tradition 496

روایات

اگر لوگوں سے یہ سوال کیا جائے کہ وہ اپنی زندگی کسی کے زیر اثر گزارتے ہیں تو اس کے مختلف جواب ملیں گے مگر کوئی شاید ہی اس کا درست جواب دے پائے اور اس کا درست جواب ہے روایت کے زیر اثر ۔ ہاں ہم روایت زیر اثر اپنی زندگی گزارتے ہیں ۔

روایات

آپ اس سے انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ ہمارا اٹھنا ، بیٹھنا ، کھانا پینا ، ہمارے دوسروں سے سماجی تعلقات ، رشتہ داریاں ، ہمار دشمنیاں ، ہماری دوستیاں ، ہماری رہائش اور ہمارا لباس ، حتیٰ کے مذہی رسومات غرض ہمارے ہر فعل روایت کے زیر اثر ہیں اور ہم اس کے زیر زندگی گزارتے ہیں ۔  ہماری قدیم روایات ، خیالات اور تصورات کو ہماری زندگی میں جو اہمیت حاصل ہے اس کے متعلق یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ ہم اس کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں اور ہم اپنی زندگی کے امور ننانوے فیصدی تک روایات کے مطابق گزارتے ہیں اور ایک فیصدی اس سے ہٹ کر امور انجام دیتے ہیں ۔ دوسرے الفاظوں میں ہم اپنی زندگی کا جو حص گزارتے ہیں اس کا بڑا حصہ ضروری اور کار آمد چیزوں پر نہیں بلکہ رسمی چیزوں پر خرچ ہوتا ہے اور یہ سب روایات کے تابع ہوتی ہیں ۔ ہمیں آرام دہ اور صحت مند زندگی گزارنے کے لیے بہت تھورا سامان اور کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کپڑے ہی کیا ہم اپنی زندگی میں بہت سی چیزیں ایسی استعمال کرتے جن کی ہمیں قطعی ضرورت نہیں ہوتی ہے یا ہم ان کے بغیر زندگی آرام سے گزار سکتے ہیں ۔ مگر اس کے باوجود ہم ان پر ضرورت سے زیادہ سرف کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر ہمارے لیے بے کار مضر صحت ہیں اور ان کی بدولت ہمارے بدن مزاحمت اور قوت مدافعت کم ہوتی ہے ۔

روایات
ہندو ہولی کے موقع پر اپنا تہورا مناتے ہوئے

یہی حال روایت کا ہے جب ہم زندگی کے امور میں روایتوں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں تو ہماری زندگی کا زیادہ حصہ بے مقصد اور تنگ نظری پر مبنیٰ ہوتا ہے ۔ اس طرح روایات ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے ۔ یہاں کہنے کا یہ مقصد ہے کہ قدیم روایات اور ان خیالات کو ہماری زندگی میں کس قدر اہمیت حاصل ہے ہم ان سے ہٹ کر زندگی نہیں گزارتے ہیں ۔ حلانکہ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم آزدانہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں ۔ اس طرح انسانوں کی زندگی میں جو باہم دشمنی نفرت اور رقابت پائی جاتی ہے اس کے لیے ہماری بقاء اور دوسرں کی مال و دولت چھینے کی خواہش کافی نہیں ہے ۔ بلکہ اس کی روایات ہماری جبلتوں میں شامل ہوچکی ہے ۔ جس سے روایتوں کا منفی اثر بھی دیکھنے میں آتا ہے ۔ مثلاٍ لڑکیوں کی شادی ان کی مرضی کے مطابق کرنے پر ان کو قتل کردینا ۔ اس طرح کا ادنیٰ انسانی جبلتوں کا ناگوار مظاہرہ اکثر ان روایتوں کا نتیجہ ہوتا ہے جو ہمیں ان پر عمل کرنے سے فخر کا احساس اور ان سے انحراف کرنے سے ہمیں شرمندگی کا احساس ہوتا ہے ۔یہ رواتات کا منفی پہلو ہے جس کی اہمیت اپر بتائی گئی ہے ۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہے کہ ہماری اجتماعی زندگی میں استحکام روایات کی بدولت حاصل ہوتا ہے ۔ ہم روایات کے بغیر تہذیب و تمذن کا کوئی کارنامہ یا کسی قسم کی ترقی صعنت و حرفت ، فنون لطیفہ ، معاشرت اور مذہب یا علم و حکمت میں ترقی ممکن نہیں ہے ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اکثر ذہین ماں باپ کی اولاد نکمی یا اسے ماں باپ کے کارناموں سے دلچسپی نہیں ہوتی ہے ۔ لہذا اگر روایات کا سلسلہ جاری نہ رہتا تو بہت سی ایجادیں اور بڑے کارنامے ضائع ہوجاتے اور آنے والی نسلیں انہیں محفوظ رکھ نہیں سکتیں ۔ ہر شخص اپنی حالت پر غور کرکے یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ اس کے علم اور تجربہ ، نیم شعوری اور قابلیتوں کا کتنا حصہ روایات کی بدولت حاصل ہوا ہے اور اس کے علم و عمل میں خود اس کی جدت طبع کو کس قدر دخل ہے ۔ وہ تمام اوزار جن سے ہم کام لیتے ہیں ۔ مثلاً قلم ، قنچی ، چاقو یا ہل اب سے ہزاروں سال پہلے ایجاد ہوئے تھے ۔ اس طرح چھکڑے اور پیے کی روایات موجود نہیں ہوتی تو نوع انسانی کے دل میں مدتوں سے نقل و حرکت میں آسانی پیدا نہ ہوتی اور آج گاڑیوں ہوائی جہاز وغیرہ کا وجود نہیں ہوتا ۔انسانی زندگی کے ذہنی اور روحانی دائرے میں تحفظ اور استحکام پیدا کرنے کی روایت کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہے ۔ ہمیں اس کے لیے دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ، ہر دور میں ایسے پیشواؤں اور جھوٹے رہنماؤں کی کمی نہیں رہی ہے جو لوگوں کو بہکا کر باہمی نفرت اور فساد کا سبق پڑھاتے رہے ہیں ۔ اگر روایات ہماری تائید و مدد نہیں کرتیں تو ہم غلط تاویلات میں الجھ کر ہم گمراہی کے گڑھے میں گر کر غلط راہوں کے باسی بن جاتے ۔اس بحث سے آپ پر بخوبی واضح ہوگیا روایت کی سمت درست ہو تو یہ نہ صرف ہمارے لیے برکت اور تقویت کا باعث بھی ہوتی ہے ۔ مگر غلط روایت کی حثیت سے کہ اس کا بوجھ ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بھی ہوتا ہے ۔

تہذیب و تدوین
عبدالمعین انصاری

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں