افغان قبائل کا معاشرتی آئین و دستور یا ضابطہ اخلاق جو پشتون ولی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔(1) یہ ضابطہ اخلاق (معیار) سے واقفیت نظم و نسق کے نقطہ نظر سے کم اہم نہیں ہے ۔ یہ ماضی میں بھی رائج تھا اور ہنوز اکثر لوگوں کے اعمال و افعال پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ یہ چند تبدیلوں کے ساتھ تمام پشتون قبائل میں رائج رہا ہے ۔ اگرچہ رفتہ رفتہ اس کا اثر کم ہوتا جا رہا ہے ۔ پشتون ولی یہ درج ذیل کیا جارہا ہے ۔
(۱) خون کا بدلہ ۔ (بدل)
(۲) پناہ لینے والے کے لئے آخری دم تک لڑنا ۔
(۳) سپرد کردہ جائیداد کی آخری دم تک حفاظت کرنا ۔
(۴) مہمان نوازی اور مہمان کے جان و مال کی حفاظت کرنا ۔
(۵) ہندو ، کمین ، عورت اور کم سن بچے کو قتل کرنے سے پر ہیز کرنا ۔
(۶) مجرم کے خاندان کی کسی عورت کی درخواست پر لڑائی بند کرنا ۔
(۷) اس آدمی کو مارنے سے گریز کرنا جو کسی پیر کی زیارت میں داخل ہوگیا ہو ۔
(۸) جو ہتھیار ڈال دے یا منہ میں گھانس ڈال کر پناہ مانگے اس کی جان بخشنا ۔ (ننواتے)
(۹) ملا، سیّد اور عورت سر پر قران رکھ کو آئے تو لڑائی بند کردینا ۔
(۱۰) سیاہ کار کو موت کے گھات اتارنا ۔
یہ ضابطہ افغانوں میں بہت اہم رہے ہیں ۔ زن ، زر اور زمین بالخصوص آخری الذکر افغانوں میں ہمیشہ کشت و خون کے محرکات رہے ہیں اور ان ضوابط کی بناء پر ہمیشہ افغان قبائل کے درمیان کشت و خون جاری رہا ہے ۔
ایک افغان پر لازم ہے کہ وہ خون کا بدلہ خون سے لے ۔ اگر طرفین کے افراد اہمیت میں مساوی ہوئے تو خون کا بدلہ خون ہے ۔ لیکن مقتول کے ورثہ کمزور ہوئے تو معاملہ خون بہا سے رفع دفع کردیا جاتا ہے ۔ اگر مجرم کسی اور قبیلے کا ہو تو مظلوم اس قبیلے کے کسی اور فرد کو مار سکتے ہیں ۔ اس طرح یہ طریقہ غیر مبینہ توسیع اختیار کرلیتا ہے اور غیر مختم خونی لڑائیوں کا سبب بنتا ہے ۔ تادفتیکہ احکام یا احباب بیچ و بچاؤ نہ کرائیں ۔ اس کے بعد طرفین کے نقصانات کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور زیادہ نقصان بردار کو معاضہ دیا جاتا ہے ۔ صرف سیاہ کاری کے معاملات اس سے متثنیٰ ہوتے ہیں ۔
پشتو میں بدل کا مطلب ہے انتقام ۔ انتقام لینے کا جذبہ افغانوں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس جذبہ کو اس وقت تحریک ہوتی ہے جب کسی کی سبکی ، بے عزتی یا بے آبروی یا بے حرمتی ہو ، اس کی حق تلفی ہو یا اس پر زیادتی ہو یا اس کے کسی قریبی رشتہ دار کو قتل کردیا جائے ۔
حق تلفی کے وقت اگر بدل نہیں ہوسکا تو خود اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کرے گا ۔ اس میں چاہے اس کی جان چلی جائے مگر آن قائم رکھنے کے لئے سر توڑ کوشش کرے گا ۔ پھر بھی اگر حصول مراد میں ناکام رہا تو پھر عمر بھر اس کے دل سے خانہ انتقام نہیں نکلتا ہے ۔ اس لئے پشتونوں کی اس خصلت کو اونٹ کے کینے سے مثال دی جاتی ہے ۔ بحالت مجبوری میں وہ برسوں انتظار کرتا ہے اور جب بھی اس کا بس چلتا ہے وہ اپنا بدلہ لے لیتا ہے ۔ اس لئے بدل کو پور (قرض) بھی کہتے ہیں ۔ پھر اس قرض میں سب سے سخت اور ناقابل معافی پور سر (جان) کا ہے ۔
بدل کئی قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک ذاتی یا شخصی ، دوسرا خاندانی اور تیسرا قومی یا قبیلے کا ۔ یہ تینوں یکساں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ ذاتی بدل حتیٰ الواقع صرف اس تنہا شخص سے لیا جائے گا جو اصل سبب ہوگا ۔ اس میں اگر بدلہ لینے والہ اپنی زندگی میں کامیاب نہیں ہوسکا تو اس کا بیٹا ، پوتا یا بھائی اس کا بدلہ لے گا ۔ خاندانی معاملات میں بدل لینے والے گھرانے کا کوئی بھی فرد اپنے مخالف گھرانے سے بدلہ لے گا ۔ قبیلے کا بدل اجتماعی طور پر دوسری قوم یا قبیلے سے لیا جاتا ہے ۔
بدل بطور ورثہ منتقل ہوتا رہتا ہے ۔ برسوں گزر جاتے ہیں بلکہ پشتوں تک یہ سلسلہ چلتا رتا ہے ۔ مثل مشہور ہے کہ ایک نے کہا میں نے سو سال میں اپنا بدلہ لیا ہے ، دوسرے نے کہا بڑی جلدی کی ۔ اگر کوئی آدمی مارا جائے اور اس کا قصاص یا انتقام یا خون بہا یا تاوان وصول نہ کیا جاسکے یعنی بدل نہیں لیا جاسکے تو اسے ’تونے‘ کہتے ہیں ، یعنی افسوس ! اس کا بدل لیا نہیں جاسکتا ۔
اگلے وقتوں میں طاقت کو برحق سمجھا جاتا تھا اور سوگوار خاندان کی حثیت خون بہا کے تعین میں اہم ہوتی تھی ۔ لہذا ایک ملا یا سیّد یا سردار خیل کے کسی فرد کا خون بہا ایک عام قبائل سے دوگنا ہوتا ہے ۔ اس طرح ایک عورت اور کمین پیشہ ور کا خون بہا ایک قبائلی سے نصف ہوتا ہے ۔
خون بہا میں روپیہ ، لڑکیاں اور زمین دی جاتی ہیں ۔ اس طرح بعض قبائیلوں مثلاً شیرانیوں میں لڑائی اصل مجرم تک محدود ہوتی ہے ۔ اس قبیلے کی رسم ہے کہ اگر بدلہ فوراً لے لیا تو کوئی خون بہا نہیں ہے ۔ اگر کچھ وقت گزر جائے تو خون بہا رہے گا ۔
جب ایک مقروض ، مجرم یا قاتل کو اپنا بچاؤ بہت مشکل نظر آتا ہے تو وہ بھاگ کر کر کسی مال دار ذی مقدر اور طاقت ور رئیس کی پناہ میں اپنے آپ کو دی دیتا ہے ۔ اب سوائے قرض کے بقیہ سزاؤں سے بچانے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری اس رئیس کے سپرد ہوتی ہے ۔ البتہ قرض کی ادائیگی کسی نہ کسی طرح ضروری ہے ۔
پناہ لینے کے لئے بعض قبائل میں ایک رسم ’ناحورہ‘ ہے وہ ایک بھیڑ لے کر ممکنہ محافظ کے دروازے پر ذبح کردیتا ہے تو وہ اسے پناہ دینے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد محافظ مجرم کا حمسایہ بن جاتا ہے اور وہ اس کے نقصان کی تلافی کا پابند ہوتا ہے جو محافظ کو اس کی حفاظت کا ذمہ لینے پر برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔ ہمسایہ کی موت کی صورت میں جائیداد پر پہلا حق محافظ کا ہوتا ہے ۔ ناہورہ پر اس وقت عمل کیا جاتا ہے کہ جب ایک شخص کسی دوسرے سے خاص عنایت کا طلب گار ہو ۔
پناہ لینے کا ایک خاص طریقہ یہ ہے کہ مجرم اپنی چادر کا سرا کسی اہم شخصیت کی بیوی کی چادر سے باندھ دیتا ہے ۔ یوں وہ شخصیت عموماً اسے مطلوبہ مدد دیتی ہے ۔ گو اول الذکر طریقہ کی طرح اس پر لازم نہیں ہوتا ہے ۔
افغان مہمان نواز ہوتے ہیں اور اپنے مہمان کے مال و جان کی آخری وقت تک حفاظت کرتے ہیں اور مہمان کی جان و مال دونوں کے ضامن ہوتے ہیں اور کسی قسم کے نقصان کی صورت میں پورا کرتے ہیں ۔ لیکن بعض قبائل مال کا ذمہ نہیں لیتے ہیں ۔
افغان قبائل میں یہ دستور ہے کہ ایک کمزور یا کم تعداد قبیلہ یا اس کا فرد کسی طاقتور قبیلے یا کسی فرد پاس ایک یا کبھی کبھی کئی دنبے اور مٹی کا ایک برتن جو کوندہ یا کاسہ وغیرہ ہوتا ہے لے جاتا ہے اور وہاں جاکر وہ اپنا مدعا بیان کرتا ہے کہ ہمارا یہ برتن تمہاری حفاظت میں رہے گا اور یہ برتن تمہارے برتنوں کے ساتھ شریک کرلیا جائے تو وہ آدمی بخوشی اقرار کرلیتا ہے کہ بے فکر ہوجاؤ آج سے اس کی حفاظت کی جائے گی ۔ اس کے بعد دنبے کو حلال کرکے پکاتے ہیں ۔ بس اسی دن سے یہ طاقتور قبیلہ برتن لانے والے قبیلے کا محافظ ، حمایتی اور مددگار ہوجاتا ہے ۔
قبائلی علاقوں میں یہ دستور ہے کہ کوئی شخص چوروں یا قرض خواہوں کے ڈر سے اپنے ہمراہ کسی دوست یا اجرتی محافظ کو لے کر اپنے علاقہ میں سفر کرے تو اس خطرے کے موقع پر وہ محافظ اعلان کرتا ہے کہ میں فلاں ہوں اور اس آدمی کا دوست ہوں اور اس وقت اس آدمی ساتھ بطور برگہ ساتھ ہوں ۔ اس حالت میں کوئی حملہ یا کسی قسم کی تجاوز نہیں کرے گا ۔ کیوں کہ بروگے پر حملہ کرنا سارے گاؤں کی دشمنی مول لینا ہے ۔ بصورت دیگر متجاویزین سے سخت انتقام لیا جاتا ہے اور ان کےگھر جلادیئے جاتے ہیں .افغان عموماً عورت ، ہندو ، معروف اور کمسن بچے کو مارنے سے احتراز کرتے ہیں ۔ اگرچہ بعض قبائل انہیں لڑائی میں حصہ لینے پر مار دیتے ہیں ۔ اس آدمی کو بھی مارنے سے احتراز کیا جاتا جو کسی پیر کی زیارت گاہ میں داخل ہوجائے ۔ جب تک وہ زیارت گاہ میں رہے گا محفوظ رہے گا ۔ اس طرح جو شخص منہ میں گھاس لے کر یا گردن کے گرد کپڑا ڈال کر پناہ مانگے یا ہتھیار ڈال دے تو اس کو بھی قتل نہیں کیا جاتا ہے ۔ اس طرح ملا ، سیّد یا عورت سرپر قران رکھ کر آجائے تو لڑائی بند کردی جاتی ہے ۔
جب دو افراد یا خاندان کے درمیان قتل و مقابلہ بہت عرصہ تک جاری رہتا ہے اور کچھ کمزوری اور مجبوری کے سبب ان میں سے ایک فریق یہ چاہے کہ آپس کی دشمنی اور خصومت کسی طرح منقطع ہوجائے تو اس کا علاج ننواتی ہے ۔ ننواتی کے معنی ’اندرجانا یا گھسنا‘ یہ رسم کئی طریقہ سے ادا کی جاتی ہے ۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ننواتی کرنے والوں کی طرف گاؤں اور محلے اور ٹولے کی معمر معزز خواتین قران شریف سر پر اٹھائے ذرا رات گئے اکھٹی ہوکر جاتی ہیں اور طاقتور دشمن کے گھر میں گھستی ہیں ۔ کبھی کہیں یوں بھی ہوتا ہے کہ آگے آگے معمر و سفید سر والی بڑی بوڑھیاں سر پر قران شریف سر پر لئے جاتی ہیں اور پیچھے ننواتی کرنے والا گلے میں رسی ڈالے اور گھاس کے تنکے منہ میں پکڑے ہاتھ میں چھڑی لئے اپنے مد مقابل دشمن کے گھر جا گھستے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اب مزید بدل و انتقام کی طاقت نہیں رہی ہے اور از خود کو اپنے آپ تمہارے حوالے کرتا ہوں ، چاہے قتل کردو ، چاہے معاف کردو ، میں گائے بکری بن کر آیا ہوں ، تمہارے در پر ، پس امان میں لے لو ۔اگرچہ یہ انتہائی کمزوری اور لاچاری کا اعلان ہے ، لیکن ننواتی کا قبول کرنا پشتون کے کے لئے نہایت سخت ہے ۔ کیوں کہ اس کے لئے اس اپنے فروختہ و جذبات اور آتش انتقام پر مکمل قابو حاصل کرنااور اپنی طبعیت پر انتہائی جبر کرنا ہوتا ہے ۔ لیکن ننواتی عموماً قبول کرلی جاتی ہے ۔ آج کل عموماً معززین یا علاقہ کے سیّد ، میاں ، ملک اور دیگر اہم شخصیتوں میں سے کچھ افراد کا جرگہ جاتا ہے اور صلح صفائی کی باتیں کرکے دفع دشمنی و دفع فساد کی کوشش کرتا ہے ۔ جرگہ کو یوں آسانی سے ٹالا نہیں جاسکتا ہے ۔
ننواتی کے ذریعے پرانی سے پرانی دشمنی بھی رفع دفع ہوجاتی ہے بلکہ صلح و آتشی سے ایک دوسرے کی محافظت کے لئے طرف داری اور جانب داری سے ایک ہوجاتے ہیں ۔ سیاہ کاری کی سزا موت ہے ۔ یہ نظری طور پر لاگو ہے جس کے تحت آشنا اور عورت دونوں مارے جاتے ہیں ۔ دونوں مارے جانے کی صورت میں کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے ۔ اگر دونوں بچ جائیں تو عورت کو طلاق دے دی جاتی ہے اور مجروع شوہر معاوضہ میں لڑکیاں یا روپیہ لے کر مطمعین ہوجاتا ہے ۔ اگرچہ بعض قبائل میں ناک ، کان اور پیر کاٹنے کا دستور ہے ۔ معاوضہ کی شرح مختلف قبائل میں مختلف ہے ۔ یہ کیس کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے ، جس میں لڑکیاں اور روپیہ دونوں ادا کیا جاتا ہے ۔سراتہ یا بلندرہ کی قبیج انسانیت سوز رسم اب تقریباً ختم ہوچکی ہے ۔ پھر بھی دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے قبائل میں کبھی کبھی سنے میں آتا ہے کہ فلاں نے میراندہ یا بلنددہ کیا ہے ۔ کوئی شخص اپنے کمزور مد مقابل (جو عموماً چچیڑا بھائی یا چچا کی اولاد) یا دشمن کو یکبارگی ختم کرنے کے لئے مسلح افراد بھیجے جاتے ہیں ۔ جو اچانک شبخون مارتے ہیں اور گھر کے نرینہ افراد خواہ اس میں بوڑھے یا گود کے بچے سب کو جان سے مار کر عورتوں کو پکڑ لاتے ہیں اور مقتولوں کی جائیداد پر مدعی کا قبضہ ہوجاتا ہے ۔ افغانوں کے ضابطہ حیات جس کا بالاالذکر کیا گیا ہے ۔ چند تبدیلوں تک بلوچوں میں بطور ضابطہ کے استعمال ہوتا ہے ۔ اس کے اکثر اصولوں پر بلوچوں کے علاوہ افغانستان و ایران کی دوسری اقوام سندھ ، پنجاب اور راجپوتوں پر اب بھی عمل کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ ماسوائے بلوچوں میں کے دوسری اقوام میں بطور ضابطہ استعمال نہیں ہوتا ہے ۔ لیکن ان اصولوں پر سختی سے عمل کیا جاتاہے اور اس کی وجہ سے ان اقوام میں اکثر کشت و خون کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس کا سبب زیادہ تر زن ، زر اور زمین ہوتا ہے اور افغانوں کی طرح زیادہ تر سبب آخری الذکر بنتے ہیں اور کشت و خون کا لامحدود سلسلہ شروع ہوجاتا ۔ انتقام لینے کا یہ سلسلہ جاٹوں اور راجپوتوں میں میں لازمی امر کی حثیت رکھتا ہے ۔ اس لئے یہ پنجاب سندھ کے علاوہ شمالی ہند اور راجپوتوں میں عام ہے ۔ گو یہ ضابطہ چند تبدیلوں کے ساتھ تمام آریائی قومیں استعمال کرتی ہیں اور اس کے اثرات ہمیں زمانہ قدیم میں بھی نظر آتے ہیں ۔
راجپوتوں میں بھی پٹھانوں کی طرح زن ، زر اور زمین کشت و خون کے بڑے محرک رہے ہیں ، جاگیر یا زمین کی سرحد کی تکرار اکثر ان میں دشمنی پیدا کردیتی ہیں ۔ جن راجپوتوں کی جاگیریں آپس میں ملتی ہیں ، ان میں اکثر کشت و خون ہوتا رہتا ہے ۔ راجپوت اگر زمین رکھتا ہے تو وہ ٹھاکر کہلاتا ہے ۔ چاہے وہ کتنی قلیل کیوں نہ ہو وہ اسے فروخت نہیں کرتے ہیں ، وہ اس کو وہ مقدس و متبرک سمجھتے ہیں اور وہ اس کی حرص رکھتے ہیں ۔ اگر راجپوت سے زمین چھن جائے تو وہ زعفرانی پوشاک پہن لیتا ہے ۔ یہ محاورہ اس موقع پر بولا جاتا ہے جب راجپوت جان لینے یا دینے سے گریز نہیں کرتا ہے ۔ راجپوتوں کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ زمین کے لئے ان کے مابین دشمنی ہوگئی تھی ۔ میواڑ کے رانا ارسی نے بوندی کے راجہ کو قتل کرکے گودار کے علاقہ پر قبضہ کرلیا ۔ اس کا بدلہ سردار سوبہرا نے رانا کو قتل کرکے لیا ۔ اس واقعہ کے بعد سوبہر کے خاندان کی دشمنی ہوگئی جو برسوں چلتی رہی ۔ راجپوت زمین کے اتنے وفادار ہوتے ہیں کہ اس کے لئے باپ بھائی کو قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں ۔ ماڑوار کے کمار ابھے سنگھ کو سیّد نے فرخ سیر کے زمانے میں پیش کش کی کہ تم باپ کو قتل کرکے تخت پر بیٹھ جاؤ ۔ اس نے انکار کردیا ۔ تو انہوں نے اس سے پوچھا کہ تم کہ تم ماں باپ کی ساکی (شاخ) ہو یا زمین کے ۔ کیوں کے راجپوت زمین پر ہر چیز کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس پر ابھے سنگھ باپ کو قتل کرنے پر راضی ہوگیا اور اس نے باپ کو قتل کرکے ماڑوار کے تخت پر بیٹھ گیا ۔ راجپوت خون کا بدلہ خون چاہتا ہے اور اس سے کم پر راضی نہیں ہوتا ہے ۔ دشمنی ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مجرم خود معافی چاہے یا اس کے پیروں پر گر پڑے اور اپنے کو اس کے حوالے کردے کہ تم جو چاہو سو کرو ۔ دشمنی ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اپنی لڑکی اس سے بیاہ دی جائے ۔ اس طرح بھی دشمنی ختم ہوجاتی ہے ۔ یہ طریقہ اس سے بہتر ہے کہ دشمنوں کے پیروں میں گرے ۔ اگر کوئی راجہ راجپوت کو معاوضہ پر راضی کرے تو وہ بڑا بااختیار ہے ۔ اس طرح قصاص کے بدلے زمین لینے کا بھی دستور ہے ۔ ایک راجپوت کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو کبھی پناہ دینے سے انکار نہیں کرے گا ۔ وہ پناہ لینے والے کی جان و مال کی حفاظت کرے گا ۔ چاہے پناہ لینے والا کتنا ہی کمتر نسل سے تعلق رکھتا ہو ۔ یہ کلیہ برصغیر کی دوسری آریائی اقوام پر بھی صادق ہوتا ہے اور ان میں بھی پناہ لینے والے کی ہر ممکن طریقہ سے مدد کرتے ہیں ۔
سیاہ کار کو موت کے گھاٹ اتارنے کا دستور پنجاب سندھ کے علاوہ شمالی ہند اور عام دستور ہے ۔ راجپوت اور جٹ قبائل کسی بھی سیاہ کار کو زندہ نہیں چھوڑتے ہیں ۔ اس رسم کا ہندوستان میں آنے والے مسلمان سیاحوں نے ذکر کیا ہے ۔ سلیمان تاجر کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بدکاری کرے تو قاعدہ ہے اس قسم کے زانی کو تمام حکومتیں قتل کردیتی ہیں ۔ اگر کوئی جبراً کسی عورت کے ساتھ بدکاری کرتا ہے تو قتل کیا جاتا ہے ۔ اگر فعل عورت کی رضامندی سے فعل وقوع پزیر ہوا ہو تو دونوں کو قتل کرڈالا جاتا ہے ۔ راجپوت اس کو ہر گز قتل نہیں کرتے ہیں جو ہتھیار نہیں اٹھائے ہو ۔ اس طرح وہ عورت اور کمین کی بہت حرمت کرتے ہیں اور اسے قتل کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ اس طرح کوئی عورت یا پجاری آجائے تو بھی لڑائی کو روک دیتے ہیں ۔ یہ کلیہ ان مسلمان قبائل پر بھی صادق آتا ہے جو ہندو سے مسلمان ہوئے ہیں ۔ ان میں بھی دستور ہے کہ وہ سیّد ، اپنے مرشدوں اور عورتوں کے کہنے پربھی لڑائی روک لیتے ہیں اور انہیں قتل کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ راجپوتانہ میں مندروں کی بہت حرمت کی جاتی ہے اور مندروں کی حدود میں داخل ہونے والے فرد کو حکومتیں بھی گرفتار نہیں کرسکتی ہیں ۔ اس کی مثال ناتھ واڑاہ کی ہے جو میواڑ میں اودھے پور کے شمالی جانب دریا کے کنارے کنیا (کرشن) کا مندر ہے ۔ یہ ایک مقدس پناہ گاہ کہلاتا ہے ۔ اس کی حدود میں حدود میں نہ کسی کو گرفتار کیا جاسکتا ہے نہ ہی کسی کو مارا جاسکتا ۔ حتیٰ چوپائے ، پرندے ، کیڑے مکوڑے کو مارا نہیں جاسکتا ہے ۔
اس طرح نہ وہاں کی مچھلیاں پکڑی جاسکتی ہیں اور نہ ہی کسی پودے یا درخت کو کاٹا جاسکتا ہے ۔ کیوں کہ یہاں رہنے والا کنیا کی امان میں رہتا ہے ۔ اس کی حرمت کو پامال کرنے کی ہمت کرنے کی کسی راجہ میں نہیں ہوئی اور انہوں نے ہمیشہ اس کی حرمت کا پاس رکھا ہے ۔کیوں کہ انہیں ڈر ہے کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو ساٹھ ہزار ذوزخ میں چلنا پڑے گا ۔ رامائن میں ہے جب رام نے سیتا چھڑانے کے لئے لنکا پر حملہ کیا تو لنکا پر حملہ کرنے سے پہلے بندروں کو بادشاہ بالی کے بیٹے انگت کو قاصد بنا کر راون کے پاس بھیجا اور کہلاوایا کہ وہ سیتا کو چھوڑ کر دے اور منہ میں گھاس ڈال کر رام کے سامنے حاضر ہوجائے تو اسے معاف کردیا جائے گا ۔ جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ یہ راجپوتوں کا دستور ہے ۔ مغلوں نے جب دکن پر حملہ کیا تو مقامی باشندے اور لشکری مغلوب ہونے کے بعد منہ میں گھاس ڈال کر رام کے امان طلب کی تھی ۔ بالاالذکر حوالوں سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ افغانوں کے ضابطہ معاشرت نہ صرف افغانوں میں ، بلکہ برصغیر کی دوسری قوموں خاص کر بلوچوں ، جٹوں اور راجپوتوں میں چند تبدیلوں کے ساتھ رائج رہے ہیں ۔ اگرچہ یہ بطور ضابطہ کے مروج نہیں تھے ۔ مگر وہ اس سے رد گردانی کا سوچ نہیں سکتے ہیں ۔ گویا یہ آریائی دستور ہیں اور انہیں باقیدہ ضابطہ کے تحت بلوچوں اور افغانوں میں ارتقائی شکل اختیار کی ہے ۔
تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری
عمدہ