کی آخر تاریخوں میں کوئی نیا کام نہیں کرتے ہیں ۔ اسوٹ اتوار کو سودا نہیں کرتے اور نہ ہی قرض دیتے ہیں ۔ شاہ زئی ترین مکھن نہیں کھاتے ہیں ۔ پہلے موسم کے دودھ کا مکھن کسی کو نہیں دیا جاتا ہے ، تادقتیکہ اس کا گھی نہ بنالیا جائے ۔ پشین کا ترین اور سیّد عصر اور مغرب کے درمیان چائے یا پانی نہیں پیتا ہے ۔ ایک یاسین زی یا بازئی کاکڑ بید کے سائے میں نہیں سوتا ہے ۔ ایک دومڑ عورت جانور کا کلیجہ نہیں کھاتی ہے ۔ کاکڑ عورت غروب آفتاب کے وقت کسی کو نمک نہیں دیتی ہے ۔ ایک ترین یا سیّد عورت بھی کسی کو نمک نہیں دیتی ہے کہ مبدا کہیں تقدیر نہیں پلٹ جائے ۔ اچکزئی خاتون دودھ ابالتے وقت آگ کسی کو نہیں دیتی ہے ۔ لوہار ایسا توا بیچ نہیں سکتے ہیں جسے ایک دفعہ آگ پر رکھا جاچکا ہے ۔ اس طرح کی مختلف امتیای پابندیاں افغانوں میں عام ہیں ۔
افغانوں میں سادات اور ملا کی اہمیت بہت ہے ۔ ان میں سے بعض بارش برسانے ، بیماری دور کرنے ، اولاد بخشنے ، فضلوں کو پھپوندی اور ٹڈی سے بچانے اور آسیب اتارنے کی طاقت منسوب کی جاتی ہیں ۔ مثلاً سنڈیمن کے ٹارن اور خوستی سادات دشمن کی گولیوں کو بے ضرر بنانے اور جلال زئیوں کے شاہ زئی اپنے جادو ٹونے سے ٹڈی دل کو بھگانے کے اہل سمجھے جاتے ہیں ۔ لوگ ان سے مسلسل تعویز گنڈوں اور دعاوئں کا تقاضہ کرتے ہیں ۔
بدروحوں اور ان کے اناج چرانے کی قوت کا عقیدہ عام ہے ۔ بٹائی تک اناج کے گرد تلوار سے دائرہ کھنچ دیا جاتا ہے اور اس پر قران شریف اور ننگی تلوار رکھ دی جاتی ہے کہ مبادا بھوت پریت کا اثر ہوجائے ۔
لڑائی یا چھاپہ پر جانے سے پہلے اپنے معتبروں یا مقدس طبقے کے دو آدمیوں کی پھیلائی ہوئی چادر نیچے سے گزرتے ہیں ۔ یہ رسم انہیں تلوار سے تو نہیں البتہ گولیوں سے محفوظ رکھنے کا شگون سمجھا جاتا ہے ۔ اس طرح یہ رسم ہیضہ سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی کی جاتی ہے ۔
بعض قبائل میں دستور ہے کہ جب گھر کا مرد سفر پر جاتا ہے تو اسے قران کے نیچے سے گزارا جاتا ہے اور جونہی دہلیز سے باہر پاؤں رکھتا ہے تو گھر کی بڑی بوڑھیاں تھوڑا سا پانی دہلیز پر انڈیل کر مٹھی بھر کھڑی معاش کی دال بکھیڑ دیتی ہیں ۔ یہ ایک طرح کا شگون ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ شخص سفر میں بھوکا پیاسا نہ رہے اور کچھ روزی کماکر لائے ۔
قدیم زمانے آریاؤں اور ہندوئوں مییں بھی ہر گاؤں اور دیہات کو دیوتا ہوتا تھا جو کہ گرام دیوتا یعنی بستی کا دیوتا ہوتا تھا ۔ اس وابستہ بہت سی دیومالائی روایات وابسطہ ہوتی تھیں ۔ اس کا مندر عموماً گاؤں کے باہر ایک درخت کے نیچے ایک بڑا پھتر اس کی نمائندگی کرتا ہے ۔ اس کے قریب درخت پر کپڑوں کے چیچڑے بندھے ہوتے تھے اور اس پاس جھنڈے لہرارہے ہوتے تھے ۔لیکن اس بارے میں بدھ مت کے پگواڈوں میں جھنڈوں کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ ان کے پگیواڈوں پر آج بھی سیکڑوں جھنڈے مختلف شکلوں میں لہراتے ہیں اور پختون علاقہ قدیم زمانے میں مسلمانوں کی آمد کے وقت تک بدھ مت رائج تھا ۔
ہند آریائی قوموں میں دستور ہے کہ وہ اپنے روز مرہ کی زندگی کے تمام مشاغل اپنے دیوتاؤں کے نام سے شروع کرتے ہیں ۔ وہ ان کو بیماری سے شفاء دینے ، آفات سے بچاؤ ، اولاد کے لئے اور دوسرے امور کے لئے ان کی دستگیری طلب کرتے ہیں اور ان سے مدد کے لئے التجائیں کرتے ہیں ۔ یہ امور تمام ہند آریائی قوموں میں عام ہیں اور ہندو سے مسلمان ہونے والی قوموں میں بھی ان کے اثرات بہت گہرے ہیں ۔
بت پرست جن میں قدیم آریابھی شامل ہیں کے مذہب میں قوق البشر قوتوں کی رضا جوئی یا استالیت ہے ۔ جن کے متعلق یہ باور کیا جاتا ہے کہ فطرت اور انسانی حیات ان کی دست قدرت میں ہیں اور وہی ان کی راہ معین کرتی ہیں ۔ اس طرح ایک طرف ان فوق البشر قوتوں اپر اعتماد اور دوسرا انہیں راضی خوشی کرنے کی کوشش ، ان دونوں میں اولیت اعتماد کو حاصل ہے ۔ کیوں کہ کسی برتر ہستی کی رضا جوئی سے اس پر اعتماد لازمی ہے ۔
چوں کہ قدیم مذاہب کا تار پور مادرائی ہستیوں پر اعتماد نیز ان کی رضا جوئی سے بنا ہے اس لئے یہ مفروضہ بدیہی حثیت رکھتا ہے کہ فطرت کے آئین میں رد و بدل ممکن ہے اور یہ ہے کہ ہم اپنی بھلائی اور عرض سے ان مقتدد ہستیوں کو فطرت جن کے قبضے میں ہے واقعات کا رخ موڑ نے پر آمادہ کرسکتے ہیں ۔ چوں کہ ہر شخص قدرت نہیں رکھتا ہے کہ وہ ان برتر ہستیوں سے ربط رکھ سکے ۔ لیکن وہ آدمی جسے ان ہستیوں سے کام لینے کا ڈھپ آتا ہو اور مناسب رسوم اور جنتر منتر کے ذریعے ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہو اور بڑے سے بڑے دیوتاؤں کو اپنی مرضی پر چلا سکتا ہے ۔
یہاں ایک نازک سوال اٹھتا ہے کہ آیا نظم عالم جن لوگوں کے تابع ہے ، ان کی نوعیت شعوری اور شخصی ہے یا غیر شعوری اور شخصی ۔ یہ مذاہب جو اپنی فوق البشر قوتوں کی رضا جوئی سے عبارت ہے جو اس سوال کے اثباتی پہلو کو تسلیم کرتا ہے ۔ کیوں کہ کسی ہستی کی رضا جوئی اور استمالیت کی کوشش اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک شعوری اور شخصی عامل کی حثیت رکھتی ہے ۔ گو اس کا طرز عمل قطعی طور پر متعین نہیں ہوتا ہے ۔ اگر اس دلچسپیوں ، فطری تقاضوں اور جذبات سے فائدہ اٹھانے کی معقول کوشش کی جائے تو وہ راہ پر آسکتی ہیں ۔ یعنی مذہب کی طرح ان کی رضا جوئی کے بجائے انہیں اپنے تابع رکھا جائے اور ان پر اپنا زور چلایا جائے ۔ کیوں کہ شخصی موجودات خواہ انسان ہوں کہ دیوتا انجام کار انہی غیر شخصی قوتوں کے تابع ہوتی ہیں ۔ جو عالم کی تمام اشیاء نظم و ضبط قائم رکھتی ہیں باایں مع ، معمہ آدمی جسے ان ہستیوں سے کام لینا آتا ہے ۔ وہ مناسب رسوم و جنتر منتر کے ذریعے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ ہندؤں کی تری مورتی یا تثلث جو برھما (خالق) وشنو (حیات و بقا کا دیوتا) اور شیو (تخریب و فنا اور حیات نو کا دیوتا) پر مشتمل ہے ۔ آج بھی جادوگروں کے تابع چلی آرہی ہے ۔ جو اپنے منتروں کے ذریعے اس طرح تسلط جمالیتے ہیں کہ انہیں بے عذر اپنے آقاؤں کے احکامت کی پیروی کرنی پڑتی ہے ۔ ہندؤں میں مشہور مقولہ ہے کہ کائنات دیوتاؤں کے تابع ہے ، دیوتا منتروں کے تابع اور منتر برہمنوں کے تابع ، اس لئے برہمن ہمارے دیوتا ہیں ۔
جب تقدس کی حامل شخصیت اپنی فسوں سازی سے برتر ہستیوں (دیوتاؤں) کو اپنے قبضہ میں کر لیتی ہے تو ان کو ربانی تقدس حاصل ہوجاتا ہے اور وہ بھی برتر ہستی ہو جاتی ہے ۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب انسان خدا کے روپ میں جنم لیتا ہے ۔ جس کثرت سے ہندوستان نے انسانی خدا پیدا کئے ہیں وہ شاید ہی کسی اور ملک نے پیدا کئے ہوں گے ۔ اس ملک میں گوسی سے لے کر بادشاہ تک کوئی ایسا طبقہ ایسا نہیں ہے جس میں ربویت کی ارزانی نہ ہوئی ہو ۔ چنانچہ جنوبی ہند میں کوہ گری کے ٹوڈا نام کی گڈریوں کے قوم آباد ہے ۔ ان میں ایک دیوتا ہے اور اس شیر خانے کو عبادت گاہ کی حثیت حاصل ہے ۔ اس کو اس کا باپ سمیت سب سجدہ کرتے ہیں ۔
ہندستان میں ہر ایک حاضر و ناضر کو دیوتا سمجھا جاتا ہے ۔ اڑیسہ میں ایک فرقہ تھا جو ملکہ وکٹوریا کو معبود کی حثیت سے پوجا کرتا تھا ۔ پنجاب میں ایک فرقہ کے دیوتا کا نام نکل سین تھا ۔ یہ جنرل نکل سین کی ہستی تھی ۔ یہ جنرل ان کے ساتھ کچھ بھی کرتا ، کچھ بھی کہتا لیکن ان کی ربوعیت آتش ٹھنڈی نہیں ہوتی تھی ۔ وہ جس قدر ان کی سرزش کرتا وہ اسی قدر اس کی حثیت سے مرعوب ہوکر اس کی پرستش کرتے تھے ۔ بنارس میں ایک مشہور دیوتا ایک ہندو کی شکل میں متشکل ہوا ۔ پونا کے قریب ایک چھوٹا سا قبضہ چیخوار ہے ۔ وہاں ایک چھوٹا سا کنبہ آباد ہے ، جس کے متعلق مرہٹوں کا عقیدہ ہے کہ ان کی ہر نسل میں ہاتھی کے سر والا گنیش دیوتا کسی نہ کسی فرد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ۔ جنوبی ہند ایک فرقہ کا روحانی سردار جس کو مہاراجہ کہتے ہیں ۔ وہ کرشن کا نمائندہ فی الحقیقت اس کی مجسم مورت ہے ۔ خاندان مغلیہ کے تاجدار اعلیٰ الصبح اپنی رعایا کو جھروکے سے درشن کرایا کرتے تھے ۔ کیوں کہ ہندو انہیں برھما کا اوتار مانتے تھے ۔
بدھ کے مانے والے تارتاریوں کا عقیدہ ہے کہ بدھ کی سیکڑوں شکلیں جیتی جاگتی صورتین جو لاماؤں کی حثیت سے مندروں میں پیشوائی کے فرائض انجام دے رہی ہیں ۔ جب کوئی مر جاتا ہے تو اس کے پیروں کو قطعی رنج نہیں ہوتا ہے ۔ کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ وہ کسی بچے کی صورت میں دوبارہ جنم لے گا ۔ وہ ان مقدس نشانیوں کے مطابق بچے کو ڈھوندتے ہیں ۔
چین کی وزات مستعرات میں تمام دیوتاؤں کی باقیدہ رجسٹری ہوتی تھی ۔ اس قسم کے دیوتاؤں کی تعداد ایک سو ساٹھ تھی ۔ ان میں سے تیس تبت میں ، انیس شمالی منگولیا میںاور ستاون جنوبی منگولیا میں تھے ۔ چین کی حکومت نے عوام کی بھلائی کی خاطر تبت کے علاوہ کہیں اور دیوتاؤں کی پیدائش پر پابندی لگا دی تھی ۔ اس کے علاوہ بہت سے غیر اجازت شدہ دیوتا تھے جو خداوندی کے کملات دیکھاتے ہیں اور لوگوں پر اپنی برکتیں نازل کرتے تھے ۔
یہاں کے لوگوں نے اسلام قبول کرنے کے باوجود فوق البشتر یا برتر قوتوں اور ان کی رضا جوئی کو تسلیم کرتے رہے ہیں بلکہ ان مقتدد ہستیوں کو فطرت جن کے قبضے میں ہے اور واقعات کا رخ موڑ نے پر آمادہ کرسکتے ہیں پر ایمان رکھتے تھے ۔ گویا صنم کدہ ڈھے گیا مگر بت دلوں میں آویزاں رہے اور اگرچہ انہوں نے مذہب اور مذہب کی ظاہری پابندی اور اس کے اصولوں کا زبانی اقرار ضرور کرلیا ، لیکن ان کے ذہنوں پر ماضی کے افکار اور توہمات کے پردے بدستور پڑے رہے اور ان توہمات کو مذہب ممنوع قرار تو دے سکتا ہے لیکن جب تک وہ ان کے ذہن اور مزاج میں رچھ بسے ہوئے ہوں تو مذہب ان کی بیچ کنی نہیں کرسکتا ہے ۔ کیوں کہ ان ذہنوں اور خیالات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے اور ان کے ذہن مذہب (اسلام) کی بلندی کو نہیں پاسکتے ہیں ۔ کیوں کہ وہ اس
قدر تنگ نظر ہیں کہ اسی کو جزو ایمان بنا لیا ہے کہ یہ تقدس کی حامل شخصیت اپنی فسوں سازی سے ، فطرت اور قدرت کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے یا ڈھالنے پر قادر ہیں اور اسی عقیدے نے ان شخیصات کو ربانی تقدس بخشا ہے ۔
یہ وہ ربانی تقدس کی حامل شخصیات جو کہ مذہبی تقدس یا ملکوتی تقدس کی مالک بھی ہیں اور ان سے بہت سی مادرائی قوتیں منسوب کی جاتی ہیں اور اس طبقہ کے ربانی تقدس کے پیش نظر ان کے کوتا بینی یا کوتا ذہنیت نے ایسی داستانیں تخلیق کی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ برتر ہستیاں اس کی رضا کے تابع یا قدرت میں ہوتی ہیں ۔ یہی سبب ہے یہاں کے لوگوں میں سیّد یا مذہبی طبقہ کا وہی درجہ ہے جو ہندؤں میں رشیوں ، مہنتوں اور برہمنوں کا ہے ۔ کیوں کہ یہی طبقہ ہے جو ان پرتر ہستیوں کی نمائندگی کرنے لگتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ مہربان ہوجائیں تو ہر مشکل دور ہوجاتی ہے ۔ کیوں کہ فطرت اور قدرت ان کے تابع میں ہوتی ہے اس لئے ان سے مسلسل تعویزوں ، گنڈوں اور دعاؤں کی التجا کی جاتی ہے ۔
افغانوں کے چند توہمات کا جن کا بالاالذکر ہوچکا ہے ۔ یہ توہمات صرف افغانوں کی میراث نہیں ہیں بلکہ برصغیر کی تمام قومیں ان کی اسیر ہیں ۔ اگر ہم فکر کے ان عناصر کا تجزیہ کریں تو جو اصول مرتب ہوں گے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ مثل سے مثل پیدا ہوتا ہے یا یہ کہ نتائج اسباب کے مشابہ ہوتے ہیں ۔ دوسرے یہ چیزیں جو کبھی باہم مربوط رہی ہیں علحیدہ ہونے کے بعد بھی ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔ اول الذکر کو قانون تماثل کہا جا سکتا ہے اور دوسرے اصول کو قانون ارتصال یا قانون تعدی ۔ اس میں پہلے اصول قانون مماثل سے اتباع پابندی کا یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ محض کسی واقعہ کی نقل اس کا باعث بن سکتی ہے ۔ دوسرے اصول کی بنا پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ کسی شے پر جو عمل کرے گا بعینہ وہی اثر اس پر مرتب ہوگا ۔
ایک معاشرے میں لوگ بہت سی باتوں کی امتیناعی پابندیاں کرتے ہیں ۔ ان
میں بعض کو مقدس اور پاک اور بعض کو ناپاک اور نجس کہتے ہیں ۔ لیکن ایک جاہلی معاشرے میں اس قسم کی کوئی تمیز نہیں ہوتی ہے ۔ یہ اپنے اوپر جو پابندیاں عائد کرتے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کا مقاطعہ کرکے ان آفتوں کا سدباب کیا جائے جن کا ان کو یا ان کی وجہ سے دوسرے لوگوں دھڑکا لگا ہو ۔ امتناع کے ذریعے ان آفات کا دفعیہ کیا کرتا ہے ۔
یہ امتناعات افغانوں کی طرح پاک و ہند میں عام ہیں مثلاً کسی بزرگ ہستی کا نام نا لینا ، بیوی کا شوہر کانام لینے سے پرہیز ، چھوت چھات اور اس طرح کی بہت سی پابندیاں ہیں جن سے لوگ عام طور پر واقف ہیں ۔
تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری