pashtoon and other trible 382

پشتونوں اور دوسری قوموں کے مشترک معملات

پشتونوں اور برصغیر کی دوسری اقوام خاص کر راجپوتوں میں بہت سی عادات و رسومات اور دوسرے امور مشترک ہیں ۔ جو کہ ہمارے موقف کو تقویت پہنچاتی ہیں کہ یہ قوام مشترکہ نسلی سر چشمہ سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان میں سے ہم کچھ معملات کی طرف ہم توجہ دلارہے ہیں ۔

گرام

پشتونوں کے علاقے میں بہت سے گاؤں و دیہات کے ناموں میں گرام کا کلمہ آتا ہے ۔ مثلاً کافی گرام ۔ گرام پشتو کلمہ ہے اور اس کے معنی گاؤں کے ہیں ۔

گرام آریائی کلمہ ہے جس کے معنی گاؤں کے ہیں ۔ آریاؤں میں سماج کو گرما اور گھر کے بزرگ لو گرامی کہتے تھے ۔ پنجابی کا گرائیں اور اردو کا گھرانہ اسی سے مشتق ہے ۔  

اسلحہ سے محبت

راجپوت اپنے آلات حرب کی پرستش کرتا ہے وہ فولاد کی قسم کھاتا ہے ۔ وہ ڈھال و تلوار اور برچھی کو سجدہ کرتا ہے ۔ راجپوتوں میں تر سنگھ (تلوار) کی داستان مشہور ہے ۔ پرستش تلوار (ایسی) اور پرستش گھوڑے (اسپو) وسط ایشیا میں قدیم زمانے میں کی جاتی تھی جس کہ باعث ہیروڈوٹس نے اس براعظم کا نام ایشیا رکھا ۔    

پشتو میں گھوڑے کو اشپو کہتے ہیں اور تور تلوار کو ۔ راجپوت گھوڑے کو اشو کہتے ہیں ۔ افغان اپنے آلات حرب سے بہت محبت کرتے ہیں اور انہیں عزیز رکھتے ہیں اور انہیں جس طرح سنوارتے اور سجاتے ہیں اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے یہ قدیم زمانے میں آلات حرب کی پوجا کرتے تھے اور راجپوتوں میں تلوار اور گھوڑے کے مشترکہ نام سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قدیم زمانے میں مشترکہ نسلی سرچشمہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔

عقل کا استعمال

راجپوت ان کاموں میں الجھنا پسند نہیں کرتے ہیں جن میں عقل درکار ہوتی ہے ۔ اس لئے اکثر مست پڑے رہتے ہیں یا عیاشی میں پڑھ جاتے ہیں اور جب سستی چھوڑدیتے ہیں تو چالاک ہو جاتے ہیں اور اس وقت وہ چاہتے ہیں اور اپنا غصہ اور غضب نکالتے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے ہیں کہ وہ قصور وار ہے کہ نہیں ۔ بعض اوقات سازش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں ۔

پشتون ان کاموں میں الجھنا پسند نہیں کرتے ہیں جن میں عقل درکار ہوتی ہے ۔ اور جب اپنا غصہ کسی پر نکالتے ہیں تو وہ بھی اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ قصور وار ہے کہ نہیں اور بعض اوقات سازش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں ۔ 

کلی

پشتو میں کلی گاؤںکے لئے مستعمل ہے ۔ کیپٹن رابنسن کا کہنا ہے کہ یہ لفظ گاؤں کے باشندوں لئے استعمال ہوتا ہے چاہے وہ ایک جگہ مقیم ہوں یا خانہ بدوش ۔ کیرو کا کہنا ہے کہ پٹھان قوم اپنی جبلت کے لحاظ سے سخت انفردیت پسند ، آزاد طبعیت اور خود سر واقع ہوئی ہے ۔ یہاں تک ان کی خالص آبادی کو کوئی بڑا شہر آج تک نمودار نہیں ہوا ہے ۔ ان کے الگ الگ گاؤں (چند گھر) افراد کے نام سے بنتے ہیں ۔ یعنی فلاں کی کلی ۔ جب کہ راجپوت میں خاندان کے لئے کلی استعمال ہوتا ہے ۔         

اس بحث سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ راجپوتوں اور افغانوں کا کلی ہم معنی لفظ ہے اور اس کے معنی خاندان کے ہیں اور بعد میں یہ کلمہ افغانوں میں گاؤں لئے استعمال ہوتا ہے ۔

زناکاری

اگر کوئی عورت پر بڑی نظر ڈالے تو راجپوت اسے قتل کر ڈالتے ہیں ۔ پٹھان بھی زانی اور زناکار کو قتل کردیتے ہیں ۔ لیکن زانی بچ جائے تو معاوضہ پر راضی ہوجاتے ہیں ۔ اس معاملے میں جاٹوں اور بلوچوں کا یہی طرز عمل ہے ۔

آبا اجداد پر فخر

مولانا عبدالقادر مرحوم کا کہنا ہے کہ پٹھان کے لئے ضروری ہے کہ اس کا تعلق کسی نہ کسی قبیلے سے ہو ۔ پٹھان اپنے نام کے ساتھ قبیلے یا خیل کا نام بطور لائقہ لگاتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے ابا اجداد پر فخر کرتے ہیں ۔ جیمز ٹاد کا کہنا ہے کہ غریب سے غریب راجپوت اپنے ابا اجداد پر فخر کرتا ہے ۔ اگرچہ اس کو ورثہ میں یہی کچھ ملا ہو ۔ برصغیر کی دوسری قوموں میں اس کا دستور ہے ۔

آریاؤں میں مذہب سے مراد گویا قوم اور خاندان کی پرستش تھی ۔ آبا اجداد دیوتاؤں کا درجہ رکھتے تھے ۔ شادی اور توالد وتناسل مذہبی و متبرک افعال تھے ۔ بلا بیٹا چھوڑے مر جانا آریوں میں مصیبت عظمیٰ سمجھا جاتی تھی ۔ قوم سے بے قوم ہونا گویاسلسلہ آبا اجداد کو قطع کردینا ۔

آریاؤں میں کوئی فرد اپنے آبااجداد سے جدا نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ فرد کوئی چیز نہیں تھا ، فرد کوئی خالص انسان نہیں تھا بلکہ وہ ماں باپ کی اولاد اور اس کے پیچھے کی پشتیں ، جن سے وہ پیدا ہوا ہے اور اس کے آگے کی وہ جھولیں جو اس کے بعد آنے والی ہیں ۔ آریوں میں باپ کا احترام اس لئے نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ باپ ہے بلکہ اس احترام کے پیچھے وہ پرکھے بھی شامل ہیں ، جن سے یہ خاندان وجود میں آیا ۔ یہی وجہ ہے پٹھانوں میں کوئی بھی شخص بھی اپنے نام میں سابقہ میں عموماً قبیلہ یا خاندان کا نام لگاتا ہے ۔ چاہے وہ کتنے ہی کمتر قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے ۔ بقول مولانا عبدالقادر کے پٹھان کے لیے لازمی ہے کہ اس کا تعلق کسی قبیلہ سے ہو اور یہ قبائلی نام سابقہ کی صورت میں پٹھانوں کے ناموں میں لازمی استعمال ہوتا ہے جو کہ اس بات کی نشادہی کرتا ہے کہ یہ آریائی نژاد ہیں ۔

جھنڈا

آرین لکھتا ہے کہ سکندرکے حملے کے وقت یہاں کی قوموں میں دستور تھا کہ جب وہ اپنے غلاموں کو سلطنت دیتے تھے تو جھنڈا بطور نذر دیتے تھے ۔ راجپوتوں میں حکمرانی کے امتیازی نشان چھتر ، پرچم اور نقارہ تھے ۔ یہ رسم ترکوں اور پٹھانوں میں بھی تھی ۔ جب غیاث الدین نے اپنے غلاموں کو آزاد حکمرانی عطا کی تو منشور کے ساتھ جھنڈا بھی دیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ غوریوں میں حضرت علیٰ اور دوسرے حکمرانوں سے حکمرانی کا منشور اور جھنڈا لینے کی روایات ملتی ہیں ۔ 

نسلی حرمت

ملک فخرالدین حسین غوری کی وفات کے بعد اس کی سلطنت کی حکمرانی سلطان سیف الدین سوری کے حصہ میں آئی ۔ باوجود اس کے دو بڑے بھائی موجود تھے ۔ جن میں بڑا فخر الدین مسعود لونڈی کے بطن سے تھا اور دوسرا ملک الجبال قطب الدین محمد کی والدہ کا نسب بلند نہیں تھا ۔ اس لیے وہ بادشاہ نہیں بنائے گئے ۔ افغانوں میں کنیزوں کے بچوں کو ورثہ یا جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا ہے ۔

پانچ طبقات

راجپوت پانچ طبقات یا گروہ میں تقسیم ہیں ۔ (۱) سورج بنسی (۲) چندر بنسی (۳) آگ بنسی یا اگنی کل (۴) ناگ بنسی یا تکشک (۵) جٹ افغان بھی اپنے کو پانچ طبقات میں تقسیم کرتے ہیں ۔ (۱) سربنی یا سرابند (۲) غرغشتی یا گرگشت (۳) بٹنی (۴ متو (۵) کڑرانی یا کڑلانی ۔ ان طبقات میں تین صلبی ہیں یعنی سرابند ، غڑغشت اور بٹن ۔ دو وصلی ہیں یعنی متو اور کڑرانی ۔

بدلہ

راجپوتوں میں خون کا بدلہ خون ہے اور وہ اس سے کم پر راضی نہیں ہوتا ہے ۔ دشمنی ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مجرم خود معافی چاہے ، تو اس کے پیروں پر گر پڑے اور اپنے کو اس کے حوالے کردے کہ تم جو چاہو سو کرو ۔ دشمنی ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اپنی لڑکی اس سے بیاہ دی جائے ۔ اس طرح بھی دشمنی ختم ہوجاتی ہے ۔ اس طرح قصاص کے بدلے زمین لینے کا بھی دستور ہے ۔

پٹھانوں میں خون کا بدلہ خون ہے اگر مجرم بچ جائے تو معاوضہ بھی لے لیا جاتا ہے ۔ اس طرح معاوضہ میں لڑکیاں بھی دی جاتی ہیں اور مجرم خود کو حوالے کردے تو اسے معاف کردیا جاتا ہے ۔

معاوضہ میں امتیاز

منو شاشتر میں آیا ہے کہ برہمن کشتری کی نسبت چار ، ویش کی نسبت آٹھ اور شودر کی نسبت سوگنی قیمت رکھتا ہے ۔ راجپوت اس پر عمل کرتے ہیں اور بانسبت دوسری قوموں کے راجپوت جاٹ اور دوسری قوموں سے زیادہ معاوضہ لیا جاتا ہے ۔ افغانوں میں بھی معاوضہ کا امتیاز رکھا جاتا ہے ۔ سردار اور اس کے قریبی رشتہ دار اور سیّد کا معاوضہ دوسرے قبائل سے زیادہ لیا جاتا ہے ۔ اس طرح دو قبیلوں کے درمیان بھی معاوضہ کا امتیاز رکھا جاتا ہے عموماً طاقتور قبیلے زیادہ معاوضہ کے حقدار ہوتے ہیں ۔ اگلے وقتوں میں طاقت کو برحق سمجھا جاتا تھا اور خاندان کی حثیت خون بہا کے تعین میں اہم ہوتی تھی ۔ لہذا ایک ملا یا سیّد یا سردار خیل کے کسی فرد کا خون بہا ایک عام قبائل سے دوگنا ہوتا ہے ۔ اس طرح ایک عورت اور کمین پیشہ ور کا خون بہا ایک قبائلی سے نصف ہوتا ہے ۔

سود خوری

راجپوتوں میں ماڑواری ساہوکار سود خوری کے لئے مشہور ہیں اور ماڑواری سود خور ضرب و مثل مشہور ہے ۔ پٹھانوں میں بھی ایک گروہ سود خوری کے لئے مشہور ہے اور ان کی سود خوری بھی ضرب مثل مشہور ہے ۔

پیشہ

آریوں کا پیشہ سپہ گری ، زراعت اور غلہ بانی تھے ۔ راجپوتوں کے پسندیدہ پیشہ سپہ گری ،  غلہ بانی اور تجارت ہیں ۔ مغلوں کی سپاہ کی اکثریت راجپوت تھی اور انہوں نے مغلوں کے لئے بے شمار فتوحات کیں ۔ راجپوت تجارت کو بھی پسند کرتے ہیں اور راجپوتوں کی بہت سی اقوام نے مکمل طور پر تجارت اختیار کرلی ہے ۔ راجپوتوں میں ماڑواری ساہوکار سودی کاروبار کی وجہ سے بدنام ہیں ۔

افغانوں کے پسندیدہ پیشہ سپہ گری اور غلہ بانی ہیں ۔ ترکوں کی برصغیر میں فتوحات کا دارو مدار پٹھان لشکریوں پر تھا ۔ ان کی فوج کے بیشتر سپاہی اور سالار پٹھان تھے ۔ زراعت کو بھی یہ پسند کرتے ہیں اور ان کے بعض قبائل تجارت پیشہ ہیں اور تجارت کے لئے برصغیر تک جاتے تھے ۔ پٹھانوں کا ایک گروہ سود خوری کے لیے بدنام ہے ۔

لونڈیاں

افغان لونڈیوں سے جینسی تعلقات بہت کم رکھتے ہیں ۔ کیوں کہ ان کی اولاد کو ورثہ نہیں ملتا ہے اور نہ ہی ان کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ راجپوتوں میں لونڈیوں سے جو اولاد پیدا ہوتی تھی وہ بھی غلام ہوتی ہے اور یہ گولی کہاتے ہیں ۔ یہ کلمہ غلام سے نکلا ہے ۔ اگرچہ اس اولاد کے مراتب ماں کی ذات کے مطابق ہوتے ہیں ۔ سب سے اونچا درجہ راجپوت کنیز کا ہوتا تھا اس کے بعد مسلمان اور پھر دوسری زات کی لونڈیاں ہوتی تھیں ۔

غلامی

یہ عام غلاموں کی طرح نہیں ہوتے ہیں ۔ یہ اپنے آقا کی زمینوں پر کام کرتے ہیں اور اس کے بدلے صرف خوراک ملتی ہے ۔ یہ زمینوں سے قدم باہر نکال نہیں سکتے ہیں ۔ یہ عموماً کسی ضرورت کی وجہ سے رقم کے بدلے غلامی قبول کر لیتے ہیں ۔ بعض اوقات ان کا پورا خاندان غلام ہوجاتا ہے ۔ یہ چوں کہ خوراک کے بدلے کام کرتے ہیں ، اس لئے یہ خود کو غلامی سے آزاد نہیں کرا نہیں سکتے ہیں ۔ ان کا آقا اگر چاہے تو انہیں فرخت کرسکتا ہے ۔ عموماً ان کی فروخت خاندان سمیت ہوتی ہے ۔ غلامی کی یہ صورت اب بھی خیبر پختون خواہ کے علاوہ جنوبی پنجاب اور سندھ میں بھی پائی جاتی ہے ۔

راجپوتوں میں اس طرح کی غلامی کا رواج ہے ۔ یہ بسی کہلاتے ہیں قحط سالی اس کا سب سے بڑا سبب ہوتا ہے اور خوراک کے بدلے یہ خود کو فروخت کردیتے ہیں ۔ ایسی بھی مثالیں ملتی ہیں کہ بہت سی آبادیاں ان سے آباد ہوگئیں ۔ یہ مورثی غلام ہوتے ہیں اور خود کو آزاد نہیں کرا سکتے ہیں ۔ ہاں آقا چاہے تو ان کو آزاد کرسکتا ہے ۔

سر کونڈی

افغانوں میں رواج ہے سر کے کسی حصہ کے بال کسی بزرگ کی مذر کے طور پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ سر کے بال چھوڑنے کا رواج ہندؤں ، بدھوں کے علاوہ وسط ایشیا ، چینیوں اور منگولوں میں بھی رہا ہے ۔ یہ اپنے سر کے بال عموماً کسی منت کے علاوہ مذہبی رسم کے تحت چھوڑتے ہیں ۔ افغانوں میں سر کے اس طرح بال چھوڑنے کا رواج اس وقت کی یاد گار ہیں جب وہ قدیمی مذاہب پر قائم تھے ۔ یہ آریائی اقوام کی رسم ہے اور افغانوں میں اس وقت کی یادگار ہے ۔

دوم

پشتو میں ہر کاریگر اور دستکار کو استکارہ کہلاتا ہے ۔ مگر بعض علاقوں میں صرف دوم یا نائی یا استکار کہلاتے ہیں اور ان کی عورتیں استکارہ کہلاتی ہیں ۔ بعض علاقوں میں نائی کو ڈم کہتے ہیں ۔ مگر عمومی طور پر نائی (حجام) اپنے آپ کو نائی کہلاتے ہیں اور ڈم کے نام سے برا مانتے ہیں اور ڈم کہلانا اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں ۔

ڈوم اس سر زمین کے قدیم باشندے ہیں اور آریاؤں نے انہی پست درجہ دیا تھا ۔ البیرونی نے بھی ڈوم کا ذکر کیا ہے ۔ کاکڑوں کا ایک قبیلہ ڈومر ہے انہیں بھی پست بتایا جاتا ہے ۔

مغلوں دور میں خادمائیں ڈومنیاں کہلاتی تھیں اور برصغیر میں بھی نائی غمی اور شادی بیاہ ، بیاہ ، منگنی ، بچے کی پیدائش ، ختنہ اور حقیقہ کے موقع پر بالااالذکر خدمات انجام دیتے تھے ۔ مگر اب ان کی اہمیت نہیں رہی ہے ۔ مولانا اشرف تھانویؒ نے شادی بیاہ ، بچے کی پیدائش ، موت اور دوسری تقریبات میں ان کی بیجا شراکت پر نکتہ چینی کی ہے اور انہیں غیر اسلامی بتایا ہے ۔

زئی

افغانوں کے بہت سے قبائل اور ان کی شاخوں کے ناموں میں زئی کا لائقہ استعمال ہوتا ہے ۔ ذات کو پشتو میں ذات ، اوستا میں زات ، فارسی میں زاد اور ہند آریائی میں جات استعمال ہوا ہے ۔ جس کے معنی پیدا شد کے ہیں ۔ زئی اسی کلمہ سے مشتق ہے ۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ آریائی کلمہ ہے اور اس کو استعمال کرنے والے آریائی ہیں ۔

خیل

خیل کے پشتو میں معنی گروہ ، خاندان اور نسل کے ہیں ۔ یہ کلمہ افغان قبائل اور ان کی شاخوں کے ناموں میں بطور لائقہ استعمال ہوتا ہے ۔ یہ کلمہ وسط ایشیا میں ان ہی ناموں میں استعمال ہوا ہے ۔ مغلوں کے خانگی ملازمیں خاصہ خیل کہلاتے تھے ۔ سندھ میں خاصخیلی قبیلہ آباد ہے ۔ یہ غالباً مغلوں کے خاصہ خیل تھے ، جس میں مختلف گروہ اور قوم کے افراد شامل تھے اور بعد میں یہ ایک قبیلے یا قوم میں تبدیل ہوگیا ۔

خال

برصغیر کے باشندوں کی طرح افغانوں میں خال گدوانے کا رواج ہے ۔ خاص کر لڑکیاں ماتھے ، منڈی ، گال اور ہونٹوں پر خال گدواتی ہیں اور عموماً انہیں پسند کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ شہر میں رہنے والی لڑکیاں اسے اب پسند نہیں کرتی ہیں ہیں ، مگر دیہاتوں میں لڑکیاں اب بھی پسند کرتی ہیں ۔ یہ خال چونکہ سبزی مائل نیلا ہوتا ہے ۔ اس لئے شین (ہرا) یا شتکے کہلاتا ہے ۔ اسی مناسبت سے لڑکیاں ’شین خلو ‘ ’شین خالی‘ کے رومانی نام سے پٹوں مصرعوں اور لوگ گیتوں میں بیان کی جاتی ہیں ۔

خال گدوانے کا برصغیر کی قوموں میں عام ہے ۔ ہندؤں میں خاص کر نچلی زاتوں میں اس کا رواج عام ہے ۔ خال گدوانے کے شوقینوں میں عورتوں کے علاوہ مرد بھی شامل ہیں ۔ یہ خال ناموں کے علاوہ پھولوں ، بوٹوں اور مختلف اشکال کی شکل میں گدائے جاتے ہیں اور برصغیر میں قدیم زمانے سے رائج ہیں ۔  

لالہ

یہ کلمہ بڑے بھائی یا اعزازی طور پر معزز افراد کے ناموں کے بجائے ’لالہ‘ استعمال ہوتا ہے ۔ یہ کلمہ سابقہ کی حثیت سے ہند آریائی قوموں میں استعمال ہوا ہے اور آج بھی ہندو بنیے ، دوکاندار سیٹھ اور کاروباری افراد کے لئے اعزازی طور پر استعمال ہوتا ۔ اس کے علاوہ بنیوں کی ایک ذات یا گوت بھی لالہ ہے ۔ اس سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ یہ ہندآریائی کلمہ ہے جسے سابقہ کی حثیت سے آریائی قوموں نے استعمال کرتی ہیں ۔

بال

     کلمہ آریا کا اطلاق ان اقوام پر ہوتا ہے ۔ جن کی جلد سفید اور بال سیاہ تھے ۔ بعض محقیقن نے چند سرخ بالوں والے افراد کو پیش کیا ہے ۔ یہ سرخ بالوں آریایوں کے زمانے میں بھی تھے ۔ منو نے انہیں نیچ قوم قرار دیتا ہے اور ان کے ساتھ اعلیٰ طبقات کی شادی بیاہ ممنوع تھی ۔ افغانوں کے بال عموماً سیاہ ہوتے ہیں مگر ایک اقلیت بھورے یا سرخ بالوں والی چلی آرہی ہے اور اس میں شمالی نارڈک خون کی آمزش ظاہر ہوتی ہے ۔

باگہ لولی

بچے اکٹھے ہوکر لکڑی کے چمچہ میں مٹی بھر کر اس میں آنکھوں کے لئے دو کوڑیاں لگا دیتے ہیں اور ایک چھوٹی سی لکڑی اڑھا کر باندھ کر کسی بچی کا کرتا پہنا دیتے ہیں ۔ پھر بچوں کا یہ گروہ گھر گھر لئے پھرتے ہیں اور اسے باگہ لولی کہتے ہیں اور اسے کو نچا نچا کر بارش کی التجائیں دھراتے ہیں اور اس کا حصہ مانگتے ہیں ۔ کوئی مٹھی بھر آٹا ، گہیوں، جوار ، گڑ یا پیسے دیتا ہے ۔ بچے یہ سب جمع کرکے دوکاندار کے ہاتھ بیچ کر گھی ، آتا اور گڑ لے کر اس کا حلوہ پکا کر کھاتے ہیں ۔ 

برصغیر میں جب بادل آتے ہیں تو بارش کا امکان پیدا ہوتا ہے تو بچے گلی میں شور لگاتے آپ نے سنا ہوگا کہ اللہ میاں بارش دے سو برس کی نانی دے ۔ ہم نے بچپن میں دیکھا ہے کہ بادل جب آتے تھے تو بچے کپڑے کے گڈا اور گڑیا بنا کر اس کا جلوس نکالتے تھے اور نعرے لگاتے پھرتے تھے ۔ یہ دراصل افغانستان سے لے کر برصغیر کے علاقے کی رسومات ہیں جو کہ قدیم زمانہ میں آریا بارش کے لئے کرتے تھے ۔ جو اب بچوں میں باقی رہے گئی ہیں ۔

برصغیر کی قوموں کا خیال یا عقیدہ تھا کہ اس ان کو ادا کرنے سے بارش ہوجاتی ہے ۔ مثلاً پونا میں بارش نہ ہونے کی صورت میں لڑکے اپنے کسی ساتھی کو ننگا کر کے اسے بتوں سے دھک دیتے

ہیں اور اسے بارش کا بیٹا کہتے ہیں ۔ پھر وہ اسے لے کر گھر گھر پھرتے ہیں ، گھر والا یا اس کی بیوی اس پر پانی چھڑکتی ہے اور اسے کھانے کی چیزیں دیتی ہے ۔ جب یہ تمام گھروں کا دورہ کرلیتے ہیں تو بارش کے بیٹا کا لباس اتار دیا جاتا ہے اور تمام اشیاء چٹ کر جاتے ہیں ۔ اس طرح مدراس میں کاشت کاروں کی ایک قوم کاپو یا ریڈی ہے ۔ جب اگر بارش نہ ہو تو اس برادری کی عورتیں جمع ہو کر ایک مینڈک پکر لیتی ہیں اور اسے گھر گھر لئے پھرتی ہیں اور گاتی پھرتی ہیں مینڈکی خانم کو نہانا ہے ، اے بارش کے دیوتا اس کے لئے تھوڑی سی بارش دیدے ۔ گھر والی مینڈک پر پانی ڈالتی ہے اور انہیں خیرات دیتی ہے ۔
بارش کی بالاالذکر رسومات جو قدیم زمانے میں برصغیر کے علاوہ افغانستان میں منائی جاتی تھیں اور یہ ہندؤں میں اب بھی رائج ہیں ۔ یہ آریائی رسومات ہیں اور اب اس علاقہ کے بچوں میں باقی رہے گئیں ہیں ۔
تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں