288

ہرات

ہری رود کی زرخیز وادی اور اس کھلے میدانی علاقے پر مشتمل ہے جو کہ کوہستان ہزارہ اور سرحد ایران کے درمیان واقع ہے ۔ اس میں ان پہاڑوں کا بڑاحصہ شامل ہے ، جس میں ہزارہ اور چار ایماق قبائل آباد ہیں ۔  
خشاریہ کہ کتبہ میں اس کا نام اریا Aria آیا ہے بعد میں اس کا نام ہری اور پھر ہرات ہوگیا ۔ اس کا دارلریاست شہر ہرات ہے ۔ جو کہ تاریخ مشرق میں نہایت مشہور و معروف ہے ۔ اگرچہ یہ اپنی سابقہ عظمت وشان بڑی حد تک کھو چکا ہے ، تاہم یہ اب بھی اہم مقام ہے ۔ اس صوبے کے جنوبی حصہ میں شہر سبزوار بھی ایک بارونق شہر ہے ۔ ہخامنشی خاندان سے یہ علاقہ سکندرنے چھینا ۔ پھر سلوکی اس کے وارث بنے ، لیکن جلد ہی پارتھیوں نے سلوکیوں کو اس علاقے سے نکال باہر کیا ۔ جب پارتھیوں نے مملکت کی باگ دوڑ ساسانیوں کے حوالے کی تو یہ علاقے ساسانیوں کے قبضے میں آگیا ۔ عربوں کے حملے کے وقت یہاں کا مزبان (حاکم) ماہویہ سوری تھا ۔ جب آخری ساسانی تاجدار یزدگر عربوں سے پناہ لینے کے لئے مرو جارہا تھا تو ماہویہ سوری نے اسے ایک پن چکی والے کے ہاتھوں مروادیا ۔ حضرت عمرؓ کے دور میں جب احنف بن قیس کی سردگی میں عربوں نے پیش قدمی کی تو وہ پیچھے ہٹ گیا اور اس طرح یہ علاقہ عربوںکے قبضے میں آگیا ۔     
ہرات نے تیموری خاندان کے سلطان حسین بالقرا کے عہد میں بڑی شہرت کے حامل شعرا اس کے دربار سے منسلک مولانا عبدالرحمٰن جامی اور میر علی شیر نوائی تھے ۔ یہی ہرات کا شہر تھا جب فارسی زبان کے پہلے غزل گو نابینا شاعر رودکی نے اسمعیل سامانی کے سامنے اپنا یہ مشہور راگ الاپا تھا ۔ 
    بوئے جوئے مولیاں آیدھمی     یاد  یار  مہرباں  آید ھمی

تہذیب و تدوین
عبدلمعین انصاری

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں