sweeper 171

خاکروب

         خاکروب صفائی کرنے والا ، فضلہ اٹھانے والا یہ سماجی طور پر پست ہیں ۔ حتیٰ کہ سیلانی سانسی اور خانہ بدوشوں سے بھی پست ہیں ۔ جب کہ زرعی مزدوروں میں ان کا نمایاں مقام ہے ۔ غلاظت ٹھانا ، گلیوں جھاڑو دینا ، کوڑا کرکٹ اٹھانا اور کھیتوں میں بطور کھاد ڈالنا ان کا آبائی پیشہ ہے ۔ یہ سور اور مرغیاں بھی پالتے ہیں اور چمڑے کا کام کرنے والے اور کسی بیماری سے یا قدرتی موت مرنے والے جانوروں کا گوشت بھی کھاتے ہیں ۔ یہ گیڈر ، چھپکلیاں ، کچھوے اور سور کھاتے ہیں ۔ سیلانیوں کی طرح گھاس اور نسل کا کام کرنے والے مورثی مزدور ہیں ۔ جس سے وہ چھانیں اور زراعت میں استعمال ہونے والی اشیا تیار کرتے ہیں ۔ ان میں سے بہت سوں نے خاکروبی ترک کرکے چمڑے کا کام کرنے لگے ہیں اور اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر کپڑا بننے لگے ہیں ۔ پیشہ کی تبدیلی کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے انہوں نے مردار کھانا چھوڑ دیا ہے ۔

            چوہڑے

            خاکروب یا گندگی صاف کرنے والا چوہڑا یا بھنگی یا حلال خور ۔ یہ اچھوت ہے اور اس کا نام شودر کی تبدیل شدہ صورت خیال کیا جاتا ہے ۔ برصغیر میں ہر تقریباً ہر جگہ ملے گا ، یہ بعض جگہ چوہڑوں کی جگہ دوسری ذاتوں نے لے لی ہے ۔ اس کے بہت سے مترادف ہیں ۔ لیکن چند ایک ہی نام چوہڑا کا درست مفہوم بتاتے ہیں ۔ چنانچہ چمار بھی چمڑے کا کام کرنے والا چوڑا ہے ۔ لیکن اب چمار ایک الگ ذات بن گئی ہے ۔ تاہم عام اصلاح میں چمار چوہڑا اکھتا آتا ہے ۔ چھاڑ پونچھ کرنے یا غلاظت اٹھانے والے خاکروب کو چوہڑا بھی کہتے ہیں اور گھریلو کام کرنے والا چوہڑے کو مہتر کہتے ہیں ۔

            ماخذ

            کہا جاتا ہے کہ ڈوم ، چوہڑیہ ، مراثی ، ماچھی ، چھیور اور چنگڑ کا ماخذ مشترک ہے ۔ دیگر ذاتوں کے ساتھ چوہڑوں کے تعلقات میں بہت تنوع ہے ۔ وہ سانسیوں کی نسبت بلند ہیں اور چنگیڑوں کو بھی اپنے سے کمتر سمجھتے اور دھانک سے بھی کچھ لے کر نہیں کھاتے ہیں ۔

            روایتیں

            ان کی روایت کے مطابق پانڈوں اور کوروں کے عہد میں کنور برہما کے چار بیٹے پوربا ، پارتھا ، سدھر اور پراشٹا تھے ۔ ان میں آخر کو چھونپڑا بھی کہتے تھے ۔ کیوں کہ وہ جنگل میں رہتا تھا ۔ اسے اور اس کے جانشینوں کو کچھ اور دیگر نام بھی دیئے گئے ہیں ۔ مثلاً گھونگر بیگ ، لال بیگ ، پیر چھوٹا ، بالمیک اور بالا وغیرہ ۔ چوہڑا ذات کے حوالے سے بہت سی روایتیں ہیں اور زیادہ تر اسے بالمیک سے ملاتی ہیں ۔ جغرافیائی لحاظ سے چوہڑے خود کو دو بڑے حصوں بالمیکی اور لال بیگ میں تقسیم کرتے ہیں ۔ یہ خود کو مختلف نسلوں سے بتاتے ہیں ۔ ان میں سے بعض راجپوت گاؤں کے چوہڑے راجپوت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔

            شاخیں

            گل گوجرانوالہ میں چکراری سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ایک درخت نے ان کے جد امجد کو بارش میں گیلا ہونے سے بچایا تھا ۔ ڈیرہ غازی خان میں شاخ اینٹوں کا احترام کرتی ہے ۔ دیگر نام بھٹی ، سہوترے ، سوئنی بھنیار ، لڈو اور کھوکھر وغیرہ ہیں ۔ خیبر پختون میں بہت کم ملتا ہے ، وہاں یہ خود کو جٹ بتاتے ہیں ۔ پٹھان چوہڑوں کا کہنا ہے کہ وہ اکبر کے دور میں کابل سے آئے تھے ۔ وہ تین بھائی تھے اور بڑے بھائی کا نام ڈھگانا تھا ۔ وہ پیروں یا فقیروں کے بھیس میں آئے تھے ۔

            خدمت گار

            پنجاب میں وہ کھیتوں میں مزدوری کرتا ہوا بھی نظر آتا ہے ۔ یہ خاص دیہی خدمت گار ہے ۔ جو گاؤں میں پیداوار میں سے اپنا حصہ وصول کرتا تھا اور مخصوص فرائض جس میں گھر گھر جاکر جھاڑو دینا ، گاؤں کا گوبر اکھٹا کرنا اور اپنے اوپلے تھاپنا ، کھاد ڈالنا ، مویشی پالنے میں مدد کرنا اور انہیں ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں لے جانا ۔ کسی عزیز دوست کو وفات کی خبر اسی کے ذریعے بھیجی جاتی ہیں اور وہ گاؤں کا عام قاصد تھا ۔ وہ جھاج بناتا اور چھکڑوں کو ڈھانپنے کے کے لیے سرکی یا گھاس کے چھپر وغیرہ بھی ۔ وہ ہل جوتنے اور سخت کھیت مزدوری کے علاوہ دیگر کام بھی کرتا تھا ۔ وہ ایسے مردہ جانوروں کا حقدار ہے تھا جس کا کھر دو شاخہ نہ ہو ۔ پٹھے ہوئے سم والے جانور چمار کے ہوتے تھے ۔

            مذہب

            ان کے پیروں کے نام بالاشاء مارکھنڈے ، میاں شورا ، لال بیگ ، بالمیک ، چھونپڑا ، پیر جھوٹا ، گنگر بیگ اور ایل ملوک ہیں ۔ وہ انہیں ایک بالا کا اوتار سمجھتے ہیں ۔ ایک روایت میں چھونپڑا کو الف چیلا یعنی دسواں اوتار کہا گیا ہے ۔ شادیوں کے موقع ہر ایک میراثی کسی صاف جگہ پر آٹے سے دیا بنا کر دیوار رکھ دیتا ہے اور لوگ اس کے سامنے جھکتے ہیں ۔ اس دیئے کو کو ان کی اجداد کی جوت سمجھا جاتا ہے ۔ ان فقیر یا سادھو شاہ مداری ، نوشاہیہ ، ننگے شاہیہ یتیم سہائیہ اور بیرگی ہیں ۔ شاہ مدار یا اپنے سر پر لٹ یا بودی رکھتا اور مالا پہنتا ہے ۔ ننگے شاہیے کے بال لمبے اور بوڑھ کے دودھ میں گندھے ہوتے ہیں ۔ وہ انہیں ایک اون کی رسی سے سر کو باندھتا اور اوپر ایک پیلے کپڑے کی پگڑی باندھتا ہے ۔ وہ بارہ سال ننگے رہتے اور بدن پر بھبھوت ملتے ہیں ۔ بیراگیوں کہ کپڑے بھی نوشاہیوں جیسے ہیں ۔ لیکن وہ اپنے بیٹھنے کے لیے ایک بیراگن بھی ساتھ رکھتا ہے ۔ نوشاہیے بالوں کی چٹیاں کرتے ، گلے میں مالا اور کلائی میں گجرا پہنتے ہیں ۔ یتیم شاہیہ بیراگی جیسا ہے ۔ یہ پیر ان کی شادیوں اور جنازوں کی رسوم ادا کرتے ہیں ۔

            مذہبی اصول

            ان کے مذہب کے بنیادی اصول یا عقائد یہ ہیں (۱) گناہ ایک حقیقت ہے (۲) خدا ہے (۳) بالا ثالت ہے (۴) وہ ایک جانور کی قربانی دیتے اور مکئی ، گڑ اور گھی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں ۔ (۵) روح خدا کی طرف لوٹ جاتی ہے ۔ (۶) جسم دوبارہ زندہ ہوگا ۔ (۷) فرشتے موجود ہیں ۔ ان گوتوں کے ارکان بالمیک کو خدا کا بھائی مانتے تھے اور اسلامی طرز عبادت (نماز) کے ذریعے عقیدت کا اظہار کرتے تھے ، ایک شخص انہیں قطاروں میں کھڑا کرکے ان کی امامت کرتا اور اس دوران یہ جملے بولے جاتے تھے کہ بالمیک کافی ، بالمیک شافی ، بالمیک معافی ، بولو مومنوں وہی ایک ہے ۔

            معاشرتی زندگی

            یہ پہلے لڑکی کو پندہ سولہ سال کی عمر سے پہلے بیاہنانے پر ضرور دیتے تھے ۔    چوہڑے اپنی گوت میں شادی نہیں کرتے ہیں ۔ بیوی کی موت کے بعد سالی سے شادی کی اجازت ہے ۔ دو بیویاں بھی رکھتے ہیں ، مگر پہلی بیوی خصوصی استحقاق رکھتی ہے ۔ پہلے لڑکی کو سات یا آٹھ اور حتیٰ کہ پانچ سال کی عمر میں بیاہ دیا جاتا تھا ۔ شادی کے معمالات نائی ، چھیما یا مراثی کے ذریعے نمٹائے جائے ہیں ۔ ہر صورت میں والدین کی اجازت ضروری ہے ۔ مگر بیوہ کی شادی میں ایسا کرنا ضروری نہیں ہے ۔ شادی کرتے وقت لڑکی کی مرضی یا پسند یا ناپسند معلوم نہیں کی جاتی ہے ۔ لڑکے والے ایک مخصوص رقم دے کر شادی کا معاہدہ کرتے ہیں ۔ اگر رشتہ طہ کرتے وقت لڑکی والوں یا لڑکے والوں نے کوئی بات چھپائی ہے تو منگنی توڑی جاسکتی ہے یا شادی کے بعد کوئی نقص کا بتہ چلے تو طلاق دینا بھی ممکن ہے ۔ مطلقہ عورت دوسری شادی کرسکتی ہے ۔

            مذہب

            مذہب کی تبدیلی کے ساتھ چوہڑے کا خطاب بھی بدل جاتا ہے ۔ چنانچہ سکھ مت قبول کرنے والا چوہڑا مذبی یا مذہبی کہلاتا ہے ۔ اور اسلام قبول کرنے والا مصلی یا مسلی کہلاتا ہے ۔ ان پیشوں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ مذہب میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے ۔ چوہڑوں کا اصل مذہب ہندو مذہب ہے اور اس کے گروؤں میں ایک بالا شاہ بالمیک ہے جو کرنا کا شکاری بتایا جاتا ہے ۔ اس نے اپنا مذہب بدل کر رامائن لکھی ، ان کا ایک گرو لال بیگ ہے اور وہ اپنے پروہتوں کو لال گرو کہتے ہیں ۔ یہ بالعموم پھیروں کے تحت شادی کرتے ہیں اور اپنے مردوں کا سر نیچے کرکے دفن کرتے ہیں ۔ اکثر اس حوالے سے دیہاتوں کی روایات اختیار بھی کرلیتا ہے ۔ یعنی ہندو گاؤں میں مردے جلنا اور مسلمانوں میں اپنے مردے دفنانا ۔   

            تدفین

            چوہڑے عموماً اپنے مردے دفن کرتے ہیں ، جب کوئی شخص مرنے والا ہو تو مسلمان مولوی کو بلاتے ہیں کہ وہ سہانی پڑے ، لیکن ارد گرد ہندو رہتے ہوں اور گاؤں میں کوئی ملا موجود ہو تو ایسا کچھ نہیں کرتے ہیں ۔   

            توہمات

            عورت کو زچگی کے اکیس دن تک ناپاک سمجھتے ہیں ۔ وہ ماہوای کے دوران کنوئیں پر پانی پھرنے نہیں جاتی ہے اور حیض ختم ہونے کے بعد وہ اپنے کپڑے دھوتی اور نہاتی ہے ۔ جنازے کے تمام شرکاء کو تدفین سے فارغ ہوکر نہاتے ہیں ۔ چوہڑوں کی کچھ دلچسپ ٹوٹم اور ٹیپو ہیں ۔ مثلاً گل چوہڑے بتاؤں (بیگن) یا بھتاپرت (اروی) نہیں کھاتے ہیں ۔ لوتے چوہڑے خرگوش نہیں کھاتے ہیں ۔ سہوترے کسی شیر پر نگاہ نہیں ٖڈالتے ہیں ۔ تاہم وہ شادی کے موقعے پر ایک شیر کی شبیہ بناکر عورتیں اس کی پوجا کرتی ہیں ۔ بھٹی چوہڑے پھٹوں اور اینٹوں سے بنے ہوئے بینچ پر نہیں بیٹھتے ہیں ۔ کوئی بھی چوہڑا سہیہ نہیں کھاتا ۔ ساروان چوہڑا کسنبھا سے کپڑے نہیں رنگتا ہے ۔

            چوہڑوں کے اندر مختلف توہمات پائے جاتے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی چوہڑا اگر سفر پر روانہ ہوگا اور اس کی ملاقات مراثی سے ہوجائے تو تو وہ واپس لوٹ جاتا ہے ۔ اس طرح اگر کوئی پیچھے سے آواز دے کر بلائے تو بھی جانا منسوخ کر دیا جاتا ہے ۔ راستے میں کوئی رینکتا ہوا گدھا ملنا نیک شگون ہے ۔ اگر سفر میں روانہ ہوتے ہوئے دھوبی مل جائے تو مقصد پورا ہونا یقینی ہے ۔ کچھ لوگوں کو خوش بخت سمجھا اور راہیوں سے ملنے بھیجا جاتا ہے ۔ چوہڑا کبھی جھاڑو کے اوپر پیر نہیں رکھتا ہے ۔ غلے کے لیے استعمال ہونے والی جھاڑو کو گھر میں کیل کے ساتھ دیوار پر لٹکایا جاتا ہے ۔ عام صفائی والی جھاڑو ہر گز اوپر کھڑا نہیں کرتے ہیں ۔ چوہڑے اپنے بچوں کے بعزتی والے نام رکھتے ہیں تکہ انہیں نظر نہیں رکھتے ہیں ۔ مثلاً کاکا ، گھسیٹیا ، روڈا ، نتھو وغیرہ ۔ چوہڑا کبھی کسی گگڑے یا سانسی کو ہاتھ نہیں لگاتا ۔ عورتیں اور بچے قبروں کے قریب نہیں جاتے ہیں ۔ بہو کبھی سسر کا نام نہیں لیتی ہے ۔ فضلیں ہمیشہ اتوار ، پیر یا جمہ کو کاٹی اور پیر یا منگل یا بدھ کو بوئی جاتی ہے ۔ گھر میں سب لوگ اکھٹا کھاتے ہیں ۔ لیکن عورتیں بعد میں کھاتی ہیں ۔ اگر مرد عورتوں کے بعد کھائیں تو انہیں چوٹ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ کیوں کہ عورتیں مردوں کی نسبتیں کمزور ہیں ۔ یا جھوٹھ یا جھوٹ دونوں نقصان پہنچاندے ۔ وہ شراب ، پوست ، افیم پھنگ اور چرس استعمال کرتے ہیں ۔ نشیئوں سے نفرت کی جاتی ہے ۔ وہ کسی بڑے سے ملتے وقت پیری پاں (پاؤں پڑنا) متھا ٹیکناں (ماٹھا ٹیکوں) یا سلام بولتے ہیں اور جواب میں تیرا بھلا کرے خدا کہتے ہیں ۔ چوہڑے آپس میں مل کر حقہ پیتے ہیں ۔ کوئی بھی برتر ذات ان کے ساتھ کھاتی پیتی نہیں ہے ۔  

            سکھ چوہڑ ۔۔ مذبی یا رنگریٹا

            سکھ چوہڑے مذبی کہلاتے ہیں اور مذبی سکھ مت قبول کرنا والا یا پاہل لینے والا خاکروب ہے ۔ ایک چوہڑا پائل لینے کے بعد بال کٹوانے ، تماکو نوشی سے پرہیز کے علاوہ فضلہ اٹھانے سے انکار کر دیتا ہے ۔ تاہم چوہڑوں کے دیگر فرائض انجام وہ انجام دیتا ہے ۔ تاہم مورثی غلاظت کے داغ کی وجہ دوسرے سکھ اپنی مذہبی اور دوسری تقاریب میں بھی ان سے میل جول نہیں رکھتے ہیں ۔ وہ اکثر لال بیگی یا ہندو جوہڑوں کے ساتھ باہم ازواج کرتے ہیں ۔ لیکن وہ اچھے سپاہی ہیں اور ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کبھی بدنام ڈاکو ہوا کرتے تھے ۔ انہیں رنگریٹا بھی کہا جاتا ہے اس کے معنی میرا بیٹا کے اور گرو نے انہیں یہ خطاب دیا تھا ، کیوں کہ وہ گرو جی کا کٹا پھٹا بدن دہلی سے لائے تھے ۔ رنگریٹوں نے عموماً خاکروبی کا کام چھوڑ کر چمڑے کا کام شروع کردیا ہے ۔

            مسلمان چوہڑ ۔۔ مصلی ، کتانہ وغیرہ

            وسط پنجاب میں تقربیاً سارے چوہڑے مسلمان ہیں اور انہیں بالعموم مصلی یا کتانہ کہا جاتا ہے ۔ جب کہ مشرقی پنجاب میں ان کو دین دار کہا جاتا تھا یا پھر کھوجا ۔ ایک مسلمان چوہڑا اس وقت تک چوہڑا کہلاتا ہے وہ جب تک فضلہ اٹھاتا ہے ۔ لیکن یہ پیشہ ترک کردے تو وہ مصلی کہا جاتا ہے ۔ جو چوہڑے سے اعلیٰ طبقہ سمجھا جاتا ہے ۔ خیبر پختون خواہ میں مصلی جھاڑو کش کے ساتھ گورکن بھی ہے ۔ بالائی سندھ کے کنارے آباد ہونے والے مصلی جو کہ گھاس اور نرسل کا کام کرتے ہیں شاہی خیل بھی کہلاتے ہیں ۔    

            کتانے یا کرتانے ایسا مسلمان جھاڑو کش طبقہ ہے جس نے فضلہ اٹھانا اور مردار کشی چھوڑ دی ہے اور صفائی کے علاوہ رسے ، نرسل اور گھاس کا کام کرتا ہے ۔ تاہم اس کا اطلاق کسی بھی جھاڑو کش مسلمان پر ہوتا ہے ۔ کچھ کرتانے زراعتی کام بھی کرتے ہیں ۔ جب تک کرتانے فضلہ اٹھانے کام اور مردار خور نہیں چھوڑتے ہیں مسلمان ان سے تعلقات نہیں رکھتے ہیں ۔

            مشرق اور شمال میں چوہڑوں نے بڑی تعداد میں عیسایت قبول کرلی ہے ، اگرچہ انہوں نے مردار کھانا چھوڑ دیا ہے مگر فضلہ کا کام کرنے کی وجہ سے پست درجہ کے مانے جاتے ہیں اور ان کے پاردی اور گرجا گھر الگ ہیں ۔

            چوہڑوں کی شاخیں                       چوہڑوں کی شاخوں کے علاوہ کثیر تعداد چوہڑوں کی وہی ذات ہے جو کہ گائوں کے دیگر باشندوں کی ہوتی ہے ۔ مثلاً اگر یہ کسی چوہانوں کے گاؤں کے چوہڑے کی ذات بھی چوہان ہوگی ۔ تاہم کی سب سے بڑی ذات سہوتراہ ہے اور دیگر ذاتیں یہ ہیں ۔ (۱) سہوترا (۲) سندھو (۳) گل (۴) بھٹی (۵) کھوکھر (۶) متو (۷) کھارو (۸) کلیانا (۹) لدھڑ (۱۰) چھپری بند (۱۱) اونٹوال (۱۲) قندھاری (۱۳) ہانسی (۱۴) کھوسٹر (۱۵) بورت (۱۶) دھاریوال ۔

            گندھیلہ

            یہ سیلانی اور پست درجہ کا قبیلہ ہے ۔ یہ باوریوں کچھ ہی زیادہ قابل عزت ہیں ۔ یہ عموماً برہنہ سر اور پیر پھرتے اور بھیگ مانگتے ہین۔ یہ پیال کا کام کرتے ہیں ، بٹیر پکڑتے ، چاقو اور تلواریں صاف و دھار لگاتے ہیں ، لکڑی کاٹتے اور عام فالتو نوعیت کے کام کرتے ہیں ۔ کچھوے اور چھوٹے موٹے جانور کھاتے ، گدھے پالتے اور چھوٹے موٹے تجارت بھی کرتے اور ریچھ کا تماشہ دیکھاتے ہیں ۔ ان کی ایک دلچسپ روایت ہے کہ ان کی سلطنت جو کہ دریائے سندھ کے آگے تھی اور ان سے چھن گئی ۔ جب تک وہ انہیں واپس نہیں ملے گی وہ جوتے اور پگڑیاں نہیں پہنیں گے ۔   

            دھانک

            یہ پنجاب میں میں کم تاہم وسط ہندوستان میں بہار تک کثیر تعدا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ یہ سب نچلی سطح کے کام کرتے ہیں ۔ جن میں خدمت گاری ، تیر اندازی ، چوکیداری اور چڑی ماڑ وغیرہ ہیں ۔ ایلٹ کا کہنا ہے کہ یہ اہیروں کی شاخ ہیں ۔ ولسن ان کے نام کو سنسکرت کے دھنشک (کمان بردار) سے ماخوذ قرار دیتا ہے ۔ مگر یہ شکاری نہیں ہیں اور چوہڑوں سے مختلف کام کرتے ہین ۔ یہ نہ خاکروبی کرتے ہیں اور نہ فضلہ اٹھاتے ہیں ۔ یہ دیہاتوں میں کپڑا بننے کا کام بھی کرتے ہیں ۔ مگر بتایا جاتا ہے کہ چوہڑے انہیں حقیر سمجھتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کا جھوٹا کھانا نہیں کھاتے ہیں ۔ لیکن ان کا مذہب چوہڑوں کی طرح کا ہے ۔ یہ اپنے مردوں کو دفن کرتے اور پھیرا لگا کر شادی کرتے ہیں ۔ تاہم ان کی شادی کی رسومات برہمن ادا نہیں کرتے ہیں ۔

            کھتک ان میں سے بہت سے مسلمان ہوگئے ہیں اور وہ پاسیوں کے ساتھ قریبی طور پر منسلک ہیں ۔ وہ خاکروبوں اور چمڑے کے کام کرنے والوں کے ساتھ رابطہ کا تعلق تشکیل دیتے ہیں ۔ لیکن موچیوں سے کہیں زیادہ سماجی حثیت سے پست ہیں ۔ وہ بڑے پیمانے پر سور اور مرغیاں پالتے ہیں ۔ جو کہ کوئی چمار نہیں پالتا ہے ۔ ان میں سے بہت سے چمڑا رنگنے ، صاف کرنے اور اس کی اشیا بناتے ہیں ۔ لیکن کھیتک صرف بھیڑ بکریوں کی دباعت کا کام نمک اور مدار کے رس کی مدد سے کرتے ہیں اور چونا استعمال نہیں کرتے ہیں ۔ جب کہ ایک چمڑنگ بیل اور بھینس کی کھال چونے سے دباعت کرتا ہے اور چمڑا نہیں رنگتا ہے ۔ شاید چمرنگ پیشہ ہو اور یہ ان میں گڈ مڈ ہوگئے ہوں

            بعض کھیتک بھیڑ بکریاں بھی پالتے ہیں اور ان کے بالوں کے کمر بند بنایا کرتے تھے ۔ اور وہ عموماً قصاب کا کام بھی کرتا ہے ۔ بعض اوقات یہ بہت پست ہے ۔ لیکن مغرب کا کھیتک چمڑے کی دباعت کا کام کرنے والا ہے اور مشرق کا کھیتک سور پالنے والا ہے ۔ تاہم یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہندو کھیتک سور پالنے والا ہے اور مسلمان کھیتک چمار سے زیادہ نہیں ہے ۔ جس نے اسلام قبول کرلیا ہے ۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں