توزک افغانی کے مصنف مولوی محمد عباس نے پٹھانوں کو ضحاک نسل سے بیان کیا ہے ۔ مراۃ العالم کے مصنف موج حسین خان سندیلی نے پٹھانوں کو حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے بیان کیا ہے ۔ منہاج سراج نے سنبانیوں کو ضحاک نسل سے بیان کیا ہے ۔ فرشتہ انہیں قطبی نسل سے بیان کرتا ہے ۔ نعمت اللہ ہروی نے مخزن افغانی میں پٹھانوں کو حضرت یعقوبؑ کی اولاد بتایا ہے ۔
بالا الذکر بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ نعمت اللہ نے پہلی دفعہ پٹھانوں کو یہود النسل بتایا ہے اور پٹھانوں کا دعویٰ بھی یہی ہے ۔ لہذا اس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے .
نعمت اللہ ہروی لکھتا ہے کہ بنی اسرائیل بنی افغان اور بنی آصف کی اولادوں کو جن کی تعداد بنی اسرائیل میں سب سے زیادہ تھی ۔ جب بخت نصر نے انہیں شام سے نکالا تو وہ غور کے نواہی علاقے میں آباد ہوگئے ۔ ان میں سے ایک گروہ عرب میں جاکر آباد ہوگیا ۔ عرب کے لوگ انہیں بنی اسرائیل اور بنی افغان کہتے تھے ۔ ولید بن عتبہ بن عکرمہ بھی بنی اسرائیل اور بنی افغان کے قبیلے کے ایک فرد تھا ۔ اس کے جد امجد کا نام مخذوم تھا ۔ اس لئے اس خاندان کو بنی مخذوم کہتے تھے ۔ جو یہودا بن حضرت یعقوبؑ کی اولاد میں تھا ۔ لیکن قریش کی قرب داری کی وجہ سے انہیں قریش کہتے تھے اور قریش سے ان کی رشتہ داری ہوگئی تھی ۔ اس لئے عبدالشمش کو ولید کا دادا کہتے تھے اور انہیں اسی سبب قریش ہی سمجھا جاتا تھا ۔ لیکن وہ حقیقت میں بنی اسرائیل میں سے تھا ۔ اس کے علاوہ بہت سے مصنفین انہیں قریش کا فرد سمجھا ۔ ولید بن عتبہ حضور رﷺ کی زندگی میں مرگیا تھا ۔ حضرت خالدؓ اسی ولید کے لڑکے تھے اور اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئے ۔
حضرت خالدؓ نے بنی افغان کو جو غور کے نواہی علاقے میں آباد تھے ایک خط لکھا ۔ اس خط میں حضرت خالدؓ نے ان قبیلوں کو پیغمبر آخری زماں کی تشریف آوری اور اپنے ایمان کی خبر دی ۔ حضرت خالدؓ کا خط جب اس قوم کے پاس پہنچا تو بنی افغان کا بڑا سردار قیس تھا ۔ جس کا شجرہ چھتیس واسطوں سے افغانہ جو طالوت کا بیٹا تھا تک پہنچتا ہے اور پنتالیس واسطوں سے حضرت ابراہیم تک پہنچتا ہے کی سردگی میں ایک فرد مدینہ پہنچا ۔
افغانوں کی یہ جماعت جب مدینہ پہنچی تو حضرت خالدؓ کی وساعت سے حضور ﷺ کی خدمت میں شرف بازیاب ہوئے ۔ آنحضرتؐ اس جماعت کے ساتھ شفقت فرمائی اور ہر ایک سے اس کا نام پوچھا ۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ قیس عبرانی نام ہے اور بدل کر عبدالرشید رکھ دیا اور فرمایا تم لوگ طالوت کی اولاد ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے ملک کے خطاب سے عزت بخشی ہے اس لئے بہتر ہے کہ لوگ تمہیں ملک کہا کریں ۔
جب آپؐ فتح ملکہ کے لئے روانہ ہوئے تو حضرت خالدؓ اور عبدالرشید دونوں آپؐ کے ہم رکاب ہوئے ۔ فتح مکہ کے دن آپؐ نے بنی اسرائیل کی جماعت کو عبدالرشید کے زیر کمان جہاد میں شریک ہونے کا حکم دیا ۔ اس جماعت نے جانثاری کا ثبوت دیتے ہوئے حضرت خالدؓ کے ہمراہ ستر کافر جہنم رسید کئے ۔
فتح مکہ کے بعد حضرت خالدؓ نے ملک عبدالرشید کی بہادری کے واقعات حضرت محمد ﷺکو بتائے تو آپ کی زبان سے برملا یہ الفاظ جاری ہوئے کہ اللہ اس کی آل و اولاد کو فروغ بخشے گا ۔ اس کے قبیلے کی تعداد اور طاقت سب سے زیادہ ہوگی ۔ بھر آپؐ نے فرمایا کہ مجھے وحی کے ذریعہ آگاہ کردیا گیا کہ اس کی خدمت کے لئے اس قبیلے کی کثرت و استحکام کو وہی حثیت حاصل ہوگی جو کہ کشی یا جہاز کے نیچے والی لکڑی کی ہوتی ہے ، جس پر جہاز کی عمارت استوار ہوتی ہے ۔ چونکہ اس لکڑی کو سمندر اور دریاؤں میں رہنے والے پٹھان کہتے ہیں اس لئے عبدالرشید کو پٹھان کا خطاب دیتا ہوں ۔ میں نے بارگاہ خداوند سے دعا کی ہے کہ اس مرد کی نسلوں سے ایک عظیم قبیلہ پیدا ہو ، جس کے افراد قیامت تک سلامتی اور ایمان کے ساتھ شریعت اسلام پر ثابت قدم رہیں ۔ اس قبیلے میں بڑے بڑے نامور اولیا اور درویش پیدا ہوں گے جو اسلام کے خیمے کا ستون ثابت ہوں گے ۔ پھر آپ نے دست مبارک اٹھا کر دعا مانگی اور اس کے بعد آپؐ پر وحی کا نزول ہوا اور جبریلؑ نے خبر دی کہ عبدالرشید کے بارے میں آپؐ کی مانگی ہوئی دعا قبول ہوگئی اور ہم نے دنیا کے تمام قبیلوں میں اس قبیلے کو برتری دے دی ۔ وقت رخصت کرتے ہوئے حضرت خالدؓ کی درخواست پر ایک انصاری صحابی کو عبدالرشید کے ہمراہ کیا کہ وہ کوہستان غور کے علاقے میں لوگوں کو شریعت کی تعلیم دے ۔
نعمت اللہ ہروی کا کہنا ہے کہ کتب حدیث سے اس خبر کی تصدیق نہیں ہوتی ہے ۔ لیکن تبوک کے بعد ۹ ہجری میں عربوں کے وفد آبحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تو قیس بھی حضرت خالدؓ کی وساعت سے حاضر ہوا ہوگا ۔ جیسا کہ دوسری روایات تو تاریخ میں تو ملتی ہیں لیکن کتب حدیث سے تصدیق نہیں ہوتی ہے ۔
بالاالذکر نعمت اللہ ہڑاتی کی بیان کردہ روایات کو بیان کیا گیا ہے ۔ مگر بعد کے پشتون مصنفین نے اس میں بہت کچھ اضافہ کیا ہے ۔ مثلاً پشتو عبرانی سے نکلی ہے اور دور رسالت میں مکہ و مدینہ میں یہ عام سمجھی جاتی تھی ۔ اس طرح حضرت خالدؓ کی لڑکی ساری سے قیس کا نکاح ہوا تھا ۔ اس سے جو اولاد پیدا ہوئی وہ پٹھان کہلائیں ۔
یہ تمام روایات اور دعویٰ بے سروپا اور من گھڑت ہیں اور یہ تاریخ سے ماخذ نہیں ہیں ۔ اس لئے ان کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور انہیں جھٹلانے کی معتدد وجوہات ہیں ۔ جو درج ذیل ہیں ۔
(۱) اس خبر کا مدینہ سے دور دراز علاقے میں ایک ہزار سال کے دعویٰ کیا گیا ۔ جہاں اسلام چوتھی صدی کے آخر میں آیا ۔
(۲) بنی مخذوم کا بنی اسرائیل ہونے کا تذکرہ قدیم و جدید ماہرین انساب نے کہیں نہیں کیا ہے ۔ البتہ ان کے قریش ہونے کا ذکر اور ان کے شجرہ نسب میں بھی ملتا ہے ۔
(۳) قران کریم کی سورۃ البقرہ کی آیت ۲۴۷ میں یہود سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے ’ تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر کیا گیا ہے ۔ اس طرح قران کریم میں طالوت کو ملک کے خطاب نہیں پکارا گیا ہے ۔
(۴) قیس نام کے اور بھی صحابی گزرے ہیں مگر حضور ﷺ نے ان کا نام تبدیل نہیں کیا تھا ۔
(۵) حضرت خالدؓ نے اسلام ۷ ہجری میں اسلام قبول کیا اور مدینہ ۹ ہجری میں فتح ہوا ۔ اس قلیل عرصہ میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ قاصد جائے اور وفد آجائے ۔ جب کہ یہ سفر اس وقت سالوں کی مسافرت پرمحیط تھا ۔ علاہ ازیں اس علاقے کے سیاسی حالت اور راستے کی دشواری کے سبب یہ سفر آسان نہیں تھا ۔
(۶) حضور ﷺ نے کسی صحابیؓ حتیٰ اپنی آل بھی دنیا کی تمام قبیلوں پر برتری کی دعا نہیں دی ۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ معمولی لڑائی میں شریک ہونے پر نام نہاد عبدالرشید کو اسی طرح کی دعا دی اور اتنی اہم حکم کا رجال کی کتابوں میں ذکر نہیں ہے ۔
(۷) اس خبر کی تصدیق کسی اور زرائع سے نہیں ہوتی ۔ اسماء رجال کی کتابوں اور شرح ستہ کی کتابوں میں ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے ۔ اس لیے اس روایت میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
بالاالذکر ہوچکا ہے کہ افغان وفد کی مکہ آمد کی احادیث اور کسی اور زرائع سے تصدیق نہیں ہوتی ہے جو ان کا نہایت کمزور پہلو ہے ۔ یہی وجہ ہے روشن خان کو کہنا پڑا کہ اگر اس کے بارے میں حدیث خاموش ہے اور یہ قوی اور معقول استدلال ہے تو افغان نسب کہ بارے میں کہ آریا نسل سے تعلق رکھتے ہیں حدیث میں کہاں آیا ہے ۔ پس حدیث کے سکوت کے سے ایک واقع سے انکار کیا جاسکتا ہے تو دوسرے کی تردید کیوں نہیں کی جاسکتی ہے ۔
روشن خان کا جواز معقول ہے ۔ لیکن یہ جواز اس وقت پیدا ہوتا ہے جب پٹھانوں کو آریا ثابت کرنے کے لئے حدیث کا سہارا لیا جائے ۔ حدیث سے انکار کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ حدیث کا سہارا لے کر پٹھانوں کو آریا ثابت کیا جارہا ۔
تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری