158

ایرانیوں کی فتح

جاماسپ بھیس بدل کر سیستان روانہ ہوا ، وہاں اسفندیار کو ساری صورت حال سمجھائی اور اسے باپ کی مدد کرنے کے لیے راضی کیا ۔ اسفندیار جنگ پر روانہ ہونے سے پہلے عہد کیا کہ میں ساری دنیا میں زرتشتی دین کو پھیلاؤں گا اور سیکڑوں آتشکدے بنائوں گا ۔ شارع عام پر کنوئیں کھدواؤں گا اور سرائے بنوائوں گا ۔ اسفندیار میدان جنگ میں باپ کے ساتھ پہنچا ۔ اسفندیار کے آنے کی خبر ایرانیوں کو ملی تو اس سے   ان میں بجلی کی لہر دوڑ گئی اور ہر ایرانی لڑنے مرنے پر تل گیا اور تورانیوں کی ہمتیں ٹوٹ گئیں ۔ ارجاسپ گھبرا گیا اور اس کی ہمت ٹوٹ گئی ۔ اس نے مقابلہ ترک کرکے فرار ہونے کا سوچا مگر فوج کے کہنے پر مقابلے تیار ہوگیا ۔ اس مرتبہ بھی دونوں لشکر تین حصوں میں ہی تقسیم تھے ۔ ایرانی گرگو ، گشتاسپ اور نستورہ کو مقرر کیا ۔ توران میں شاہ چگل ارجاسپ اور کہرام سالاری کر رہے ۔

سورج کے طلوع ہوتے ہی صبح جنگ شروع ہوگئی اور دین زرتشت کے لیے فتح ایران پر قربان ہونے چلی تھی ۔ اسفندیار تورانیوں پر شیر کی طرح حملہ کرکے انہیں بکریوں کی طرح ذبح کر رہا تھا ۔ اس نے تورانی پرچم بردار کو قتل کر کے تورانی پرچم کو سرنگوں کر دیا ۔ اس سے تورانی فوج میں سخت افراتفریح پھیل گئی اور ارجاسب نے یہ دیکھ کر چند افسران کے ساتھ خلخ فرار ہوگیا ۔ یہ دیکھ تورانیوں سے مقابلے سے ہاتھ اٹھالیا اور وہ اسفندیار سے امان کے خواہاں ہوئے ۔ اسفندیار نے حسب معمول مراحم خسرانہ ان کو امان دی اور خود ارجاسپ کے تعاقب میں روانا ہوا اور اسے قتل کرکے اپنے دادا لہراسپ کے خون کا بدلہ لیا ۔ اس طرح دوسری اس مذہبی جنگ کا خاتمہ ہوگیا ۔

شاہنامہ کے مطابق پہلی جنگ کے بعد اسفندیار نے بغاوت کردی تھی مگر وہ شکست کھا کر گرفتار ہوا ۔ اس سورش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ارجاسپ نے پھر ایران پر حملہ کردیا ۔ اس نے خراسان اور بلخ کو لوٹا اور ایران کو شکت دی اور اسفندیار کی بہن کو لے کر بھاگا ۔ اسفند یار نے اس شرط پر اسے رہائی دی گئی کہ وہ ارجاسپ سے بدلہ لے کر بہنوں کو رہائی دلائے گا ۔ اسفندیار نے اس شرط کو قبول کیا اور سوداگر کے بھیس میں ایک جماعت کے توران گیا ۔ جب اس کے تمام ساتھی پہنچ گئے تو اس نے ایک شب اچانک حملہ کرکے اس نے ارجاسپ اور دوسرے لوگوں کو قتل کیا اور بہنوں جن میں ایک اس کی بیوی تھی چھڑا لایا ۔ اسفندیار نے واپسی سے پہلے افراسیاب کے بھائی اگراریس کی اولاد میں سے ایک شخص کو توران کی حکومت دی ۔

ایرانیوں کی اس فتح سے دین زرتشت اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی اور ہزاروں افراد اس دین کو قبول کرنے پر مائل ہوگئے ۔ توران سے واپسی کے بعد اسفندیار ایران کے تخت کا خواہاں ہوا ۔ مگر گرشتاسپ نے حیلے سے کہا کہ رستم نے بغاوت کردی ہے ۔ پہلے اس بغاوت کو سرد کرو اور اسفندیار کو رستم جسے گرگ باراں دیدہ کے مقابلے پر اسے مع بیٹوں سمیت گرم و سرد چشیدہ کے مقابلے میں بھیجوا دیا ۔ جہاں اس کا اپنے بیٹوں سمیت خاتمہ کردیا اور اسے اسے وہاں سے لوٹ کر آنا نصیب نہ ہوا ۔

گشتاسپ اپنے پیغمبر کی موت کے بعد بھی زندہ رہا اور اکثر مذہبی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فوق العادت واقعات اور نشانات کا سلسلہ زرتشت کی موت کے بعد بھی جاری رہا ۔ دین کرت میں لکھا ہے کہ پرانے زمانے کے مشہور جنگجو سرتیو جس کو مرے ہوئے کئی صدیاں گزر چکی تھی کی روح زمین پر اتری اور سرتیو نے بادشاہ کی خدمت میں ایک عجیب و غریب گاڑی پیش کی ۔ اس گاڑی سے ایک اور گاڑی پیدا ہوئی اور ایک گاڑی میں بیٹھ کر بادشاہ نے آسمان کی سیر کی اور دوسری گاڑی میں بیٹھ کر سرتیو آسمانوں میں غائب ہوگیا ۔ گشتاسپ نے ایک سو بیس سال حکومت کی ۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا پوتا بہمن اسفندیار کا بیٹا تخت نشین ہوا ۔ یہ بادشاہ اردشیر داز دست کے نام سے مشہور تھا ۔ یہاں سے تاریخ اور افسانے خلد ملط کر دیا گیا ۔

زرتشت کی موت کے پندرہ سال بعد ان کے دست راست اور دوست فرشوشتر بھی زرتشت سے جاملے ۔ گشتاسپ کے دست راست  فرشتر اپنے بھائی کی موت کے ایک برس بعد وہ بھی انتقال کرگئے ۔ اس کے نو برس بعد ان کا بیٹا ہنگوروش اور اس کے سات سال کے بعد اسموک بھی چل دیے ۔ اس کے بعد سب سے زیادہ جس شخص نے دین کو پھیلانے میں مدد کی تھی ان میں سے ایک سینو سجستان کا رہنے والا تھا سو سال تک جیا اور اس کے سو شاگردوں یا مریدں نے سکندر کی آمد سے پہلے تک دین زرتشتی کو زندہ کیے رکھا ۔

تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں