151

عرب مورخین

عربوں سے پہلے بلوچوں کے بارے میں ہمارے پاس ایک ہی ماخذ فردوسی کا شاہنامہ ہے ۔ چوتھی ہجری ;223; گیارویں عیسویں صدی میں لکھا گیا تھا ۔ یہ قدیم ایرانی بادشاہوں کی تاریخ ہے ۔ شاہنامہ میں بلوچوں کا ذکر بار بار آیا ہے ۔ شاہنامہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بلوچ ایرانی باشاہوں کی فوج میں شامل رہے ۔ باوجود اس کے اکثر ایرانی بادشاہوں نے بلوچوں کے خلاف کارائیاں بھی کیں ۔ کیوں کہ یہ شورشیں ، لوٹا ماری اور ڈاکہ زنی کے عادی تھے اور لوگوں کو غلام بنا کر لے جایا کرتے تھے ۔

عربوں نے اپنے ابتدائی دور میں بلوچوں کا ذکر بلوص ، بلوث ، بلوش اور بلوص کے نام سے ذکر کیا ہے ۔ جب حضرت عمر کے دور میں کرامان فتح کیا تو کرامان کے قریبی پہاڑوں میں بلوچ آباد تھے ۔ دسویں صدی عیسویں میں ابن حوقل لکھتا ہے کہ کوچ و بلوچ مکران کی سرزمین پر آباد ہیں ۔ جو ہند و سندھ کی سرزمین ہے ۔

جنوبی ایران پر عربوں کے قابض ہونے کے وقت تک بلوچ کرامان (کرامان 641 میں عربوں نے فتح کرلیاتھا) کے جنوب مغربی حصہ میں آباد تھے ۔ عربوں کے سپہ سالار عبداللہ بن ابی نے کرمان کے مرکز کو اشہر کو آسانی سے فتح کر لیا ۔ اسلیے کرمان کے لوگوں کو بلوچوں کی کمک پہنچ نہ سکی ۔ تاریخی اور جغرافیائی آثار ( خصوصاً عربی تحریروں میں ) نویں صدی عیسویں کے شروع سے پہلے کوچیوں کے ساتھ بلوچوں کا ذکر آیا ہے جو کہ فارس اور کرمان کے درمیانی حصہ میں رہتے تھے ۔ ان مصنفین نے بلوچوں کے بارے میں لکھا ہے کہ بلوچوں کو خانہ بدوش ، مالداری جری اور طاقت ور ہمیشہ لڑنے اور مرنے آمادہ کی حثیت دی ۔ بلوچ ان تجارتی قافلوں کو جو جو ہرمز کی بندرگاہ سے مرکزی ایران (کرمان) اور ہندوستان جاتے تھے لوٹ لیا کرتے تھے ۔

حدود العالم میں لکھا ہے کہ بلوچوں کے سات بنیادی قبیلے تھے اور ہر قبیلے کا علحیدہ رہبر تھا ۔ اس وقت وہ بلوچی بولتے تھے جیسا کہ ابن حوقل لکھتا ہے کہ بلوچی زبان عموماً کرامان میں بولی جانے والی فارسی سے مکمل فرق رکھتی ہے ۔ یہ نہ صرف اپنی مادری زبان بولتے تھے بلکہ فارسی بھی بولتے تھے ۔ مشہور جغرافیہ دان ابن خراد ( وفات 913 ) کا کہنا ہے کہ بلوچ مغربی بلوچستان کے مشرقی حصہ میں آباد ہیں ۔ ایک اور جٖغرافیہ دان الاصطخری کے بقول بلوچ ایک بڑے رقبہ پر آباد تھے جو بلوچوں کے وطن کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔ جہاں تک خراسان میں سکونیت کا تعلق ہے اس کا ذکر ہ میں فردوسی کے شاہانامہ میں بھی ملتا ہے ۔ فردوسی کوچ و بلوچ کی عظیم جنگی فوجوں کا ذکر کرتا ہے جو کیکاوس اور کیخسرو کے لشکر میں شامل تھے ۔ ابن سعد اسمعانی کی کتاب ’ الانساب ‘ کے جغرافیائی ناموں کی فہرست مین بلوجوزانی ( سرخس سے تریباً 40 کلومیٹر جنوب مشرق کی طرف ) کی عظیم بستی کاذکر آتا ہے ۔ نام کی مناسبت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس علاقہ کے رہنے والے بلوچ تھے ۔

ابو القاسم محمد حوقلی بغدادی کہ کہنا ہے کہ قفص اور مکران کے درمیان ایک بیابان ہے جس کے مغرب میں (بلوص) متوجان اور اس کے نواحی علاقہ اور مرموز کے مضافاتی علاقہ واقعہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سات پہاڑ ہیں اور ہر پہاڑ ایک سردار کے ماتحت ہے ۔ یہ کردوں کی طرح ایک قوم ہیں اور انہی کے قبائل کا ایک قبیلہ ہے ۔ اس علاقہ کے مضافات کے میں آباد باشندوں کے مطابق یہ تقیریباً دس ہزار جنگجو افراد پر مشمل ہیں جو اس علاقہ کا دفاع کرتے ہیں ۔ سلطان انہیں وظایف جاری کرکے قابو میں رکھنے کی کوشش کرتاہے ۔ مگر اس کے باوجود پورے کرامان سے لے کر سجستاں (سیستان) اور ایران کے علاقہ تک زہرنی کی وارداتیں کرتے ہیں ۔ اسلیے بادشاہ نے ان کے خطرے کا جڑ سے خاتمہ کردیا اور ان کی وقت و شوکت کو ختم کردیا ۔ ان کے گھروں میں داخل ہوکر انہیں تباہ و برباد کردیا اور نواحی علاقوں کو بھی ویران کردیا ۔ اس طرح انہیں متفرق کرکے بادشاہ کی ملازمت اختیار کرلی ۔ پھر انہیں اپنی مملکت کے مختلف علاقوں میں منتشر کردیا ۔ یہ لوگ خانہ بدوش ہیں ۔ لیکن ان کے پاس سواریاں نہیں ہیں ۔ شکل و صورت کے اعتبار سے یہ لوگ اکثر دبلے پتلے ، گندمی رنگ اور پورے قد و قامت والے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے یہ عرب ہیں اور یہ سارے جزیرہ خراسان میں اہل عرب (قرمط و فاطمین) کے تحت ہیں ۔

حمودی کا کہنا ہے کہ بلوص کردوں کی طرح ایک قوم ہے ۔ فارس اور کرمان کے درمیان ان کا وسیع علاقہ ہے ۔ وہ قفص کے پہاڑوں کے دامن میں اسی نام (بلوص) سے پہچانے جاتے ہیں ۔ یہ بہت طاقت ور اور جنگجو ہوتے ہیں اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ قفص نہایت طاقت ور اور جنگجو ہوتے ہیں اور کسی سے نہیں ڈرتے ہیں ۔ مگر بلوص سے یہ بھی خوف کھاتے ہیں ۔ یہ اونی خیموں میں رہتے ہیں ۔

حمودی مزید لکھتا ہے کہ بلوص ان قبائل میں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ۔ خاندان بویہ کے سلطان عضد الدولہ نے بڑی سرگرمی سے ان کا مقابلہ کرکے انہیں ختم کیا ۔ اس نے ان کے علاقہ پر چڑھائی کی اور ان کا خوب قتل عام کیا اور انہیں منتشر کردیا ۔ ایران کے ہر بادشاہ کے پاس امن کی ضمانت کے طور پر ان کی چیزیں گروی رکھی ہوتی تھیں ۔ ایران کے حکمرانوں نے ان کے متعلق اس طریقہ کار کو ہر دور میں جاری رکھا ۔ یہ مخلوق خدا سب سے زیادہ بھوک و پیاس کو برداشت کرنے والے ہیں ۔ ان کا زاد راہ اکثر بیری سے بنی ہوئی ایک خوراک ہوتی ہے جس کی یہ اخروٹ جتنی ٹکیاں بنالیتے ہیں اور اسے یہ کھا کر گزارہ کرتے ہیں ۔ یہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر یہ مسلمانوں کے حق میں رومیوں اور ترکوں زیادہ سخت ہیں ۔ ان کی تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ اگر یہ شخص کو گرفتار کرتے ہیں تو ننگے پاؤں اور خالی پیٹ بیس فرسنگ (تقریباً ساتھ میل) تک ڈورتے ہوئے اسے لے جاتے ہیں ۔ یہ اکثر سفر میں رہتے ہیں مگر اس کے باوجود سواری کے جانور سے انہیں رغبت نہیں ہے ۔ البتہ بعض اوقات تیز رفتار سواریوں پر سفر کرتے ہیں ۔

اس تفصیل کے بعد چند نکات ذہن میں رکھیں ۔

(۱) بلوچ مسلمانوں سے قدیم زمانے سے کرامان کے پہاڑی علاقہ میں آباد تھے ۔

(۲) بلوچ آج کل اہل سنت پر ہیں مگر یہ پہلے شیعہ تھے ۔

(۳) بلوچ کے ساتھ کوچ کا کلمہ بھی آیا ہے ۔

تہذیب و ترتیب

(عبدالمعین انصاری)

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں