مسلمانوں کی آمد کے بعد برصغیر کے لوگوں پر کیا اثرات پڑئے ۔ یہ ایک بڑا سوال ہے اور اس کا جواب اتنا آسان نہیں ہے ۔ اگرچہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے اثرات برصغیر کے تمدن و تہذیب پر پڑے ۔ مگر اگر بالغ نظری سے دیکھا جائے تو مسلمانوں پر ہندووَں کی تہذیب و تمدن کے اثرات زیادہ شدید ہیں ۔ مسلمانوں پر مذہب ، ثقافت ، تمدن ، زبان پر غرض زندگی کے ہر گوشہ پر ہندووَں کے اثرات پڑے ہیں ۔ اس پر ایک تفصیلی بحث کی ضرورت ہے اور یہ مختصر مضمون اس کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ یہاں صرف برصغیر دوسری قوموں اور خاص مسلمانوں کے اثرات کے بارے مختصر بتایا جاسکتا ہے ۔
یہ تہذیب کا مسلمہ قانون ہے کہ اعلیٰ تہذب کے اثرات کمتر تہذیب پر پڑتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قدیم زمانے اور قرون وسطہ کے وسط تک برصغیر کی تہذیب ایک اعلیٰ مقام رکھتی تھی ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں وہ تمام عناصر پائے جاتے ہیں جو کہ کسی تہذیب تمدن کی تشکیل و ترقی کے لیے ضروری ہوتے ہیں ۔ مثلاً یہاں بہترین قدرتی وسائل جن میں زرعی زمین ، جس پر بغیر کسی مشقت کے پیداوار حاصل ہوتی تھی ۔ اس کے علاوہ موسم اعتدال پزیر ، بارشوں کی کثرت کی وجہ سے کسی نہری نظام کی نظام کی ضرورت نہیں ۔ اس لیے قدرتی طور پر وسیع پر جنگل ، جس میں ہر طرح کے جانوروں اور دوسرے وسائل کی فروانی ۔ اس کے علاوہ سونے چاندی کے علاوہ ہر طرح کی دہاتوں کی کانوں کے علاوہ ہیرے جوہرات کی کانیں تھیں ۔ جب غذا کے فراہمی وسیع پیمانے پر ہوتی ہے تو لازمی اس کا نتیجہ آبادی کا وسیع پھیلاوَ ہوتا ہے اور تہذیب و تمذن کی نمود ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے یہاں ہر دور میں علمی و تمدنی ترقی جاری رہی ۔ اس لیے یہاں ہر پیشہ کے کاریگر کثرت سے دستیاب تھے ، جیسا کہ بابر لکھتا ہے کہ امیر تیمور نے پوری دنیا سے اتنے کاریگر جمع کیئے تھے ۔ جب کہ اس سے کہیں زیادہ میری تعمیرات میں کاریگر کام کر رہے ہیں ۔ جب روزگار کی فکر نہ ہو تو ذہنی بالیدیگی بڑھتی ہے اور نئے نت خیالات جنم لیتے ہیں اور تہذیب و تمدن میں نئے نتے انکشافات و خیالات جنم لیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے یہاں تعمرات ، سائنس ، فلکیات ، مذہب اور فلسفہ میں عظیم انشان ترقی کیں ۔ ان کی علمی مہارت کا تو البیرونی نے بھی اعتراف کیا ہے ۔ یہاں سے مختلف سائنسی انکشافات کو عربوں نے حاصل کیا اور انہیں یورپ تک پہنچایا ۔ دنیا کے سب سے بڑے مذہب بدھ مت نے یہیں جنم لیا ۔ جس کے پیروں کی تعداد دنیا میں کسی بھی اور مذہب سے زیادہ ہے ۔ یہ اور بات ہے بدھ مت جہاں بھی گیا وہاں لوگوں نے اسے اپنے عقائد اور ضرورتوں کے مطابق تبدیل کرلیا ۔
ہند اپنی ذرخیری ، وسائل کی فراہمی اور سونا چاندی کی بہتات کی وجہ سے ہمیشہ ہی وسط ایشیا کے لوگوں کے لیے کشش کا باعث رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے اس علاقہ پر ماقبل مسیح سے ہی وسط ایشاء پر حملے ہوتے رہے ہیں ۔ یہاں کی تہذیب کا چوں کہ دنیا کی ترقی یافتہ تہذیبوں میں شمار ہوتا تھا ۔ اس لیے حملہ آور ہوَنے کے بعد چند وہ چند نسلوں کے بعد ہی اپنی شناخت گم کرکے مقامی لوگوں میں اس طرح فنا ہوگئے کہ انہیں یاد بھی نہ رہا کہ ان آباء بیرونی نژاد تھے ۔ کیوں کہ انہوں نے مکمل طور پر مقامی مذہب اور ثقافت اختیار کرلی ۔
یہاں ترقی یافتہ تمدن ہونے کی وجہ سے یہاں پر جو قو میں حملہ آور ہوئیں اور فتح یاب ہونے کے باوجود وہ جلد ہی مقامی مذہب اور ثقافت کے ہاتھو سرنگوں ہوگئے ۔ حملہ آور ہونے والی قو میں ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کی حامل نہیں تھیں اور برصغیر کے مقابلے میں ان کا تمدن بہت پست تھا اور ان کا مذہب بھی بہت سادہ تھا ۔ اس لیے جلد ہی مقامی ثقافت و مذہب کے آگے سرنگوں ہوگئے ۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ باپ دادا کے نام غیر ملکی ہوتے تھے اور پوتا کا نام مقامی ہے اور ان کے سکوں مقامی دیوتا نظر آتے تھے ۔ اس کا اندازہ ان کے سکوں کے مطالعہ سے بخوبی ہوتا ہے ۔
یہ فطرت کا قانون ہے کہ نچلی تہذیب اعلیٰ تہذیب کا اثر قبول کرتی ہے ۔ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے کہ اعلی تہذیب نے نچلی تہذیب کا اثر قبول کیا ۔ برصغیر پر مسلمانوں کے حملے سے پہلے حملہ آوار قوموں میں دو قوم ایسی تھیں جو کہ ترقی یافتہ تھیں ، ان میں ایک ایرانی اور دوسرے یونانی ۔ ایرانی اپنے وقت کی ترقی یافتہ قوم تھی ۔ ایرانیوں نے صرف کچھ عرصہ کے لیے برصغیر کے مغربی حصہ کو اپنے قبضہ لیا تھا ۔ مگر ان کے اثرات واضع طور شمالی اور مشرقی ہندوستان پر نظر آتے ہیں ۔ خاص کر موریہ عہد میں ۔ یاد رہے موریا عہد سے پہلے علاوہ وادی سندھ کی تہذیب کے ہ میں کسی قسم کے اثری آثار نہیں ملتے ہیں ۔ موریا عہد کے جو بھی آثار ہ میں ملتے ہوں ان پر ایرانی چھاپ صاف نظر آتی ہے مثلاً اشوک کی تعمیرات میں ۔ اس طرح یونانیوں کے جو تذکرے ملے ہیں ان موریاؤں کے دربار کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اور فوجوں کی ترتیب وغیرہ میں ایرانیوں کی چھاپ صاف نظر آتی ہے ۔
یہاں حملہ آور قوموں نے کسی قسم کے آثار نہیں چھوڑے ہیں ۔ سکندر کا حملہ جو کہ یورپین کے نذدیک بہت اہم سمجھا جاتا ہے ۔ مگر اس کے آثار تو دور کی بات ہے یہاں کی کتابوں یا کتبوں میں میں اس کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا ہے ، سکندر کی جو کچھ تفصیلات ملی ہیں وہ صرف یونانی مورخین کی کتابوں میں ملتی ہیں ۔ بعد کے یونانی جنہیں سیتھیوں کے حملے کی وجہ سے باختر سے نقل مکانی کرنی پڑی اور انہوں نے وادی کابل ، شمالی اور وسط ہند اور وادی سندھ پر قبضہ بھی کرلیا تھا ۔ مگر ان کے اثرات صرف کچھ عمارتوں اور ٹیکسلا کے علاقوں میں کچھ بدھ کے مجسموں میں ملتے ہیں ۔ البتہ ان کے سکے چونکہ ہند کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ تھے اس لیے یہاں کے رجاؤں نے اپنے سکے یونانی طرز پر ڈھالنے لگے ۔
یونانیوں کی زبان اور رسم الخط کچھ زیادہ دیر تک زندہ رہی ۔ کیوں کہ آنے والے حملہ آرورں مثلاً کشان اور سیتھیوں نے اسے اپنے سکوں پر استعمال کیا ہے ۔ یونانیوں نے باختر میں ہی یونانی دیوتاءوں کو بھلا کر بدھ مذہب اختیار کرلیا تھا ۔ مگر ہند میں آکر انہوں نے بدھ مذہب کے ذوال کے ساتھ ہی اسے خیرباد کہہ کر مقامی مذہب اختیار کرلیا تھا اور جلد ہی ہندووَں میں اس طرح غائب ہوگئے کہ ان کے بارے صرف اتنا ہی معلوم ہوگیا کہ یون نام کی ہندووَں کی ایک ذات ہے ۔
مذہب کے علاوہ برصغیر میں فلسفہ اور سائنس کا ظہور بھی ہوا ۔ ان لوگوں نے تعمیرات ، دھاتوں کی صفائی اور ان کے استعمال میں نمایاں ترقی کی ۔ خاص کر یہاں کے لوگوں ریاضی میں بہت ترقی کی ۔ بعض شواہد کے مطابق صفر بھی ان کی اخترع ہے اور ان کے پاس سے ہی یہ عربوں تک پہنچا ۔ انہوں نے فلکیات میں بھی قابل ذکر ترقی نہیں کی ۔ یہ لوگ بت پرست تھے اور ہر فلکی اجزام کو کسی نہ کسی دیوتا کا مظہر اور زندہ ہستی مانتے تھے ۔ باوجود ان کی صعیف اعتقادی سے یہاں نہایت ترقی پسندانہ اور حقیقت پسندانہ بہت سی ایسی آوازیں بلند ہوتی رہیں ۔ اگرچہ ان آوازوں کو ان کے عقائد کی بناء پر پزیرائی نہیں ملی ۔ لیکن اس کے باوجود یہاں قدیم زمانے میں یہاں آزاد خیالی دنیا کے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ تھی ۔
برصغیر کے لوگوں میں وسعت اور آزاد خیالی کے باوجو بقول البیرونی کے یہاں لوگوں میں ایک نوع کی تنگ نظری بھی آگئی تھی ۔ ان کا خیال تھا کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم ہیں اور علم و فصل میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ہے اور یہاں لوگ ہر معاملے میں بڑھے ہوئے ہیں ۔ ہندووَں کی تنگ نظر کی وجودہ ریت یا رواج اور قاعدوں کی پابندی تھی ۔
ہندمت کسی ایک مذہب کا نام نہیں ہے ، بلکہ اس میں مختلف و متضاد عقائد و رسوم ، رجحانات ، تصورات اور توہمات کا مجموعہ کا نام ہے ۔ یہ کسی ایک شخص کا قائم کردہ یا لایا ہوا نہیں ہے ، بلکہ مختلف جماعتوں کے مختلف نظریات کا ایک ایسا مرکب ہے ، جو صدیوں میں جاکر تیار ہوا ہے ۔ اس کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ الحاد سے لے کر عقیدہ وحدت الوجود تک بلا قباحت اس میں ضم کر لئے گئے ہیں ۔ دہریت ، بت پرستی ، شجر پرستی ، حیوان پرستی اور خدا پرستی سب اس میں شامل ہیں ۔
ایک اور دعویٰ کیا جاتا ہے مسلمانوں کے اثر سے ان میں توحید کا اثر ہوا اور اس لیے ان میں بہت سے ایسے فرقوں نے جنم لیا ۔ حالنکہ اس میں زرہ بھر سچائی نہیں ہے ۔ توحید کا مبہم ذکر تو ہ میں وید میں بھی ملتا ہے ۔ اس طرح وحدت الوجود بھی ہندووَں کا قدیم فلسفہ ویدیانت ہے اور مکتی یعنی خالق کی ذات میں جذب ہونے کا نام ہے ۔ مسلم تصوف پر اس فلسفہ کے گہرے اثرات ہیں ۔ مسلمانوں کے آمد سے قبل ہی توحیدی فرقے ہندووَں میں موجود تھے ۔ یہ مسلمانوں کی آمد کا ہر گز نتیجہ نہیں ہے ۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد صرف ایک سکھ فرقے نے جنم لیا ، مگر اس کی بنیادیں بھی قدیم تھیں اور یہ کبیر کی تعلیمات پر قائم ہوا تھا اور اس مذہب تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کی تعلیمات سے فائدہ بھی اٹھاہا ۔ اس لیے یہ کہنا کہ مسلمانوں کی آمد کے بعد ان میں توحید کا ارتقاء ہوا محض خام خیالی یا خوش فہمی ہے ۔
مسلمان جب پر صغیر میں آئے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہاں کے کثیر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ۔ خاص کر بدھ قوموں نے بغیر کسی مزاحمت کے اسلام قبول کیا ۔ مثلاً شمالی ہند جہاں بدھوں کی اکثریت تھی ۔ مسلمانوں کے حملے نے ہندو مت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے مگر بدھ مت کے خاتمہ کا سبب بنے ۔ بدھ مت کے ماننے والے برصغیر کے اس علاقہ میں آباد تھے جہاں برصغیر میں مسلمانوں نے قبضہ کیا ۔ جس وقت مسلمان برصغیر آئے اس وقت برصغیر میں باوجود اس کے ہندو مت بدھ مت کے مقابلے طاقت ور تھا ۔ خاص کر وادی کابل ، وادی سندھ اور بنگال کے علاقہ میں علاقہ میں ان کی کثیر تعداد بدھ مت سے تعلق رکھتی تھی ۔ پہلے ہنوں نے ان امن پسند لوگوں کا قتل عام کی اور جو باقی بچے ان کا خاتمہ غزنوی فوجوں نے ان کی خانقائیں جلا کر گنجے سادھوں کا قتل عام کیا ۔ اس طرح بنگال بہار کے علاقہ کے علاقہ میں بدھ مت کثیر تعداد میں آباد تھے ۔ پشاور میں کنشک کا عظیم مینار باقی تھا ۔ مگر اسے جلد ہی آگ لگا کر نست و نابود کردیا گیا ۔ اس طرح باقی ماندہ بدھوں نے اسلام قبول کرلیا ۔ اس طرح بدھ مت برصغیر ہمیشہ کے لیے سے نسبت نابود ہوگیا ۔ مگر ہندو مت اتنا سخت جان تھا کہ وہ اس کو مسلمان کوئی قابل ذکر نقصان نہیں پہنچاسکے ۔ ان کی آبادی کی تناسب ان کی قلیل تعداد نے ہی اسلام قبول کیا ۔
قدیم زمانے میں برصغیر کی علمی و ادب کا چرچا تھا ۔ ان کے علمی خدمات اوپر گنائی ہیں اور دوبارہ ذکر کرنا فضول ہے ۔ مسلمانوں سے بہت پہلے پانی نے سنسکرت کی گرام کو ترتیب دے کر ویدک زبان کو سنسکرت کا نام دیا یعنی سنواری ہوئی زبان اور اس کے مقابل دوسری زبانوں کو پراکرت کا نام دیا تھا ۔ یہ علم سرگرمیاں ان میں مسلمانوں کی آمد تک پورے شباب پر تھیں اور جب تک مسلمان کا نفوز نہیں تھا پرصغیر کے ہندووَں میں علمی ، ادبی ، سائنسی اور تعمیراتی سرگرمیاں زور شور سے جاری تھیں ۔ ان بہت سی یونیورسٹیاں جو کہ ٹیکسلہ ، نالبدہ ، گیا ، اجین ، قنوج اور دوسرے شہروں میں تھیں ، ان میں ٹیکسلہ اور نالبدہ یونیورسٹیاں عظیم تر تھیں ۔ مگر محمود غزنوی کے اور بعد میں غوریوں کے حملے سے یہ علمی ادارے تباہ و ہوگئے ۔
برصغیر میں ویدک کے زمانے میں صرف چار زاتیں تھیں اور وقت کے ساتھ بے شمار ذاتیں وجود میں آگئیں ۔ بقول ابسن کے برصغیر میں ذات کی بنیاد پیشے پر تھی اور اس کا تعلق لازمی طور پر مذہب کا حصہ نہیں ہے ۔ اگرچہ ذات کو ایک تقدس حاصل تھا ، تاہم مسلممانوں کی آمد سے پہلے ایسی مثالیں ملتی تھیں کہ پیشہ کی بنیاد پر ذات میں تبدیلی ہوئیں ۔ مثلا کوئی برہمن راجہ بنے کے بعد چھتری بن گیا یا کوئی چھتری برہمن بن گیا یا کسی راجہ نے کسی کی خدمات سے اس ذات تبدیل کردی یا اس کا درجہ بڑھا دیا اور یہ عمل اس علاقہ میں بھی جاری رہا جہاں مسلمانوں کا اثر و رسوخ نہیں قائم ہوا ۔ مثلاً کانگڑہ کے پہاڑی علاقہ میں ِجہاں انگریزوں کی آمد تک وہاں یہ روایت تھی کہ راجہ نے کسی سے خوش ہوکر اسے اعلیٰ زات میں شامل کر دیا یا ناراض ہوکر اسے کمتر زات میں شامل کردیا ۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی آمد کے بعد ہندووَں نے اپنے مذہب کے تحفظ کے لیے ذاتوں شکنجہ کو سخت کر دیا ۔
ایک بڑا دعویٰ کیا ہے کہ مسلمانوں کی آمد کے بعد اردو وجود میں آئی ۔ حالانکہ اردو کا بنیادی ڈھانچہ ہند آریائی ہے اور برصغیر کی جس گوشہ میں میں چلے جائیں وہاں کی مقامی زبان جس کو آپ نہیں جانتے ہوں کہ اور لب لہجہ مختلف ہو ۔ مگر چند دنوں کے بعد آپ کو بہت سے الفاظ سمجھ میں آنے لگیں گے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ اردو کے الفاظ قدیم آریائی زبان کے ہیں اور اردو میں آکر ان کا لہجہ اور استعمال بدل گیا ہے ۔ اگرچہ قدرتی طور پر مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ دور میں غیرملکی زبانوں فارسی ، ترکی اور عربی الفاظ دخیل ہوگئے ۔ اس طرح اردو وجود میں آگئی ۔ یہ اثرات برصغیر کے ہر علاقہ اور مقامی بولیوں پر ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے ہر قطعہ میں ایک اردو داں طبقہ وجود میں آیا گیا اور ان کی اردو کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مقامی لہجہ کے زیر اثر تھی ۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی میں نقل و حرقت اور کتابوں ترسیل شروع ہوئی تو شہری طبقہ کی زبان مزید نکھری اور موجودہ اردو وجود میں آگئی ۔ یہی وجہ ہے برصغیر کے بہت سے علاقوں کا میں یہ دعوی کیا گیا کہ اردو کا مولد ان کی زبان و علاقہ ہے ۔ گو ان میں کسی کا دعویٰ غلط نہیں ہے ۔ یاد رہ انیسویں صدی عیسوی سے پہلے ہندی کوئی الگ زبان نہیں تھی اور یہ دیوناگری اور عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی ۔ یہی وجہ ہے اردو کا ایک قدیم نام ہندی یا ہندوی بھی تھا ۔ مگر فورٹ ولیم کالج میں جان گلگرسٹ نے ایک کتاب للوجی سے لکھوائی جس میں عربی اور فارسی الفاظ نکال کر اس کی جگہ سنسکرت کے الفاظ استعمال کئے گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے لالوجی کی ہندی خصوصیت صرف اس کا رسم الخط دیوناگری تھی اور اس کی زبان اس قدر صاف تھی کہ اردو لگتی تھی ۔ بہرحال اس طرح ہندی وجود میں آئی ۔ اس طرح سنسکرت کے الفاط اردو میں سے نکال کر عربی اور فارسی کے الفاظ استعمال کئے گئے ۔ اس کے علاوہ اردو اور ہندی کے تمام قاعدے یا سرف اور نحو مشرک ہے صرف ان کے الفاظوں کا خزانہ کچھ مختلف ہے ۔ ہندووَں کی سخت جانی کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوگا کہ انہوں نے مسلمانوں کے ہزار سالہ دور میں سنسکرت اور اس کے رسم الخط کو زندہ رکھا اور اس کا تلفظ اب تک وہی ہے اور یہ عربی الفاظ کی ادائیگی درست طریقہ سے ادا نہیں کرسکتے ہیں ۔
تہذیب و تر تیب
(عبدالمعین انصاری)