213

جین مت

  وردھانVardhamana 
بدھ مت کے بعد ایک دوسرے مذہب نے اس سرزمین پر جنم لیا جو جین مت کے نام سے مشہور ہے ۔ اس مذہب کا بانی وردھان تھا ۔ جس کے سال و پیدائش کے سال کا تعین ہو سکا ۔ یوں ۵۴۰ ق م بتایا جاتا ہے ۔ جینی روایات کے مطابق وردھان اس مذہب کے چوبیسویں تیر تھنکر یا گھاٹ بنانے والے Tir Thanker or Ford Maker تھے ۔ یعنی ان سے پہلے تئیس نامعلوم تیر تھنکرTir Thanker گزر چکے ہیں ۔
وردھان کا تعلق ایک کشتری قبیلے جنات ریک Jnatrika سے تھا اور ان کے والد سدارتھ Siddharata سردار تھے ۔ وردھان کو رسم و رواج کے مطابق تعلیم دی گئی ۔ جب یہ جوان ہوئے تو ان کی شادی یشودھ Yasoda سے کردی گئی ۔ جس کے بطن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی ۔ کچھ عرصہ کے بعد ان میں تبدیلی پیدا ہوئی ۔ تیس سال کی عمر میں جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو وہ گھر بار چھور کر بیراگی بن گئے ۔ پہلے وہ سادھوں کی ایک جماعت نیرگرنتھ Nir Grantha کے طریقہ پر عمل کرتے رہے ۔ جس کی بنیاد دو سو سال پہلے ایک سادھو پارسو Parsva نے رکھی تھی ۔ جسے بعد میں تیسواں تیرتھنکر Tir Thanker مان لیا گیا اور نیر گرنتھ Nir Grantha کی اصطلاح جین سنگھ  Sangha Jaina کے ممبروں کے لئے مخصوص ہوگئی ۔ 
وردھان بارہ سال تک سخت محنت و ریاضت میں مشغول رہے ۔ مختلف مقامات کے چکر کاٹتے اور بھیگ مانگ کر پیٹ بھرتے رہے اور پوشیدہ حقائق پر غور و فکر کرتے رہے ۔ آخر بیالیس سال کی عمر میں انہیں گیان حاصل ہوا اور وہ مہاویر Mahavira یعنی فاتح اور نیر گرنتھ یعنی قید و بند سے آزاد ہوگئے ۔ اس کے بعد وہ گیان کی آخری منزل پہنچنے کے بعد وہ بالکل برہنہ رہنے لگے۔ 
گیان حاصل کرنے کے بعد گوتم کی طرح وردھان مختلف مقامات پر خصوصیت کے ساتھ کوشل ، مگدھ ، انگ اور متھیلا میں اپنے مذہب کی تبلیغ کی اور بہت سے لوگوں کو اپنے مذہب میں داخل کیا ۔ جین روایات کے مطابق چندر گپت موریا نے بھی اس مذہب کو قبول کرکے آخر عہد میں سلطنت سے علیحدیگی اختیار کرلی تھی ۔ چندر گپت کے علاوہ بہار کے اجات سترو اور لکشوی راجہ کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مہاویرکی بڑی مدد کی اور سہولتیں بہم پہنچائیں ۔ اس طرح تیس سال تک اپنے مذہب کا پرچار کرنے کے بعد مہاویر نے بہتر سال کی عمر میں راج گڑھ کے قریب پاوا  Pava میں انتقال مستقل فاقہ کشی سے ہوا تھا ۔ 
تعلیمات
مہاویر کی تعلیم نظری طور پر وہی تھی جو ہندو فلسفی کیپل Kapila نے پیش کیں تھیں اور سانکھیہ Sankhaya فلسفہ کے نام سے موسوم ہے ۔ وہ بھی کائنات کو ازلی اور ابدی مانتے تھے اور کسی خالق اور علت کو تسلیم نہیں کرتے تھے ۔ ان کو اس کا یقین تھا کہ تمام تبدیلیاں عالمگیر قانون کے تحت پیدا ہوتی ہیں اور ان کے پیچھے کوئی شعور کار فرما نہیں ہے ۔ محض چند ارواح اور پانچ قسم کی ذی روح ہستیاں ہیں ۔ جو حقیقت کے لحاظ سے ترقی و ذوال یا تغیر و تخریب کو جنم دیتی ہیں ۔ یعنی پہلے تغیر کا دور آتا ہے پھر تخریب کا دور شروع ہوتا ہے ۔ اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور جاری رہے گا ۔ یہ قیامت اور حشر و نشر کے قائل نہیں تھے مگر روح کے وجود کو مانتے تھے اور اسے بھی مادہ کی طرح ازلی و ابدی تسلیم کرتے ہیں ۔ 
ان کا خیال ہے کہ انسان کی ترکیب روح اور مادہ دونوں سے ہوئی ہے ۔ ریاضت یا مجاہدے سے مادہ یا جسم کمزور ہوتا ہے اور روح کو قوت حاصل ہوتی ہے ۔ یہاں تک جسم مغلوب ہوجاتا ہے ۔ اس طرح روح بچ جاتی ہے اور سچا عقیدہ اور اچھے عمل کی توفیق عطا ہوتی ہے ۔ اس کے بعد موت آتی ہے تو روح کو کامل سکون حاصل ہوتا ہے اور وہ آرواگون کے چکر سے چھوٹ جاتی ہے ۔ یہی موکش یا نروان Mukasha or Nirvana ہے ۔ گوتم کی طرح مہاویر کا عقیدہ تھا کہ تمام اعمال کا نتیجہ بھی ’موکش یا مکتی‘ یعنی تناسخ کے چکر سے رہائی حاصل کرنا ہے اور یہ رہائی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کرم کا تعلق باقی ہے ۔ مزکورہ بنیادی عقائد واضع کرنے کے لئے یا مہاویر نے موکش حاصل کرنے کے لئے چند اصول بتائے ہیں ۔ وہ لوگوں کو بھوکا رہنے اور سخت ، محنت ، ریاضت اور مجاہدہ میں مشغول رہنے یونی یوگ طریقہ پر عمل کرنے کی تلفین کرتے تھے ۔ 
مہاویر کا خیال تھا کہ دنیا سے نجات حاصل کرنے کے لئے دنیا سے مکمل علحیدگی یہاں تک برہنہ رہنا ضروری ہے ۔ نیز فاقہ کشی کرتے کرتے مرجانا سب سے بہتر ہے ۔ وہ اہنسا کے زبر دست مبلغ تھے ، ان کے نزدیک کسی ذی روح کو ہلاک کرنا یا تکلیف دینا سخت گناہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مذہب کے ماننے والے جوں ، مچھر ، کھٹمل اور زہریلے جانوروں کو ہلاک نہیں کرتے ہیں ۔ بلکہ پلنگ جس پر کھٹمل ہوں کسی تندرست آدمی کو پیسے دے کر سلاتے ہیں تاکہ کھٹملوں کو غذا حاصل ہو انہیں ثواب ملے ۔ وہ غروب آفتاب سے پہلے کھانا کھالیتے ہیں تاکہ تاریکی میں کوئی کیڑا ان کے کھانے میں نہ آجائے اور وہ اس کی ہلاکت کا باعث بنیں ۔ اس طرح شمع روشن کرنا ان کے نزدیک مناسب نہیں ہے ۔ کیوں کہ یہ پروانوں کی ہلاکت کی وجہ بنتی ہے ۔ نیز وہ جب چلتے ہیں تو پیر نہایت ہلکے رکھتے ہیں تاکہ کوئی کیڑا ان کے پیروں تلے آکر مر نہیں جائے ۔ اس طرح اہنسا جین مت کا پہلا اصول اور دوسرا ترک دنیا ہے ۔ 
فرقے
مہاویرکی موت کے بعد ان کے پیرو دو فرقوں میں بٹ گئے ۔ جو ڈگمبرDigamara اور سوتنامبر Sventambara کے نام سے موسوم ہوئے ۔ ان میں سے اول الذکر اصل مذہب اور مہاویر کی طرح برہنہ رہنا ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ جب کہ سوتنامبر اس کے برخلاف سفید کپڑا پہنتے کی اجازت دیتا ہے ۔ دونوں فرقے اس مذہب کے چوبیس تھنکروں کو دیوتاؤں کی طرح پوجتے ہیں اور عام زندگی میں مثلاً شادی بیاہ ، پیدائش اور موت وغیرہ میں ہندو طریقہ و رسم رواج کی پیروی کرتے ہیں ۔ گوتم کی طرح مہاویر نے اپنے پیروؤں کے لئے سنگھ قائم کئے تھے ۔ جس ممبرں کو نیر گرنتھ کہتے ہیں اور ان کو سنگھ کے احکامات کی پوری پابندی کرنی ہوتی ہے ۔ 
جینی روایات کے مطابق اس مذہب کی متعبین کی ایک مجلس ۳۰۰ ق م میں پاٹلی پتر میں منعقد ہوئی ۔ جس کا مقصد مہاویر کی تعلیمات کو قلمبند کرنا تھا ۔ مگر اس مجلس میں ڈگمبرفرقہ شریک نہیں ہوا اور صرف سوتنامبر فرقہ نے ہی اس مذہب کی کتابیں مدون کیں ۔ جو بارہ انگ Anga یعنی اعضاء کے نام سے مشہور ہوئیں ۔ پھر ۵۱۲ء میں دوسری مجلس گجرات میں دلبھی Valabhi کے مقام پر منعقد ہوئی ۔ جس میں مذکورہ بارہ انگ کو دوبارہ ازسر نو مدون کیا گیا اور اس مواقع پر بارویں انگ میں نظر انداز کردیا گیا اور صرف گیارہ انگ کو ہی مذہبی کتابوں میں شامل کیا گیا ۔ چونکہ ان کتابوں کو سوتنامبر نے مدون کیا تھا اس لئے ڈگمبرفرقے نے انہیں مقدس ماننے سے انکار کردیا ۔

تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں