184

اُشاس (سپید صبح)

اشاس جس مادے سے ماخوذ ہے اس کے لغوی معنی جلنے ، دہکنے کے ہیں ۔ اس دیوی کی تعریفوں کو شعرائے وید میں جس طرح بیان کیا ہے اور جس قدر اس کی بے حرمتی کی ہے تعجب انگیز ہے ۔ کیوں کہ سوائے اس مقام کے انہوں اس ساتھ ہر جگہ انتہا کی محبت اور انسیت کا اظہار کیا ہے ۔ قریب بیس کے بھجن اس کی تعریف و توصیف میں ہیں اور دوسرے بھجنوں میں بھی اس کا ذکر ہے جس میں شعرا نے اسے محبت سے یاد کیا ہے اور اس کی تعریف میں زور فکر پوری طرح صرف کیا ہے ۔ اکثر مقامات پر اس کو ایک حسین عورت یا دوشیزہ سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنے حسن جھلک مشتاق آنکھوں کو دیکھاتی ہے ۔ مگر ان تعریفوں میں مشرقی حرم سراؤں کی بو آتی ہے اور خط و خال اس صفائی سے بیان کیا گیا کہ اس شاعر کا بیان بالکل عامیانہ معلوم ہوتا ہے ۔ جے میور کا ان کا انتخاب کیا ہے وہ نیچے دیے گئے ہیں ۔
’’ایک حسین دوشیزہ کی طرح جسے اس کی ماں سنواتی ہے یا ایک رقاصہ جو قیمتی کپڑے پہنے ہو ، یا ایک سہاگن جو بن سنور کر اپنے شوہر کے سامنے آئے یا کسی عورت کے جس کا حسن نہانے سے دو بالا ہوجائے وہ مسکراتی ہوئی اور اپنے حسن پر ناز کرتی ہوئی عاشق کے منتظر آنکھوں کو اپنے حسن کا جلوہ دیکھا کر مسرور کرتی ہے’’۔
’’درخشاں اُشاس نظر آنے لگی اس نے آسمان کے دروازے کھول دیے ۔ اس نے جملہ جاندروں کو متحرک کردیا ۔ اس نے روشنی کے خزانے کھول دیے (جس کو تاریکی نے مخفی کردیا تھا) اُشاس نے تمام مخلوقات کو جگا دیا’’۔ (رگ وید ۱ول ۱۱۳۔۴)      
وہ تیزی کے ساتھ آتی ہے ، پاؤں سے چلنے والے جانوروں کو جگاتی ہے ۔ طیور کو اڑاتی ہے ۔ سونے والوں کو وہ جگاتی ہے ۔ کسی کو عیش و عشرت میں مشغول کردیتی ہے ۔ کسی کو حصول دولت کی طرف مائل کرتی ہے ۔ جو لوگ کم دیکھتے ہیں انہیں دور کی شے دکھاتی ہے ۔ کسی کے سر پر تاج شاہی رکھتی ہے ۔ کسی کو حصول دولت کی راہ دکھاتی ہے ۔ کسی کو خدمت گزاری سپرد کرتی ہے ۔ غرض وہ جملہ مخلوقات کو اپنے اپنے کام میں لگادیتی ہے’’۔ (رگ وید اول ۱۱۳،۴،۶) 
’’تونے صبح پوجا کے لیے اگنی کو روشن کراکے اور قربانی کرنے والوں کو جگا کر قربانی کرنے والوں کو جگا کر دیوتاؤں کی بڑی خدمت کی’’۔ (رگ وید اول ۱۱۳،۹)
’’اس نے اپنے گھوڑوں کو اس مقام پر جوتا ہے جہاں سوریا طلوع ہوتا ہے ۔۔۔ ہر متحرک چیز اس کی نگاہ کے سامنے جھک جاتی ہے ۔ یہ منچلی دیوی روشنی پیدا کرتی ہے ۔ اپنے وجود سے آسمان کی ذی عظمت بیٹی دشمنوں کو بھگا دیتی ہے ۔۔۔ اشاس نے ہمارے دشمنوں کو دفع کردیا ۔۔۔ تو ہی تمام مخلوقات کی زندگی کا باعث ہے’’۔ (رگ وید اول ۴۸،۷۔۱۰)
دشمنوں کے ضمن میں نہ صرف تاریکی کی قوتیں شامل ہیں بلکہ چور اور دوسرے بدکردار جنھیں تاریکی سے پناہ ملتی ہے اور بدخوابی بھوت پریت اور سحر میں داخل ہیں ۔ ان دشمنوں سے دفع کرنے والوں کے لیے لازمی تھا کہ اس کے ہاتھ میں ہتھیار ہوتے ۔ مگر شعرا نے اس طرف شاذ و نادر توجہ کی ہے بلکہ اس کا خاکہ کھنچتے ہیں ۔ اس کے حسن اور حسرت نا انجام کا زیادہ تر ذکر کیا ہے ۔ اس حسین اور نیک سیرت ہستی ہے ۔ حالانکہ وہ روز ازل سے موجود ہے اور زندگی کو طویل دیتی ہے اور کم بھی کرتی ہے ۔ کیوں ہر نیا دن انسان کے لیے ایک نعمت ہے مگر اس کے ساتھ اس کی زندگی میں ہر روز کمی بھی ہوتی ہے ۔ لیکن یہ خیال کیا جائے کہ اُشاس باوجود رزق اور شادمانی ، حیات و ممات کی مالک ہونے کے خود بھی فانی اور اس کی زندگی صرف ایک روز یا ایک گھنٹہ کی ہے ۔ کیوں کہ ہر روز ایک سپید صبح ہوتا ہے تو اس کی حالت نہایت حسرت ناک نظر آتی ہے ۔ اشاس کی تعریف میں جو بھجن ہیں ان میں وقت واحد میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ بار بار پیدا ہوتی ہے اور یہ بھی کہ وہ ایک بے پایاں سلسلے کی کڑی ہے ۔ 
’’زمانہ قدیم کے شعرا تیری مڈح سرائی میں رطب اللسان تھے ۔ ہماری تعریف و توصیف کے صلے میں بھی اے اشاس ہمیں روشنی اور تحفہ ادا کر’’۔ (رگ وید اول ۴۸،۱۴) 
’’دیوتاؤں کے قوانین کی پابندی کرتی ہوئی مگر انسان کی جان گنواتی ہوئی اشاس آخر چمکنے لگی ۔ جو سپید صبح ختم ہوچکے ہیں ۔ ان میں یہ آخری ہے اور جو آنے والے ہیں ان پہلی ہے’’۔ (رگ وید اول ۱۲۴،۲) 
’’اے اشاس دیوی ! ہم پر اپنی بہترین کرنیں چمکا اور ہماری زندگی طویل کر’’۔ (رگ وید ۷ ۔ ۷۷،۵)
’’اشاس اس کے قبل بھی نمودار ہوئی ہے اور اب بھی نمودار ہوگی’’۔ (رگ وید اول ۴۸،۳)
’’وہ بار بار پیدا ہوتی ہے گو قدیم ہے ۔ اس کی چمک ہمیشہ ایک ہی رنگ کی ہے وہ آدمیوں کی زندگی اس طرح گنواتی ہے ۔ جیسے کوئی جواری اپنے روپے گنوائے’’۔ (رگ وید اول ۹۲،۱۰)
اشاس ان سپید ہائے صبح کے نقش قدیم پر چلتی ہے جو ختم ہوچکے ہیں اور جو آنے والے ہیں ۔ ان کا پیش خیمہ ہے ۔۔۔۔ گزر ہوئے اور آنے والے سپیدہ ہائے صبح میں کے ساتھ دوری عظیم ہے ۔ اُشاس حسرت کے ساتھ ان سپید ہائے صبح کو یاد کرتی ہے جو ختم ہوچکے ہیں اور آنے والوں کے ساتھ چمکتی ہے ۔ وہ فانی انسان جنہوں نے عہد اولین میں اشاس کو دیکھا تھا دنیا سے سدھار گئے ۔ اب ہم اسے دیکھ رہے ہیں ۔ ہمارے بعد جو لوگ آئیں گے وہ بھی اسے دیکھیں گے ۔۔۔ زمانہ گزشتہ میں اُشاس ہمیشہ طلوع ہوتی تھی اور آج بھی یہ درخشاں دیوی دنیا کو منور کر رہی ، نہ اس کو فنا ہے نہ ذوال’’۔ (رگ وید اول ۱۱۳،۸،۱۳)
اُشاس کی توصیف میں جس قدر بھجن ہیں اس میں آخری سب سے بڑا اور شاعر کے زور قلم میں آخر تک ذرا بھی ضعف نہیں آیا ہے ۔ اس کا آخری حصہ رگ ویدمیں اعلیٰ شاعری کا نمونہ ہے ۔
’’اٹھو ! ہماری مائیہ حیات آگئی ، تاریکی دور ہوگئی ، نور کی آمد ہے ، اشاس نے سوریا کا راستہ کھول دیا ۔ ہم ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں حیات طویل ہوگئی ۔ شاعر (پجاری) جو درخشاں اُشاس کی پوجا کرتا ہے اپنے بھجن کو لے کر اٹھتا ہے ۔ ’’اُشاس ! اپنے پوجا کرنے والے پر چمک ۔ اے دیوتاؤں کی ماں ! اے ادیتی کی مظہر اے قربانی کی نشان بردار ، طاقت ور اشاس ! اپنی چمک دیکھا ۔ اٹھ ! ہماری درخواستوں کو سن ، اے نعمتوں کو بخشنے والی’’۔ (رگ وید اول ۱۱۳،۱۶،۲۰)
اس بھجن کو سننے سے دل میں معاً یہ خیال آتا ہے کہ گویا پجاری دست دعا اٹھائے صبح کے سہانے وقت میں آسمان پر آنکھیں لگائے کھڑا ہے ۔ اس قدیم نظم کی سادگی ، فرط جوش اور بلندی کو کوئی نظم پہنچ سکتی ہے ۔  
اشاس کی پوجا اس کے پجاریوں کرنے والوں کے لیے بہت اہم تھی ۔ یعنی اس کی بے پایاں دولت اس کی آمد سے صرف یہی نہیں ہوتا کہ عالم منور ہوجاتا ہے اور روشنی کی جن گایوں کو اس کی بہن رات نے قید کیا تھا وہ آزاد ہوجاتی ہیں ۔ بلکہ بل الوسطہ اس سے اور بھی برکتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ وہ ہر گھر جاتی ہے ۔ سونے والوں کو خواہ امیر ہو یا غیریب ہوں جگاتی ہے ۔ تاکہ وہ سب اپنے کام میں لگاتی ہے تاکہ وہ اپنے کام کاج میں لگ جائیں اور محنت و مشقت سے حلال کی روٹی پیدا کریں ۔ مگر حصول دولت کے اس معمولی طریقے سے پجاریوں کی تشفی نہیں ہوتی تھی جو ہمیشہ پرستش کرنے والوں کی طرف سے دیوتاؤں سے مویشوں کے مندے ، گھوڑے ، مال غنیمت ، بیویاں ، لونڈیاں ، زبردست اور کثیر التعداد بیٹے مانگے رہتے تھے اور دعا کرتے رہتے تھے کہ بادشاہوں اور دولت مند مربیوں سے خوب انعامات ملیں ۔ یہ سیم زر مخصوص تھا ان پاک باز قربانی کرنے والوں کے پیدا مقررہ اوقات پر رسوم ادا کرتے اور بھجن گاتے ۔ لیکن دعا میں اثر ہونے کے لیے یہ ضروری تھا کہ مقررہ اوقات پر بھجن گائے جاتے رسومات ادا کرتے اور قربانیاں کی جاتیں اور ان اوقات میں صبح کا وقت بہت مقدس اور اہم گنا جاتا تھا ۔ چونکہ اشاس اگنی کو بوقت صبح پوجا کراتی ہے ، بھجن گانے کا وقت بھی بتاتی ہے ، دیوتاؤں کو ان کے ہرکاروں کا طریقہ بتاتی ہے جن کی خواہش ہے ۔ اس وہ دولت تقسیم کرنے والی بھی خیال کی جاتی ہے ، اس لیے وہ بہت آؤ بھگت ہوتی ہے ۔ جیسے کہ نیچے دیئے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے ۔  
’’اے اشاس ! اے آسمان کی بیٹی ! عظمت کے ساتھ آ اور ہمیں فلاح عطا کر ۔ اے درخشاں اور سخی دیوی ہمیں دولت دے ۔ سپید ہائے صبح اپنے ساتھ گھوڑے اور مویشی لاتے ہیں ۔ اے اشاس ! مجھے بھی دولت دے اور بادشاہوں سیم و زر پر مائل کر ۔
’’اے اشاس ! کنوا (پجاریوں کا خاندان) جو اپنے خاندان کا سردار ہے ان بادشاہوں کی مدح سرائی کرتا ہے جو تیرے آتے ہی سیم و زر کی طرف مائل ہوتے ہیں’’۔ (رگ وید اول ۱۱۳،۱۴)
پوجا کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پجاری دیوتا سے کچھ حاصل کرے ۔ فراخ دل فانی انسان کے لیے جو دیوتاؤں کے لیے سوما ، آگ ، پوریاں اور گیت مہیا کرتا ۔ صلہ عظیم بھی ضروری ہے مگر دیوتاؤں سے صلہ مانگے میں وہ یکساں الفاظ استعمال کرتے ہیں یعنی ایک ہی قسم کی چیزیں تعداد مقرہ میں مانگتے ہیں ۔    

تہذیب و تدوین
ّْْ(عبدالمعین انصاری)

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں