210

افراط زر

گزشتہ صدیوں میں قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے ۔ صرف انیسویں صدی اس سے مستثنیٰ ہے ۔ کیوں کہ یہ انقلاب کی صدی تھی ۔ اس صدی میں مختلف ایجادات و انکشافات کی بدولت پیداوار میں اضافہ اور قیمتو ںمیں شدید کمی ہوئی تھی اور یہی وجہ ہے بیسویں صدی کے اوائل سے ہی پوری دنیا کسادبازاری کا شکار ہوگئی ۔ دنیا نے اس کسادبازاری سے نکلنے کے لیے دو جنگ عظیم لڑیں ۔
ایم ۔ ایچ ڈیکاک M H Dekok اپنی کتاب مرکزی بینکاری Centrl Banking میں لکھتا ہے کہ ۱۹۲۹؁ء سے ۱۹۳۸؁ء کے آخر تک برطانیہ ، کنیڈا ، آسٹریلیا اور ارجیٹینا کے علاوہ ہر ملک میں دوران گردش کرنسی میں تقریباً ۹۰ فیصد اضافہ ہوا ، برطانیہ عظمیٰ میں یہ اضافہ تقریبأٔ ۳۵ فیصد رہا ۔ 
۱۹۳۸؁ء کے آخر سے ۱۹۴۴؁ء کے اختتام کا زمانہ جنگ کازمانہ تھا ۔ ۱۹۴۴؁ء کے اختتام پر ریاستہائے متحدہ میں دوران گردش نوٹوں کی تعداد ۱۹۲۹؁ء کے مقابلہ میں دوران گردش نوٹوں کی تعداد سے ۹۰۰ فیصد ، برطانیہ میں ۳۰۰ فیصد ، جرمنی میں ۹۶۰ فیصد ، فرانس میں ۸۵۰ فیصد ، کنیڈا میں ۵۷۰ فیصد ، آسٹریلیا میں ۵۰۰ فیصد ، جنوبی افریقہ میں ۶۷۰ فیصد ، سوئیڈن میں ۴۴۰ فیصد ، سوئزر لینڈ میں ۳۶۰ فیصد ، ارجنٹینا میں ۱۹۰ فیصد اور چلی میں ۷۴۰ فیصد اضافہ ہوا ہے ۔
غیر جانب دارممالک میں نوٹوں کی گردش میں اضافہ کا باعث وہ موافق توازن تجارت تھا جو محارب ملکوں کے متوازن سے پیدا ہوا تھا ۔ محارب ملکوں میں جنگ کے اخراجات کا بڑا حصہ جنگی قرضوں سے پورا ہوا تھا ۔ ان جنگی قرضوں کا اجرا نہیں ہوتا تو محارب ملکوں میںجنگ کے اختتام پر دوران گردش نوٹوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی ۔
 ۱۹۲۹؁ء سے ۱۹۳۳؁ء کا زمانہ شدید کسادبازاری اور بیکاریUnemplyment  کا زمانہ تھا ۔ اس کسادبازاری کے دور میں قرض کو سہل الحصول بنانے کے لیے دوران گردش زر کے اضافے کے ساتھ ساتھ ریاستہائے متحدہ امریکہ اور برطانیہ میں مرکزی بینک کی شرح سود بھی گھٹادی گئی تھی ، لیکن سرمایا کار اس ارزاں مالی پالیسی کے باوجود کوئی فائدہ نہیں اٹھارہے تھے ۔ 
گردش زر کی اس کثرت کے باعث رسد زر Money Supply پرقابو پانے کے عام زرائع اور مرکزی بینک کی شرح کٹوتی کی کارستانی غیر موثرہو کر رہ گئی ۔ ڈیکاک Dekok مزید لکھتا ہے کہ تقریباً ۱۹۳۳؁ء سے مرکزی بینک کی شرح کٹوتی کی کارستانی کے زوال کا اصلی سبب قریب قریب ہر ملک میں زر کی سیالی کیفیت کا وجود رہا ہے جس کے اسباب مختصر طور پر حسب ذیل ہیں ۔ 
(۱) تمام ممالک میں محفوظ سونے کی دوبارہ قیمت بندی ۔ جس کا تعلق کم و بیش سابقہ مساوات زر طلائی کے پیش نظر ان ممالک کے سکہ کی قیمت گھٹ جانے سے ہوا ہے یا نئے سونے کی بہت زیادہ بڑھی ہوئی قیمتوں کے مد نظر سونے کی مجموعی قیمت میں غیر معمولی بیشی مقدار زر میں اضافہ باعث ہوئی ہے ۔ 
(۲) ریاستہائے متحدہ امریکہ ، سوئیڈن ، سوئزرلینڈ ، پرتگال ، انڈیا ، ارجنٹینا اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک کی صورت میں زیر تبصرہ سالوں میں موافق توازن اد ائیگی بہ حیثیت مجموعی اس کا باعث ہوئی ہے ۔ 
(۳) مرکزی بینکوں کا بلواسطہ یا بلاواسطہ افزائش زر جو انہوں نے حکومت کے ایما پر یا دوسرے مقاصد کے پیش نظر جنگ سے پہلے اور بعد جنگ کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے کیا ۔ 
بالخصوص ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ان تمام اسباب نے زیر بحث زمانے میں ایک ساتھ مل کر اثر ڈالا ۔ جب کہ جرمنی میں تیسرا سبب اس تمام مدت میں بنیادی حیثیت سے کار فرما رہا ۔ برطانیہ عظمیٰ میں بھی تینوں اسباب کسی وقت اثر انداز ہوتے رہے ۔ لیکن یہ آخری یعنی تیسرا سبب تھا جس نے بازار زر کو مسلسل طور پر متاثر کیا ۔ 
ڈیکاک Dekok مزید لکھتا ہے کہ عامۃ الناس کے فائدے کے لیے منظم کرنسی کی ترویج اور سہل الحصول  Cheap Money کی برقراری کے مد نظر بہت سے اشخاص کو کینزKeynes کے اس نظریہ سے متفق ہونا پڑا کہ مرکزی بینک کی شرح کٹوتی سود کو تنظیم زر کا متروک یا غیر مستعمل آلہ سمجھنا چاہیے ۔ 
کینز Keynes کے پیش کردہ نظریہ ترجیح سیال کا گرم با زاری کا پہلو برطانیہ میں ۴۷تا ۱۹۴۵؁ ء میں پایا ثبوت کو پہنچا ۔ ۱۹۴۵؁ء میں انگلینڈ کے مرکزی بینک کی مروجہ شرح ۳ فیصد تھی ۔ اس کو گھٹا کر ڈھائی فیصد کردیا گیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا اور دوسری جنگ عظیم کو ختم ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا ، اس لئے ہر چیز کی کمی تھی اور سرمایاکاری کا زرین موقع تھا ۔ کینز Keynes کے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’اختتامی کارکردگی اصل‘ Marginal Efficiency of Capital بڑھ گئی تھی ۔ سرمایا کار اپنا سرمایا لگانے کو تیار بیٹھے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اختتامی کارکردگی میں اضافہ کے باعث زیادہ شرح سود پر سرمایادار قرض لینے پر بھی مائل تھے ۔ ان کے پاس سرکاری کفالتیں بھی تھیں ، اگر انگلینڈ کا مرکزی بینک شرح کٹوتی میں اضافہ کردیتا تو سرمایاکار نقصان کے خوف سے کفالتیں نہیںبھناتے اور نہ تجارتی بینکوں کے پاس قرض کی خاطر جاتے ۔ لیکن بینک آف انگلینڈ نے شرح سود گھٹا کر ڈھائی فیصد کردی ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن اشخاص کے پاس سرکاری کفالتیں تھیں انہوں نے یا تو وہ فروخت کردیں یا تو ان کو بھنالیا ۔ کیوں کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کفالتوں کے پیسے سے کوئی کارو بار کریں ۔ کیوں کہ گرم بازاری کا دور تھا اور اختتامی کارکردگی بڑھی ہوئی تھی ۔ اس طرح بینک آف انگلینڈ کو ایک سال سے کچھ زیادہ مدت میں ۹۰ کروڑ پونڈ اسٹرلنگ بازار زر میں لانے پڑے ۔ لیکن بازارکے جذبات نہیں سرد ہوئے اور آخر کار بینک آف انگلنیڈ کو پیچھے ہٹنا پڑا ۔ بینک آف انگلینڈ کی شرح سود پھر ۳ فیصد بلکہ اس سے زیادہ کردی ۔ یہ ایک طرف بینک آف انگلینڈ کی حکمت عملی کی ناکامی تھی ، دوسری طرف کینز Keynes کے نظریہ ترجیح سیال کی کامیابی کا ثبوت تھا ۔
آر ایس سیرز R S sayers اپنی کتاب جدید بینکاری Modern Banking میں لکھتا ہے کہ ۴۷ ۔ ۱۹۴۵؁ء میں یہ بات نہیں تھی کہ حکام شرح سود گھٹانے میںعجلت کررہے تھے ۔ جو کے ان حالات میں گھٹنے والی تھی اور یہ احساس کہ سرکاری پالیسی معاشیات کے وقتی تقاضوں کے منافی تھی افراط زر کے ظہور کا باعث ہوا ۔ جس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا یا اس کوشش میں سارا مالیاتی نظام Monetary System بدنام ہوکررہ گیا۔
بڑے پیمانے پر تخلیق زر کی یہ کوششیں جو تمام بڑے ملکوں کی حکومتوں نے اختیار کیں تھیں تجارتی بینکوں کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ بن گیئں ۔ سرمایا کار ان سے قرض لینے نہیں آرہے تھے ۔ آر ۔ ایس۔ سیرز R S sayers اپنی کتاب’متحرک اقتصادیات کی راہ پر ‘Towards Dynamic Ecnomice میں لکھتا ہے کہ موجودہ صدی میں خصوصا ۱۹۲۰؁ء سے بینک کاری کے اعداد شمار کی ایک خصوصیت (کرنسی کی گھٹتی ہوئی قیمت کو ملحوظ رکھ کر) بینک کے قرضوںمیں نشیبی کا رجحان رہا ہے ۔ اس تحریک کے نتائج اتنے دور رس ہیں کہ ان پر خصوصی بحث کی ضرورت ہے ۔ یہ نہ صرف انگلینڈ بلکہ ریاستہائے متحدہ امریکہ اور کنیڈا میں بھی بہت نمایاں ہے اور اس کا اثر کافی سنگین ہے ۔ جب کہ بینکاری کے دوسرے نظام بھی کم و بیش اسی تجربہ سے دوچار ہیں ۔         

تہذیب و تدوین
(عبدالمعین انصاری)

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں