187

متھرایت

عیسائی ماخذ کے بیانات ہم دیکھیں تو وہاں ایک خاص بات نظر آتی ہے جو متھرا کی پوجا ہے ۔ وقائع شہدائے ایران جو کہ سریانی میں ان عیسائیوں کے باے میں ہیں جنہوں نے زرتشیت کو چھوڑ کر عیسائیت قبول کرلی تھی اور انہیں تشدد کے ذریعے مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ اپنا قدیم دین اختیار کرلیں ۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ یزدگر دوم سورج کی قسم کھاتا ہے کہ ’قسم آفتاب کی جو خدائے برتر ہے ۔ جو دنیا کو اپنی شعاعوں سے روشن کرتا ہے اور اپنی حرارت سے تمام جانداروں کو گرمی پہنچاتا ہے’ ۔ بادشاہ نے سورج کی قسم کو تین چار مرتبہ نہایت سنجیدیگی کے ساتھ دھرایا ہے ۔ عیسائیوں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ آفتاب کی پرستش کریں ۔ شاپور دوم نے سائمن بارصبتعی Simon Barsabba کو سورج کی پوجا کرنے پر اس کی جان بخشنے پر رضامند ہوا تھا ۔ لیکن جب وہ اس کے لیے رضامند نہیں ہوا تو اسے شہید کردیا گیا ۔ ایلزے لکھتا ہے کہ یزدگر دوم کے حکم سے جب آرمینا کے عیسائیوں پر ظلم و تشدد جاری تھا تو عیسائی قیس لیونس نے تن شاپور رئیس احتساب مذہبی سے کہا کہ تو بادشاہ کے حکم سے ہم کو آفتاب کی پرستش پر مجبور کر رہا ہے اور وہ خود بھی بلند آواز میں آفتاب کی ستائیش اور پوجا کرتا ہے ۔ ایک اور موقع پر آفتاب کی پرستش سے پہلے قربانیاں دی گئیں اور مجوسی رسمیں ادا کی گئیں ۔ بقول پروکوپیوس کہ مجوسیوں کی شریعت کا یہ حکم تھا کہ نکلتے سورج کی پرستش کی جائے ۔

یہ سورج دیوتا یا خدائے آفتاب کون ہے ؟ ہور (سورج) یا ہور کھشیت (خورشید بادشاہ) کتب اوستا میں دیوتاؤں کی صنف میں جلوہ گر ہے ۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کبھی اس قدر اہمیت حاصل نہیں ہوئی مگر عہد ساسانی میں مجوسی جس خدا کی پوجا کرتے تھے وہ اہور مزد نہیں تھا بلکہ مہر یعنی خدائے آفتاب تھا ۔ جس کو قدیم یشوں میں متھرا لکھا گیا ہے ۔ متھرا جو عہد و پیمان اور نور صبحگاہی کا خدا تھا ۔ جسے اہل بابل کے ہاں شمش (خدائے آفتاب) پوجتے تھے اور جس کو  روم کے متھرا کی پرستش کرنے والوں نے سول ان وکٹس Sol Invictus بنالیا ۔

طاق بستاں میں اردشیر دوم کی برجستہ تصویر میں متھرا کو جو اپنے سر کے گرد کی شعاؤں کے ہالے سے شناخت کیا جاسکتا ہے بادشاہ کے پیچھے دیکھایا گیا ۔ برلن کے عجائب گھر میں ساسانی زمانے کی ایک مہر جس پر پہلوی حروف میں اس کے مالک کا نام (پہلوی ہوتر) کھدا ہوا ہے ۔ یہ نام اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ مہر پر جو تصویر بنی ہوئی ہے وہ متھرا کی ہے ۔ جس میں اس کے جسم کا بالائی حصہ اور اس کے گرد ہالہ بنا ہوا ہے اور سورج کی رتھ ہے جس کو دو پروار گھوڑے کھنچ رہے ہیں ۔ یہ خدائے آفتاب کی چار اسپہ گاڑی کی ایک اختلافی شکل ہے جس کا تصور یونانی بت سازی سے لیا گیا ہے ۔ اسی دو اسپہ رتھ کی تصویر ایک کپڑے پر بنی ہوئی ہے جو ساسانی نمونے پر بنایا گیا ہے اور برسلز میں سینکانت نیر کے عجائب گھر میں رکھا ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ساسانیوں کے زمانے میں سورج دیوتا کی رتھ میں چار کے بجائے دو گھوڑے لگائے جاتے تھے ۔                                                                                                    

مورخ ایلزے نے لکھا ہے کہ شاہ ایران نے رئیس خلوت کو کہا کہ ’تمہیں یہ اختیار نہیں ہے کہ متھرا (آفتاب) کی پرستش نہیں کرو ۔ جو اپنی شعاؤں سے تمام دنیا کو روشنی بخشتا ہے اور اپنی حرارت سے انسانوں اور جانوروں کے لیے خوراک تیار کرتا ہے اور اپنی بے ذریع سخاوت اور ہمہ گیر فیاضی کی وجہ سے خدائے مہر کہلاتا ہے ۔ اس میں نہ مکر و فریب ہے اور نہ غفلت و جہالت ۔‘ خدائے متھرا کو خدا کا بیٹا اور سات خداؤں کا کا دلیر مدگار بتایا گیا ہے ۔ یہاں سات خداؤں سے مراد ساتھ امیشہ شنت (پہلوی امہرسپتدان) یعنی فرشتے ہیں ۔  مھترا کاذکر یاسنا اور اس کے نام پر یشت بھی ۔

تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں