324

تفسیر

تفسیر کے جو معنی بتائے جاتے ہیں وہ کھول کر بیان کرنا کے ہیں ۔ یعنی کسی تحریر و قول کے مطالب کو سننے والے کے ذہن کے قریب کرنا ۔ اصطلاح میں اس سے مراد قران کے معافی و مفہوم کو واضح کرنا ۔ بالفاظ دیگر تفسیر وہ علم ہے جس میں قران کی کیفیت اور الفاظ کے معنی ، ان کے انفرادی و ترکیبی حالات اور ان کے تمتات کا بیان ۔

بعض علماء کا بیان ہے کہ تفسیر اصطلاح میں نزول آیات ان کے شان نزول اور ان کے اسباب نزول اور ان کے علم کو کہا جاتا ہے اور اس بات کو جاننے کو تفسیر کے نام سے موسوم کرتے ہیں کہ آیات قران کے مکی اور مدنی محکم و متشابہ ، ناسخ و منسوخ ، خاص و عام مطلق  و مقید ، حلال و حرام ، وعدد و وعید ، عبرت و امثال ہونے کی ترتیب معلوم ہو ۔

کہا گہا تمام انسان یکساں عقل و قابلیت کے حامل نہیں ہوتے ہیں ، ان کی استعداد اور صلاحیتوں میں بڑا فرق ہوتا ہے ، کوئی کج فہم ہے کوئی زود فہم ، کوئی ذکی فہم ہوتا ہے اور کوئی بالکل غبی ۔ اس لیے قران کے کلام کو سمجھنے میں ہر شخص یکساں نہیں ہوتا ہے ۔ پھر عام لوگوں کا کلام تو الگ رہا لیکن جہاں معاملہ اللہ کے کلام کا ہو ۔ جس کی جامعیت ، عمہ گیری بسط اور وسعت کا کچھ ٹھکانہ نہیں ۔ جس میں بے شمار مطالب فصاحت و بلاغت ، اوصاف کلام اور معنی و بدیع کی ایک دنیا آباد ہو ۔

امام ابو نصر قشیری کے نذدیک تفسیر موقوف ہے سماع اور اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ وصلم پر کتاب اللہ کا جو مفہوم سنت رسوک اللہ اور احادیث صحیہ و صریح کے ذریعے متعین ہوگا وہ تفسیر ہے ۔

زرکشی نے کہا ہے تفسیر ایک ایسا علم ہے جس کہ ذریعے اللہ تعالی کی کتاب سمجھی جاتی ہے جس اس نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ۔

لیکن قران تو کہتا ہے ہم نے آسان کرکے بیان کیا ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص جو عرب کا رہنے والا ہے اور عربی اس کی مادری زبان ہے تو اس کے لیے قران کی تفسیر کی ضرورت کیوں پڑی ؟ جب کہ یہ تفسیرین ابتدا میں عربی میں لکھی گئیں تھیں ۔ آج کے دور میں مسلمانوں میں جو قران سے مختلف عقائد رائج ہیں ان کی ترقی و ترویج میں حدیث کے بعد تفسیر و تاویل کا بڑا حصہ ہے ۔ اس کے ذریعے اسلام میں خرافات اور ایسے عقائد داخل کیے گئے جو کہ بنیادی طور پر اسلام سے مختلف ہیں ۔

اب مسلمانوں کو ان کے بچپن سے یہ بتایا جاتا ہے کہ قران کریم کو ہر ایک نہیں سمجھ سکتا ہے اور یہ صرف وہی عالم سمجھا سکتا ہے جو کہ عربی دان اور حدیث و فقہ کا ماہر ہوتا ہے ۔ لیکن حقیقت میں قران کی تفسیر لکھنے والے ان علوم کو نہیں جاتے ہیں ۔ وہ کچھ قدیم تفسیروں میں قطع و برید اور اپنے خیالات کو داخل کرکے تفسیر لکھتے ہیں ۔ جنہیں ہم جزو ایمان سمجھتے ہیں ۔

ہمیں یہ باور کیوں کرایا جاتا ہے کہ قران کی تفسیر و تشریح آنحضور کی ذمہ داریوں میں سے ایک تھی اور قران کریم میں فرمایا ’اور وہ قران کی تعلیم دیتے اور سیکھاتے ہیں’ اور یہ کہا گیا کہ آپ کے بعد صحابہ کرام قران کی تفسیر کرتے رہے ۔ اس بارے میں بہت سے صحابیوں کے نام آتے ہیں ۔ جن میں عبداللہ بن عباس اور حضرت ابن کعب زیادہ مشہور ہیں ۔ اس کے بعد کے دور میں ہزاروں تفسیریں لکھی گئیں اور لکھی جارہی ہیں ۔ لیکن یہ حقیقت ہے ان صحابیوں کے نام سے تفسیروں و تاویل کے ذریعے ہی دوسرے عقائد جن میں پارسی اور اسرائیلی عقائد و خیالات کو اسلام کا حصہ بنا دیا گیا ۔ یہاں ہم صرف عبداللہؓ بن عباس کے حوالے سے کچھ سوالات کرتے ہیں ۔   

آنحضور سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ ابن عباس کے لیے فرمایا ’تو قران کا اچھا ترجمان ہے’ اور یہ روایت بھی ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس آٹھ یا دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے ہیں ۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے ؟ کیوں کہ حضرت عبداللہؓ ابن عباس ہجرت سے تین سال پہلے پیدا ہوئے تھے اور فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا ۔ یعنی قبول اسلام کے وقت حضرت عبداللہ ابن عباس کی عمر تیرہ برس تھی اور فتح مکہ کے کچھ عرصہ کے بعد ہی آنحضرت کا انتقال ہوگیا تھا ۔ جب کہ حضرت عبداللہ ابن عباس مکہ میں رہے اور انہوں نے ہجرت نہیں کی ۔ پھر دس بارہ سال آنحضرت کی صحبت میں رہنا کہاں سے آگیا آپ حضرت عبداللہؓ ابن عباس کے بارے میں بالاالذکر کلمات کیسے کہہ سکتے ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ روایات وضعی ہیں اور اس طرح کی دوسری روایات جو ہیں وہ بھی وضعی ہیں ۔ کیوں کہ عرب کے رہنے والوں کو کسی تفسیر یا تاویل کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ یہ روایتیں اس وقت وضع کی گئی جب کہ نئے نئے عقائد اسلام میں داخل کیے گئے ہیں ۔ یہاں ہمیں ان روایتوں کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں تھی اور عرب صاف صاف بیان کرتے تھے اور ان میں تاویل یا تفسیر کا رواج نہیں تھا ۔

یہاں سوال پیدا اٹھا ہے کہ تفسیر و تاویل کا رواج کہاں سے آیا ہے ۔ اس کے لیے ایک تفصیلی بحث کی ضرورت ہے ۔

عباسی خلیفہ المہدی سے پارسیوں نے شکایت کی کہ مانی مذہب کے لوگ اوستا کی تفسیر و تاویل کرتے ہیں اور اوستا کے اصل متن کے بجائے اس کی تاویل اور تفسیر کے ذریعے ان کے معنی اپنی رائے کے مطابق کرنے کے لیے اس کی تاویل کرتے تھے اور یہ لوگ جو بظاہر مسلمان ہوچکے لیکن درپردہ مانی ہیں اور اسلام میں بھی اپنے عقائد داخل کر رہے ۔ مہدی نے ان کی سرزش کے لیے ایک خاص افسر کو مقرر کیا اور یہ لوگ زندیق کہلاتے تھے ۔ جو کہ فارسی زندیک سے نکلا ہے ۔ یہ پہلا موقع تھا جب تفسیر کا کلمہ مروج ہوا ۔ اس سے ایک بات صاف ظاہر ہے کہ تفسیر کا دستور ایرانی ہے اور اس کے ذریعے انہوں نے اپنے خیالات اور عقائد کو اسلام میں داخل کیا اور ان کی تاویلیں کی گئیں جو کہ شیعوں اور خاص کر اسمعیلیوں کا خاص عقیدہ ہے ۔ یعنی معنی ظاہری چھوڑ کر باطنی معنی لینا ۔ تاویل کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون پہلے لکھ چکا ہوں ۔

ابن ندیم اپنی کتاب الفہرست میں لکھتا ہے کہ جوارش ایرانی بادشاہوں کا ایک خاص رسم الخط تھا ۔ جس میں لکھا تو آرمی جاتا تھا اور اسے پڑھا پہلوی میں جاتا تھا ۔ مثلاً ملکان ملکہ لکھا جاتا تھا اور اسے پڑھا جاتا شاہ شہان ۔ یعنی ایرانیوں میں دستور تھا جو کچھ لکھا جاتا اس کو ظاہری سمجھتے تھے اور اس کی جگہ وہ الفاظ پڑھتے وہ تھے جسے درست سمجھتے تھے ۔ اس طرح فعل کے معنوں میں بھی تبدیلی پیدا کردیتے تھے ۔ مثلاً عربی کا لفظ ’زور’ جس کے معنی زبردستی ہیں ۔ مگر پہلوی میں پڑھتے وقت اس کو دھوکا دیا پڑھتے تھے ۔ یہ بھی قدیم ایرانی زبان پہلوی کی خصوصیت تھی اور اس اثر کے تحت تفسیر کا علم ایجاد کیا گیا ۔ اس کا فائدہ یہ تھا تحریر کے معنی عام لوگ سمجھ نہیں سکتے تھے ۔ اس طرح کسی بھی عبارت کے معنی اپنی مرضی اور عقائد کے تحت لیے جاتے تھے ۔ اس طرح اسلام میں تفسیر کا علم داخل کیا گیا ۔ جس کے زریعے اسلام کے بنیادی عقائدہ کو معطل کر دیا اور اپنی پسند کے عقائد داخل کیے کیے گئے اور اس کی سادگی کو گورکھ دھندہ بنادیا اور اس روایات کے علاوہ نئی نئی اصطلاحات وضع کیں گئیں اور قران کو دوسروں کے لیے ایسا الجھا دیا کہ عام آدمی اس کو سمجھنے سے قاصر ہوگیا اور اسے صرف بے سمجھے پڑھنے کو غنیمت جانا ۔

 تفسیروں میں آپس میں اختلاف کیوں ہے ؟ تفسیر اس کی کی جاتی ہیں کہ عام لوگوں کو وضاحت سے سمجھائی جاسکے ۔ کوئی بھی مکتبہ فکر یا فرقہ یا فقہ قران کی تفسیر جو کچھ کرتا ہے اس میں اس کا عقیدہ ، موقف ، مکتبہ فکر اور فرقہ سب کچھ کارفرما ہوتا ہے اور اسی اختلاف کی وجہ سے فرقے وجود میں آئے ہیں ۔ اسلام میں بھی تفسیروں کی بنیاد جو غلط ہو یا صحیح ، اختلاف یا اتفاق اس کے بنیاد قران کریم ہی ہے ۔ یاد رہے عربی میں مذہب سے مراد دین نہیں ہوتی ہے بلکہ موقف ، مکتبہ فکر ، دبستان فقہ اور فرقہ وغیرہ ہوتے ہیں ۔ اس سے نقطہ سے سے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ فلاں کی تفسیر قران کے خلاف ہے ۔ لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ اس کا قران سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

عبدالمعین انصاری

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں