مشرقی وسطہ جو کہ تمام توحیدی مذاہب کا گڑھ ہے ۔ یہود اگرچہ سب پہلی توحید پرست قوم کہلاتی ہے مگر توحید کا پر چار سب سے پہلے مصری فرعون اخناتون نے کیا تھا ۔ اس کا معبود راع یعنی سورج تھا اور اخناتون کی جو حمدیں دریافت ہوئیں ہیں اس میں ساری صفات خدا کی ہیں اور وہ راع کو ہر چیز کا خالق مانتا تھا ۔ اخناتون کی موت کے بعد اس کا مذہب ختم ہوگیا لیکن اس کے صدیوں تک یہود میں توحید کا شعور پیدا نہ ہوا ۔ یہودی جو کہ یہودا کی پرستش کرتے تھے اور اس کی تمام صفات ایک دیوتا کی رہیں جس یہودی لڑائیوں میں مدد مانگتے تھے ۔ یہودی دوسرے کاموں کے لیے مثلاً بچوں کی پیدائیش ، اچھی فضلوں وغیرہ اور دوسرے کاموں کے لیے مقای دیوتاؤں جن میں بعل اور اشتارت اور دوسرے دیوتاؤں سے مدد مانگتے تھے ۔ محقیقن کا خیال یہودہ جنگ کا دیوتا تھا ۔ وہ نہایت شرمیلا ، قربانیوں کا تقاضہ کرنے والا ، اس کی آنکھیں دیکھتی ہیں اور وہ انسانوں سے کشتی لڑتا ہے ۔ وہ صرف یہود پر مہربان ہے اور غیروں قوموں کے لیے قہار ہے ۔ وہ آبادیوں فتح کرنے کے بعد وہاں کے ہر نفس چاہے انسان ہو یا جانور ان کے قتل کا حکم دیتا ہے ۔ خدا واحد ہے تصور ان میں اسیر بابلی سے پہلے پیدا نہیں ہوا ۔ اسیر بابلی کے بعد ہی ان میں رب العامین ، رحیم و رحمن اور خدا واحد کا تصور پیدا ہوا ۔ مگر ان میں ایک نئے عقیدے جنم لیا کہ ایک مسیحا آئے گا اور وہ انہیں غلامی اور ذلت کی زندگی سے نجات دلائے گا اور دنیا پر ان کی حکمرانی ہوگی ۔ یہی وجہ جب عیسیٰؑ نے بنی ہونے کا دعویٰ کیا تو انہیں مایوسی ہوئی ۔ کیوں عیسیٰؑ نے آسمانی بادشاہت کی بات کی اور انہوں نے عیسیٰؑ کو نبی نہیں مانا ۔ مسیحا کے عقیدے نے یہودیوں پر گہرے اثرات مرتب کئے اور مستقبل میں وجود میں آنے والا یہودیوں کا ہر فرقہ اسی کے تصور و تعبیر سے رکھتا ہے اور اس سے ہٹ کو یہودیوں کا کوئی فرقہ وجود میں نہیں آیا ہے ۔
تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری