438

کاکڑ

افغانوں کے شجرہ میں کاکڑ بن دانی بن غرغشت بن قیس عبدالرشید اس کا شجرہ نسب آیا ہے ۔

کلمہ کاکڑ دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ کا+کڑ=کاکڑ ۔ اس کلمہ کا ابتدائی جزو ’کا‘ وسط ایشیا ، ایران ، افغانستان اور برصغیر کے علاقوں ، قوموں اور شہروں کے ناموں کا عام جزو ہے ۔ مثلاً کاشیان  ، کابل ، کاشی ، کالنجر ، کاٹھی ، کامیک یا کمیک ، کیرل پٹھانوں اور راجپوتوں کا قبیلہ اور کہیری بلوچوں کا ایک قبیلہ ہے ۔

جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ کلمات ’کا ، کے کو’ ہم معنی ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال ہوئے ہیں ۔ نیز کاکستھ راجپوتوں میں سورج بنسی کے متبادل کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ ابو الغازی لکھتا ہے کہ اوغوز کے چھے فرزند تھے ۔ بڑے بیٹے کا نام کین یعنی سورج تھا اور اس سے سورج کی نسل پیدا ہوئی ہے ۔

اس سے نتیجہ بخوبی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کلمات ’کا ، کے اور کر ‘ کین کا معرب ہیں اور ان کلمات کو استعمال کرنے والے سورج کی اولاد کے مدعی ہیں اور سورج کی پوجا کرتے تھے ۔ اس کی تائید کاکستھ سے ہوتی ہے جس کے معنی سورج بنسی کے ہیں ۔ برصغیر میں اب بھی سورج کی پوجا ہوتی ہے اور یہ کلمہ یہاں کی قوموں کے ناموں میں عام استعمال ہوا ہے ۔ کیرل جو سورج بنسی تھے اور چھتیس راج کلی میں شامل ہیں ۔ (دیکھے چھتیس راج کلی) اس طرح یہ نام کوکرا ، کہیر، کرل اور کوہیلا وغیرہ میں ملتا ہے ۔ ایران کا افسانوی خاندان کیان تھا ۔ اکثر قدیم ایرانی بادشاہوں کے ناموں میں یہ کلمہ استعمال ہوا ہے ۔ مثلاً کے خسرو وغیرہ ۔ یہ کلمہ پرانوں میں ککی آیا ہے ۔

کلمہ کاکڑ کا دوسرا جزو ’کڑ‘ جو کر کا پشتو تلفظ ہے نسبت کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ سوراشٹر میں اب بھی ناموں کے ساتھ لگانے کا رواج ہے ۔ مثلاً کموجکر وغیرہ ۔ اس طرح ، کا = سورج اور کڑ = متعلق یعنی سورج کے متعلق ۔ اس طرح کاکڑ کے معنی سورج کے پجاری کے ہوئے ۔ اس سے کماحقہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ برصغیر کے سورج بنسیوں کے ہم نسل ہیں اور ان کی طرح قدیم زمانے میں سورج کی پوجا کرتے تھے اور مسلمان ہونے کے بعد وہ اس حقیت کو بھول گئے اور شجرہ نسب ترتیب دیتے ہوئے انہوں نے اسے اپنا جدامجد تصور کرتے ہوئے اس ے اپنا مورث اعلی کی حثیت سے پیش کیا ۔

ژوب کے کاکڑوں میں ایک عجیب رسم تھی کہ وہ مہمانوں کی خاطر تواضح لڑکیوں کو پیش کر کے کرتے تھے ۔ اگر گھر میں کوئی لڑکی میسر نہیں ہوتی تھی تو وہ کسی دوست یا عزیز سے مستعار لے لیا کرتے تھے ۔ (ژوب گزیٹیر) یہ رسم جو چین اور برصغیر کی بعض قوموں میں ملتی ہے ۔ مگر ہاکسن کا کہنا ہے کہ یہ رسم زرتشتیوں کی ہے خاندان کا سربراہ اپنی بیوی یا بیٹی کو کلی طور یا عارضی کسی مرد کے حوالے کرسکتا تھا ۔ اس سلسلے میں عورت کی رضامندی ضروری نہیں تھی ۔ کیوں کے شوہر مجاز تھا کہ وہ عارضی طور پر اپنی بیوی کو کسی کے حوالے کرنے کا ۔ اس طرح جو اولاد ہوتی تھی وہ شوہر کی سمجھی جاتی تھی ۔ ماضی میں اس طرح کی رسوم پٹھانوں میں عام تھیں ۔ شاجہاں نے ماضی میں پٹھانوں کی ان جہلانہ رسوم کے خلاف کاروائی کی تھی ۔ 

تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں